••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
*🕯ریگزار کربلا میں آخری سجدہ🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
📬 عالم اسلام کے لئے وہ لمحہ کتنا اذیت ناک، روح فرسا اور غم آگیں تھا جب نواسۂ رسول جگر گوشۂ بتول حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خون ناحق سے سرزمین کربلا لالہ زار ہوگئی، کہتے ہیں کہ وقت سب سے بڑا مرہم ہے جو بڑے سے بڑا زخم کو بھر دیتا ہے مگر اہلِ بیت اطہار ظلم و بربریت کی اس عظیم داستان کا نام ہے جیسے چودہ سو سال گزر جانے کے باوجود اس کرۂ ارض پر اپنے محبوب دوجہاں کی اداؤں پر اپنی جانوں کا صدقہ نچھاور کرنے والے ملت اسلامیہ کے عربوں افراد کبھی فراموش نہ کر پائے اور بلا تفریق رنگ و نسل اور زمان و مکان کلمۂ اسلام سے وابستگی کے بعد ہر انسان واقعاتِ کرب و بلا پر آج تک ماتم کناں ہے، اور یہ اپنے مالک کون و مکاں اور محبوب دو عالم سے ایمانی اور جذباتی رشتے ہی کی بات ہے کہ قاتل امام عالی مقام یزید پلید کو اس ناپاک جسارت پر ملت اسلامیہ کی زبان آج تک لعنت و ملامت کر رہی ہے اور جب تک اس سرزمین پر اپنے نبی کا کلمہ پڑھنے والے زندہ ہیں یہ سلسلہ یونہی جاری وساری رہے گا، یہی وجہ ہے کہ تاریخ اسلام میں اسے "قیامت صغریٰ” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ایسے غم مشترک سے نہ کبھی نسل انسانی وابستہ ہوئی اور نہ ہوگی —- مگر— اس خاکدان گیتی پر ایسے افراد بھی موجود ہیں جن کی بدبختیوں اور شقاوتوں نے ان کی آنکھوں سے حقیقت کا جوہر چھین لیا ہے، جو اہل بیت اطہار کی اس عظیم شہادت و قربانی کو شکست سے تعبیر کرتے زرا بھی نہیں شرماتے،
واقعاتِ کربلا اور شہادت نواسۂ رسول کا غم اپنی جگہ مگر یہ نکتہ اب بھی عام افراد کی نگاہوں سے اوجھل ہے کہ حضرت امام نے دشت کربلا میں اپنی اور اپنے اعیال کی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے اسلامی حصار و مزاج کے تعمیر میں جو نمایاں کردار ادا کیا ہے تاریخ اسلامی قیامت تک ان کی دوربین نگاہوں کی معترف اور ان کی کرم نوازیوں پر نازاں رہے گی، حضرت امام عالی مقام نے جبر و استبداد، انحراف سنت نبوی، تمرد و سر کشی اور بد خلقی کے مقابلے میں اخلاق و رواداری، جذبۂ اسلامی اور اطاعت احکام نبوی کی روح شہادت عظمیٰ کے باوجود نئی نسلوں کی بجھی ہوئی رگوں میں پھونک کر چلے گئے اور کفر و انحراف پر ایمان و اطاعت کی یہ ایسی کامرانی تھی جو آج تک جاری ہے، زندہ رہ کر تو کبھی شکست و ریخت ہاتھ آتی ہے تو کبھی فتح و کامرانی مگر جو شہید ہوکر فاتح ہوتے ہیں ان کی فتح کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا،
جو لوگ شہادت امام حسین کو شکست وریخت سے تعبیر کرتے ہیں انہیں سب سے پہلے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ فتح کسے کہتے ہیں؟ اے کاش! اگر انہوں نے یہ جان لینے کی کوشش کی ہوتی تو زندگی بھر ملت اسلامیہ کی جانب سے رسول دوجہاں سے وفا کیشی کا خراج وصولتے رہتے،
فتح کیا ہے؟ ١اپنے موقف پر ثابت قدمی، ٢ اور اپنے مقصد کا حصول اب دیکھنا یہ ہے کہ حضرت امام حسین کا موقف کیا تھا؟ اور وہ اپنے موقف پر ثابت قدم کیسے رہے؟ کیا ان کا موقف مال و متاع اور تخت و تاج کی حصولیابی تھی؟ اگر ایسا ہوتا تو کبھی بھی وہ صرف ٧٢ افراد جن میں معصوم بچے اور پردہ نشین خواتین بھی شامل تھیں کو لیکر اہل عراق کی دعوت پر یزید کی مطلق العنانی حکومت کی مخالفت کے لئے نہ نکل پڑتے اور اگر نکل پڑے تھے تو کربلا کے میدان کارزار میں ٢٢ ہزار افواج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے ہوتے کیونکہ حکومت کے حصول کے لئے قوت مقابلہ اور مدافعت دونوں ہی شرطیں ہیں اور حضرت امام عالی مقام کے پاس ان دونوں میں سے کچھ بھی نہ تھا، اسی سے واضح ہو گیا کہ نہ تو ان کو مال و زر اور نہ ہی تخت و تاج کی طلب تھی، تو پھر ان کا موقف کیا تھا؟ اس بات کو تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ جب خلافت نبوی بنی امیہ کو ملی تو اس عظیم منصب پر ٥٠ھ میں یزید بن معاویہ تخت نشین ہوا جس کی بدکاریوں کے چرچے عام تھے، فسق و فجور اور جرم و خطا کی ساری سرحدیں اس نے پھلانگ دی تھی اور وہ کسی بھی طور اس با برکت اور عظیم الشان منصب کا اہل نہ تھا، جس کے بارے میں خود مخبر صادق محبوب دوجہاں ﷺ پیشین گوئی فرمائی تھی کہ،
اول من يبدل سنتى رجل من بنى امية يقال له يزيد
میری سنت کا پہلا بدلنے والا بنی امیہ کا ایک شخص ہوگا جس کا نام یزید ہوگا، (تاریخ الخلفاء)
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا
لايزال أمر امتى قائما بالقسط حتى يكون أول من يثلمة رجل من بنى امية يقال له يزيد
میری امت ہمیشہ عدل و انصاف پر قائم رہے گی یہاں تک کہ بنی امیہ میں یزید نامی ایک شخص ہوگا جو اس عدل میں رخنہ اندازی کرے گا، (تاریخ الخلفاء)
ایسے بدکردار شخص نے جب منصب خلافت سنبھالی تو حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی بیعت و خلافت سے انکار کر دیا اور یہی ان کا موقف تھا، کیونکہ یہ اسلامی منصب تھا جو فرامین خدا و رسول کا پابند تھا جس منصب پر بیٹھ کر انسان خودمختار ہوکر بھی احکام خداوندی اور اطاعت رسول کا پابند تھا اور صالح نظام کی تشکیل میں اس کے کسی بھی فیصلے میں اپنے جذبات واحساسات کا عمل دخل نہ تھا بلکہ عمل کے صدور و نفاذ میں وہ اسلامی اصول و ضوابط کا مطیع تھا،جس کی بنیاد خداوند قدوس نے اپنے اس فرمان کے ذریعہ ڈال دی کہ يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ إِلَى ٱلْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِى يَوْمٍۢ كَانَ مِقْدَارُهُۥٓ أَلْفَ سَنَةٍۢ مِّمَّا تَعُدُّونَ (پ ٢١ سورہ سجدہ)
کام کی تدبیر فرماتا ہے آسمان سے زمین تک پھر اسی کی طرف رجوع کرےگا اس دن کہ جس کی مقدار ہزار برس ہے تمہاری گنتی میں (ترجمہ کنزالایمان)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا، اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ(پ ١٧ سورہ حج)
کیا تونے نہ جانا کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے بے شک یہ سب ایک کتاب میں ہے، بے شک یہ اللہ پر آسان ہے(ترجمہ کنزالایمان)
ہفت اقلیم کے اسی تصور کی بنیاد پر کائنات میں اللہ ربّ العزت کی فرمانروائی ہے اور ساری انتظام و انصرام اسی کی ذات سے وابستہ ہے، عالم فانی سے لیکر عالم جاودانی تک ہر ایک ذرہ اس کی جنبشِ نگاہ کا پابند ہے جس کی اعتراف کے لئے کسی خارجی حجت کی ضرورت نہیں، وہ اپنی حاکمیت کو بزور مسلط نہیں کرتا بلکہ اپنی کتاب قرآن مقدس کے ذریعہ متلاشیان حق و صداقت کو دعوت فکر و عمل دیتا ہے، جو راست پر آ گئے دنیا و آخرت اس کی زیرِ نگیں ہوگئی جو بھٹک گئے نامرادی ان کا مقدر ٹھہری
: قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ ٱلسَّمْعَ وَٱلْأَبْصَٰرَ وَمَن يُخْرِجُ ٱلْحَىَّ مِنَ ٱلْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ ٱلْمَيِّتَ مِنَ ٱلْحَىِّ وَمَن يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ ۚ فَسَيَقُولُونَ ٱللَّهُ ۚ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ (سورہ یونس)
تم فرماؤ تمہیں کون روزی دیتا ہے آسمان اور زمین سے یا کون مالک ہے کان اور آنکھوں کا اور کون نکالتا ہے زندہ کو مردے سے اور نکالتا ہے مردہ کو زندے سے اور کون تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے تو اب کہیں گے کہ اللہ تو تم فرماؤ تم کیوں نہیں ڈرتے، (ترجمہ کنزالایمان)
کائنات میں اپنی حاکمیت کے اس نظام کو چلانے کے لئے اس نے جہاں رسل و انبیاء کی بعثت فرمائی وہیں اپنی نیابت و خلافت کا اعلان بھی کیا تاکہ انسانی معاشرہ فطرت خداوندی کا آئینہ دار ہو جس نظام کو چلانے میں بشری کمیاں اور کمزوریاں حائل نہ ہو گویا وہ انسانی حکومت کے چلانے میں خدا و رسول کی بالادستی قبول کرتے ہوئے اس کی نیابت کا فریضہ انجام دے اور اپنے تمام اختیارات خواہ وہ تشریعی ہو یا عدالتی یا انتظامی وہ خدائی احکام سے مقید ہو،
اسلامی نظام کی تشکیل کی جو بنیاد مالک کونین نے ڈالی تھی اس کی صحیح تصویرتاجدارِ کائنات نے پیش فرمائی اور اس عظیم منصب پر متمکن ہونے والوں کو اپنے قول و فعل سے مجبور کردیا کہ وہ بھی ان ہدایات پر سختی سے کاربند رہیں،
جس نیابت و خلافت کو خلفائے راشدین نے احسن طریقے سے چلا کر محبوب دوجہاں کے سچے جانشین ہونے کا حق ادا کیا، یہی وجہ ہے کہ اس زریں عہد میں جو خلیفہ ہوتا تھا وہی سیاسی حکمراں بھی ہوا کرتا تھا، قاضی القضاء بھی، مذہبی قائد بھی، سپہ سالار بھی اور روحانی تاجدار بھی، جہاں تمام مسائل کی عقدہ کشائی اور اس کے حل کے لئے ایک ہی ذات ہوا کرتی تھی جس کے ارد گرد معاشرے کا سارا نظام چلتا تھا مگر جب یہ خلافتِ نبوی تبدیل ہوتے ہوئے یزید بن معاویہ کے ہاتھوں آئی تو برسوں سے چلی آ رہی خدائی بنیادوں کی جڑیں ہل گئیں،جو دل اطاعت خداوندی کا آئینہ دار اور محبت رسول کی آماجگاہ تھے تمرد و سرکشی پر اتر آئے جو معاشرہ فطرت خداوندی کا مظہر تھا شر و فساد کا مسکن بن گیا،
خدائی فکر و عمل کے خلاف آج سے چودہ سو برس قبل جو طوفان سر اٹھا رہا تھا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اگر اس پر بندھ نہ باندھا ہوتا اور گلشنِ اسلام کی آبیاری اپنے خونِ جگر سے نہ کی ہوتی تو خلافت و نیابت کا مزاج کچھ اور ہی ہوتا، یہ حضرت امام عالی مقام کی فتح و نصرت کی بین دلیل ہے کہ انہوں نے ایسے بدکردار شخص کی مخالفت کرکے اور اس کی بیعت نہ کرکے ملت اسلامیہ کو یہ مزاج دے دیا کہ نائب رسول اور خلیفۂ نبی وہی ہو سکتا ہے جو اپنے قول و عمل سے خدائی احکام کی تشریح کرے اور اپنے اس موقف پر اپنی سانسوں کی آخری رفتار تک ثابت قدم رہے، اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے جگر کے ٹکڑوں کے لہو بہتے دیکھتے رہے مگر ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی، کیونکہ ان کی دور رس نگاہیں یہ دیکھ رہی تھیں کہ آج اگر میرے قدم ڈگمگا گئے تو آنے والی نسلوں کے لئے میں یہ سند فراہم کردوں گا کہ نواسۂ رسول نے ایک ظالم و جابر حکمراں کے ہاتھوں اپنا ہاتھ دے کر جبر و استبداد اور انحراف خداوندی کے ہاتھ مضبوط کر دئیے اس لئے کوئی بھی نا اہل اس منصب پر بیٹھ کر خدا کی حاکمیت کا مزاق اڑا سکتا ہے،
حضور اکرم ﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا تھا کہ الحسين منى و انا من الحسين حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے، حضور پاک ﷺ کے اس دقیع جملے سے جہاں ذات حسین مراد ہے وہیں اس کا واضح مفہوم یہ بھی ہے کہ جب جب میرے دین سے کوئی انحراف کرے گا، حسین اسے اطاعت و بندگی سیکھائیں گے، ناموسِ الوہیت و رسالت کا تحفظ اپنی زندگی کا مشن بنائیں گے اور اگر کبھی کوئی میرے دین پر انگشت نمائی کرے گا تو اس کی سرخروئی کے لئے اپنا خون دے کر بھی اس کی آبیاری کرنی پڑی تو حسین اس بھی دریغ نہ کریں گے، حضرت امام عالی مقام نے نانا جان کے اس بھرم کو دنیا میں عملی طور پر پیش کرکے یقیناً اسلامی مزاج کا تحفظ کیا ہے،
اس پورے منظر نامے سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو گئی کہ حضرت امام عالی مقام اپنے موقف میں پوری طرح ثابت قدم رہے اور جان دے کر یزید سے منصب خلافت چھین لی، حالانکہ یزید کو خلافت کے لئے نامزد بھی کیا گیا، اس نے سماج سے اپنی بیعت بھی لی مگر اپنے ماسبق خلفاء حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت علی اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی طرح منصب خلافت نبوی اور مذہبی قیادت حاصل نہ کر سکا، یزید کو حکمرانی تو مل گئی مگر حضرت امام عالی مقام نے اس کے خلاف منصب خلافت نبوی اور مذہبی قیادت کی نااہلیت کا بگل بجا کر اسلام مزاج کو جو تحفظ فراہم کیا تھا وہ پورا ہو گیا اور اس کی دھمک اس طرح قائم ہوئی کہ مشرق وسطیٰ سے لے کر مغرب میں جہاں تک اس کی سلطنت قائم تھی عسکری قوت کے زیر اثر اسے اپنا سیاسی حکمراں تو مان لیا مگر خلیفۃ المسلمین، امیر المومنین اور مذہبی و روحانی قائد ماننے سے ہر شخص انکاری ہو گیا، تاریخ شاہد ہے کہ حضرت امام حسین نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے منصب خلافت نبوی اور مذہبی قیادت کی نااہلیت کی بنیاد پر یزید کے خلاف جو تحریک چلائی تھی جب تک زمین پر خلافت باقی رہی کسی بھی ظالم و جابر حکمراں کو منصب نہ مل سکا، لہذا یہ ماننا ہوگا کہ کہ حضرت امام حسین نے شہادت پاکر بھی اپنا نام تاریخ اسلامی میں ایک فاتح کی حیثیت سے درج کرا لیا۔
https://t.me/Faizan_E_DarulUloom_Amjadia_Ngp
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*از قلم✍🏻 محمد ایوب مظہر نظامی جنرل سیکرٹری رؤیت ہلال کمیٹی و خادم جامعہ غریب نواز نبی نگر طیب پور کشن گنج بہار۔*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں