تاجدار اہل سنت ومرکز اتحاد ملت
مفتی اعظم ہندحضرت علامہ مفتی مصطفٰے رضاخاں نوری قدس سرہ العزیز امام اہل سنت اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخاں قادری علیہ الرحمۃ والرضوان (۲۷۲۱ھ-۰۴۳۱ھ)کے خلف اصغر ہیں -آپ کی ولادت شہربریلی میں ۲۲:ذی الحجہ ۰۱۳۱ھ کو بروزجمعہ صبح صادق کے وقت ہوئی-پیدائشی نام ”محمد“اورعرف ”مصطفٰے رضا“رکھاگیا- حضرت شاہ ابوالحسین نوری مارہروی قدس سرہ العزیزنے ”آل الرحمن ابوالبرکات“لقب دیا-اورجب آپ چھ ماہ کے تھے,حضرت نوری میاں مارہروی رحمۃ اللہ علیہ بریلی شریف تشریف لائے اور أپ کو جملہ سلاسل عالیہ کی اجازت عطافرمائی-اورساتھ ہی امام احمدرضا قادری قدس سرہ العزیز کویہ بشارت عظمیٰ سنائی۔
”یہ بچہ دین وملت کی بڑی خدمت کرے گا-اورمخلوق خدا کواس کی ذات سے بہت فیض پہنچے گا-یہ بچہ ولی ہے“۔
تعلیم وتربیت:
آپ نے جملہ علوم وفنون اپنے والدماجد امام احمدرضاقادری،برادراکبرحجۃ الاسلام حضرت مولاناحامدرضاخاں قادری،استاذ الاساتذہ حضرت مولانارحم الٰہی آروی،شیخ العلماء حضرت علامہ سیدشاہ بشیراحمدعلی گڑھی،شمس العلماء حضرت علامہ ظہورالحسین فاروقی رامپوری علیہم الرحمۃ والرضوان سے حاصل کئے-اوراٹھارہ سال کی عمرمیں تقریباً چالیس علوم وفنون حاصل کرکے سندفراغت حاصل کی۔
درس وافتاء:
جامعہ رضویہ منظراسلام بریلی شریف میں ۸۲۳۱ھ/۰۱۹۱ء سے۶۵۳۱ھ-۴۳۹۱ء تک یعنی تقریباً پچیس سال تک درس دیتے رہے-اس کے بعد اپنے قائم کردہ ادارہ مدرسہ مظہراسلام بریلی شریف میں درس وتدریس کاشغل رہااوراخیرعمرتک فتویٰ نویسی کی خدمت سرانجام دیتے رہے۔
انکساری وخاکساری:
متعلقین خانقاہ بیت الانوارشہرگیا(بہار)بیان کرتے ہیں کہ تاجداراہل سنت حضورمفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ والرضوان شہرگیابرابر آتے جاتے رہتے تھے-ٹرین سے ریلوے اسٹیشن اترتے اوررکشہ لے کرخانقاہ بیت الانوار تشریف لاتے-ایک مرتبہ لوگ کار لے کر ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے -حضرت کار پر سوار نہ ہوئے, بلکہ ہمیشہ کی طرح رکشہ پربیٹھے اورچل دیئے۔
حضور مفتی اعظم ہند کا کارپرسوارنہ ہوناکسی حکم شرعی کی بنیادپرنہ تھا-بلکہ آپ کارپراس لئے سوارنہ ہوئے کہ پھرہمیشہ لوگوں کوکارکی زحمت اٹھانی پڑے گی -
حضورمفتی اعظم ہندایسے عظیم رہنماتھے کہ فلائٹ پرسوارہوں توبھی تاجداراہل سنت،اورگھوڑا گاڑی پرسوارہوں توبھی تاجداراہل سنت۔
اتباع شرع:
کچھی مسجد اکولہ مہاراشٹرکے مصلیوں نے بتایاکہ حضورمفتی اعظم ہندعلیہ الرحمہ علاقہ برارکے شہراکولہ (مہاراشٹر)تشریف لے گئے-جس گھر میں آپ کاقیام تھا-وہاں پانی کے نل سے پانی کے قطرات ٹپک رہے تھے اور پانی ضائع ہورہاتھا-حضرت نے مالک مکان کواسے درست کرنے کوفرمایا-مہمانوں کی آمدورفت میں صاحب مکان کے ذہن سے یہ بات نکل گئی-چندگھنٹوں بعدحضرت نے نل کودیکھاتوویساہی ہے-اس مرتبہ حضرت نے سختی سے اسے ٹھیک کرنے کوکہا- اور فرمایا - اگر اسے درست نہ کیاگیاتومیں قیام گاہ بدل دوں گا-میزبان نے آناً فاناً اسے درست کرایا۔
یہ اعلیٰ درجہ کی تقویٰ شعاری ہے -آج کے عہد میں میزبان کوخوش رکھاجاتاہے-تاکہ لفافہ کی ضخامت کم نہ ہو۔
متقی بن کردکھائے اس زمانہ میں کوئی
ایک میرے مفتی اعظم کاتقویٰ چھوڑکر
حکمت عملی:
حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ العزیز ان ہستیوں میں سے تھے جن کاظاہروباطن یکساں تھا،حدیث نبوی میں ہے کہ قرب قیامت شریعت پرعمل بڑا مشکل ہوگا - مگرمفتی اعظم ہند ان برگزیدہ مومنین میں سے تھے جوحالات سے بے پرواہ ہوکراتباع شرع میں مشغول رہتے ہیں -وہ زمانہ کے پیچھے نہیں دوڑتے-بلکہ زمانہ ایسے لوگوں کے پیچھے دوڑتاہے-وہ ماحول کے تابع نہیں ہوتے،بلکہ ماحول ان کے تابع ہوتاہے-جہاں گئے،اپنی ایک نئی دنیا آباد کر گئے -خودبھی ان کاباطن منور تھا- اور جس پرنگاہ ڈال دی،اس کے دل کی دنیابھی بدل گئی-
ان کا ایک نمایاں وصف یہ بھی تھاکہ ان کے عہدمیں علماء ومشائخ متحد و متفق تھے-مفتی اعظم ہندکے وصال کے چند سالوں بعدعلمائے اہل سنت وجماعت میں انتشاروافتراق رونماہواجس کا کوئی علاج کارگرثابت نہ ہوا-بلکہ مرض بڑھتاگیاجوں جوں دواکی۔
ایمرجنسی اورنسبندی:
ایمرجنسی(1975-1977) کے دورمیں حکومت نے نسبندی کاجبری قانون نافذکیا-اورلوگوں کوپکڑپکڑ کرزبردستی نسبندی کی جانے لگی-حکومت کے ملازمین کوسخت تاکیدکی گئی کہ خودنسبندی کراؤ اورپانچ دس کوبھی نسبندی کےلئے لاؤ-ورنہ تنخواہ روک دی جائے گی- یا ملازمت ختم کردی جائے گی-
حکومت کے اس ظلم وزیادتی کے سبب پورے ملک میں کھلبلی مچ گئی-کانگریسی مفتی جوپہلے انگریز اورپھرکانگریس کے اشارے پر کام کرتے تھے-انہوں نے حکومت سے سوداکرلیا اورنسبندی کے جائزہونے کافتویٰ دے دیا-حکومت نے اس فتویٰ کوذریعہ بناکر نسبندی میں اورشدت پیدا کر دی -گاؤں اوردیہات میں گھوم گھوم کر نسبندی کی جانے لگی-جب نسبندی ٹیم کی گاڑی گاؤں میں پہنچ جاتی تولوگ گھرچھوڑکربھاگ جاتے-وہ کھیتوں اورجنگلوں میں جاکرچھپ جاتے-علمائے حق نے جب اس پراحتجاج کیاتوحکومت سخت برہم ہوگئی-اوران میں سے بعض کوجیل میں ڈال دیا-اور دوسرے علماء کی سخت نگرانی کی جانے لگی-ایسے وقت میں حضرت مفتی اعظم ہندعلیہ الرحمۃ والرضوان حکومت کے بالمقابل کلمہ حق کہنے کے لئے کھڑے ہو گئے - اور بڑی بے باکی سے کام لیتے ہوئے فتویٰ جاری کردیا کہ:نسبندی حرام ہے-اورکئی وجوہ سے حرام ہے-اللہ کی پیداکی ہوئی چیزکوبدلنا حرام-بے وجہ شرعی کسی نس یاعضوکوکاٹنا بھی حرام-دوسرے کے سامنے سترغلیظ کھولنابھی حرام-اورانسان کاخصی ہونا یا کرنا بھی حرام۔
پھرآپ نے حکومت کے خلاف لکھے گئے اس فتویٰ کوسائیکلواسٹائل کراکے پورے ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں پھیلادیا-حکومت آپ کے فتویٰ کے بالمقابل بے بس ہوکررہ گئی-انجام کار اہل حکومت نے آپ کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کر دیا اور ضلع کلکٹر کے ذریعہ مسلح فورس بھیج کر آپ کی گرفتاری کا حکم نامہ جاری کردیا-لیکن صوبائی حکومت کے ایک وزیراور سابق اسپیکریوپی نے مرکزی حکومت کوصورت حال سے آگاہ کیا-اورکہاکہ اگرمفتی اعظم کے ہاتھوں میں ہتھکڑی ڈال دی گئی توان کے ماننے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد سڑکوں پرنکل آئے گی-اور سارا ہندوستان خون میں ڈوب جائے گا-اس طرح آپ کی گرفتاری کامنصوبہ حکومت کوواپس لیناپڑا۔
وفات حسرت آیات:
آپ تقریباً سترسال تک درس وافتاء اورخدمات دینیہ سرانجام دیتے رہے-14:محرم الحرام ۲۰۴۱ھ-مطابق11:نومبر۱۸۹۱ء بدھ کی رات کو ایک بج کر چالیس منٹ پرواصل الی اللہ ہوئے- اناللہ وانا الیہ راجعون
تصانیف وتالیفات:
آپ زیادہ ترفتویٰ نویسی میں مصروف رہتے-اس لئے مستقل تصنیف وتالیف کاموقع کم ہی ملتا-پھربھی قریباً چالیس کتابیں آپ کی یادگار ہیں -ان میں سے بعض آپ کے فتاویٰ ہیں اوربعض مستقل تصنیف۔
تصانیف کی ناتمام فہرست درج ذیل ہے۔
(1)فتاویٰ مصطفویہ
(2)اشدالعذاب علیٰ عابدالخناس
(3)حاشیہ تفسیراحمدی
(4)حاشیہ فتاویٰ عزیزیہ (5)حاشیہ فتاویٰ رضویہ پنجم
(6)کشف ضلال دیوبند
(7) وقعات السنان فی حلق المسماۃ ببسط البنان
(8)الرمح الدیانی علیٰ رأس الوسواس الشیطانی
(9)النکتۃ علیٰ مرأۃ کلکتہ
(10)صلیم الدیان لتقطیع حبالۃ الشیطا ن
(11)سیف القہار علیٰ عبیدالکفار
(12)نفی العار عن معائب المولوی عبدالغفار
(13)مقتل کذب وکید
(14)مقتل کذب وجہل
(15)ادخال السنان الیٰ حلق بسط البنان
(16)وقایۃ اہل السنۃ عن مکردیوبند والفتنہ
(17)الٰہی ضرب بہ اہل الحرب
(18)الموت الاحمرعلیٰ کل النجس الاکفر
(18)الملفوظ(چار حصص)
(20) القول العجیب فی جواز التثویب
(21)الطاری الداری لہفوات عبدالباری
(22)طرق الہدیٰ و الارشادالیٰ احکام الامارۃ والجہاد
(23)فصل الخلافہ
(24)حجۃ واہرۃ بوجوب الحجۃ الحاضرۃ
(25)القسورۃ علیٰ ادوارالحمرالکفرۃ
(26)سامان بخشش
(27)طردالشیطان
(28)مسائل سماع
(29)مسلک مراد آباد پرمعترضانہ ریمارک
(30)نہایۃ السنان
(31)شفاء العی فی جواب سوال بمبئ
(32)الکاوی فی العاوی و الغاوی
(33)القثم القاصم للداسم القاسم
(34) نورالفرقان بین جندالالٰہ واحزاب الشیطان
(35) تنویرالحجۃ بالتواء الحجۃ (36) وہابیہ کی تقیہ بازی
(37)الحجۃ الباہرۃ
(38)نورالعرفان
(39) داڑھی کا مسئلہ۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:
14:محرم الحرام 1444
مطابق 13:اگست 2022
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں