جشن آزادی منائیں یا خاموش رہیں؟

مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

جشن آزادی منائیں یا خاموش رہیں؟

پندرہ اگست کو بھارت نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی تھی,لہذا اس دن کو ایک ملکی تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے۔چند سالوں سے بھارتی مسلمانوں کو خوف ودہشت میں مبتلا رکھنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔مسلمانوں پر ظلم وستم اور قہر وجبر کی خبریں بھی اقوام عالم تک پہنچ رہی ہیں۔بھارت کا جو باشندہ اس کے خلاف آواز اٹھائے,اس کی ناکہ بندی کرنے کی رسم بد بھی جاری ہو چکی ہے۔

ایسی صورت میں لوگ سوال کر رہے ہیں کہ جشن آزادی منائیں یا نہ منائیں۔ہمارا مشورہ یہی ہے کہ جشن آزادی ضرور منائیں-اسی تقریب میں اس پر بھی بحث کریں کہ بھارت میں مسلمانوں کی آزادی سلب کرنے کے عملی اقدام شروع ہو چکے ہیں,اس کو کیسے روکا جائے۔دفاعی قوتوں کو کیسے متحرک کیا جائے۔

آپ چھوٹی موٹی کوششیں کرتے رہیں,پھر ان شاء اللہ تعالی کوئی مسیحا جلوہ گر ہو گا جو منجدھار میں ہچکولے کھانے والی کشتئ قوم کو اپنے زور بازو سے ساحل نجات تک کھینچ لائے گا۔اگر قوم سو جائے تو مسیحا بھی آنکھوں پر مسح کرتا رہ جائے گا۔

(2)بھارت میں کوئی مسلم بادشاہ نہیں۔ایسی صورت میں یہاں جہاد کی اجازت نہیں۔بیرون ملک کی بعض جہادی تنظیموں سے رابطہ کے سبب بعض مسلم نوجوان حکومت کی گرفت میں آ جاتے ہیں اور پھر ان کی زندگی تباہ کر دی جاتی ہے۔کوئی بھی کلمہ گو ایسی تحریکوں سے وابستگی قائم نہ کرے۔اس سے خود اس کا مستقبل بھی تباہ ہوتا ہے اور قوم مسلم پر بھی آفت آتی اور بدنامی ہوتی ہے۔

جمہوری اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے قوم مسلم کی بھلائی کی کوشش ضرور جاری رہنی چاہئے۔دہشت گردوں سے دور رہیں۔سکھوں نے بھی زور آزمائی کی کوشش کی تھی۔آپریشن بلیو اسٹار:1984 کے موقع پر پنجابیوں کو تہس نہس کر دیا گیا۔نہتے لوگ فوجوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔

(3)ان شاء اللہ تعالی حالات درست ہوں گے,بشرطے کہ ہم حالات کی درستگی کے واسطے جائز اور موثر کوشش کریں۔2024 میں حکومت کی تبدیلی کے واسطے ماحول سازی کریں۔سب کچھ ممکن ہے۔ممکن کو محال سمجھنا ہی غلط ہے۔ایمرجنسی(1975-1977) کے بعد جب لوک سبھا الیکشن:1977 میں کانگریس کی شکست ہوئی,تب بھارتیوں کو یقین ہوا کہ کانگریس بھی ہار سکتی ہے۔ابھی لوگوں کو اس بات کا یقین ہی نہیں ہو پا رہا ہے کہ بھاجپا بھی ہار سکتی ہے۔

تاتاریوں کی لگاتار فتح یابی اور ہر محاذ پر کامیابی دیکھ کر دنیا والوں کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ اب تاتاریوں کو روکنا بہت مشکل ہے۔یہ لوگ سارے اسلامی علاقوں پر قابض ہو جائیں گے۔

مصر وشام کے سرحدی علاقوں میں واقع"عین جالوت"کے پاس 25:رمضان المبارک 658 مطابق 1260عیسوی کو تاتاریوں اور مسمانوں کا فیصلہ کن معرکہ لڑا گیا۔تاتاریوں نے بغداد کو تباہ کر دیا تھا۔مصر وشام کے بہت سے علاقوں پر چنگیزی خاندان قابض ہو چکا تھا۔اب یہ لوگ مصر پر حملہ کی تیاری کر رہے تھے۔ہلاکو خاں کا سپہ سالار کتبغا خاں بیس ہزار کے لشکر کے ساتھ عین جالوت کے میدان میں خیمہ زن تھا۔

ہلاکو خاں نے سلطان مصر کو خط لکھا تھا کہ اطاعت قبول کر لو۔اگر تم نے میری بات نہ مانی تو اس کا انجام ایسا ہو گا جو تم نہیں جانتے۔

ہلاکو خان کے سفیروں نے بھی فتوحات کے نشے میں بدمست ہو کر بادشاہ مصر کے سامنے اس کی گستاخی کی۔سلطان مصر نے حکم دیا کہ ان تاتاریوں کی زبانیں گدی سے کھینچ کر ان کو قتل کر دیا جائے۔

اس کے بعد مصر کے بادشاہ,سلطان سیف الدین قطز اپنے سپہ سالار رکن الدین بیبرس اور بیس ہزار کا لشکر لے کر عین جالوت کے پاس پہنچے۔

عین جالوت کے پاس دونوں افواج میں سخت معرکہ آرائی ہوئی۔تاتاریوں میں سے کوئی بچ نہ سکا۔بہت سے لوگ قتل ہوئے اوربہت سے قید ہوئے۔چنگیزیوں کے سپہ سالار کتبغا خاں کو مسلم افواج کے سپہ سالار رکن الدین بیبرس نے گرفتار کر لیا,پھر اسے قتل کر دیا۔

تاتاری سپہ سالار کتبغا خاں کی لاش مصر لائی گئی اور تاتاری افواج کے قیدیوں کو بھی مصر لایا گیا۔تاتاری سالار کی لاش اور تاتاری فوج کے قیدیوں کو قاہرہ کی گلیوں میں گشت کرایا گیا۔اس کے بعد قیدی سپاہیوں کو بھی قتل کر دیا گیا۔تاتاریوں نے ایسی بدترین شکست کبھی نہیں کھائی تھی۔اس شکست کے بعد تاتاریوں کی فتوحات کا سلسلہ تھم گیا۔لوگوں کا یہ وہم دور ہو گیا کہ تاتاری ناقابل تسخیر ہیں۔

تاتاریوں کی تاریخی شکست کی خبر جنگل کی آگ کی طرح ساری دنیا میں پھیل گئی۔فلسطین وشام کے بہت سے علاقوں میں مسلمانوں نے بغاوت کر دی اور بہت سے علاقے چنگیزیوں سے چھین لئے۔اب ہر جگہ لوگ تاتاریوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے اور چین کے جنگلی علاقوں کے یہ وحشی درندے منہ پھاڑ کر موت کے منہ میں چلے جاتے۔

طارق انور مصباحی 

جاری کردہ:12:اگست 2022

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے