جس نے پیدا کر دیا ہر ذرے میں طوفانِ شوق
✍️ وزیر احمد مصباحی
یقیناً علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ، ماضی قریب کی ایک شش جہات و عہد ساز شخصیت کا نام ہے۔ جنھوں نے اللہ و اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے لیے تن من دھن کی بازی لگا کر پوری زندگی دین و سنیت کی آبیاری فرمائی۔ تحریر و تقریر، سیاست و قیادت اور تصنیف و تالیف کے میدان ہوں یا امت مسلمہ کی زلف برہم کو سنوارنے کے لیے کوسوں دور کا سفر، ہر ایک محاذ پر آپ نے گہرا نقش چھوڑا ہے۔ آئیے آئندہ سطور میں آپ کی باکمال حیات سے قدرے آشنائی حاصل کرتے ہیں۔
ارشد القادری ہندوستان میں ایک حنفی سنی اسلامی مسلم عالم دین تھے اور ان کا تعلق اہل سنت والجماعت سے تھا۔
نام :-🔶 اصل نام غلام رشید ہے لیکن قلمی نام ارشد القادری ہے اور آپ اسی نام سے مشہور ہیں۔ والد ماجد کا نام عبد اللطیف رشیدی، ہے۔
ولادت :-🔶 آپ5 مارچ 1925ء اتر پردیش کے ضلع بلیا کے سیدپورہ گاؤں میں پیدا ہوئے.
تعلیم :- 🔶 ابتدائی تعلیم گھر کے علمی ماحول میں حاصل کی، پھر تقریباً آٹھ سال حافظ ملت حضرت علامہ عبد العزیز محدث مرادآبادی ثم مبارک پوری [بانی: جامعہ اشرفیہ، اعظم گڑھ، اتر پردیش،بھارت] کی آغوش تربیت میں رہ کر خوب خوب اکتساب علم و ہنر کیا۔1944ء میں دار العلوم اشرفیہ کے سالانہ جلسہ ٔ دستار بندی میں آپ کو سند فضیلت سے نوازا گیا۔ اس کے بعد آپ تدریس کے لیے ناگ پور پھر وہاں سے 1952ء میں جمشید پور تشریف لے آئے۔ نصف صدی سے زائد پر محیط تدریسی دور میں تقریباً ڈیڑھ ہزار طلبہ نے آپ سے اکتساب علم کیا، آپ ایک صاحب طرز ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ تحقیقی ذہن وفکر رکھنے والے صاحب قلم بھی تھے۔ آپ کی نثر میں بلا کی جاذبیت وہ کشش پائی جاتی ہے میرے اس دعوے کی واضح دلیل کے طور پر یہ اقتباس دیکھیں:
"افسانہ نویس فرضی کہانی گڑھتا ہے اور اس میں بیانیہ نثر اور اپنے اسلوب کی طرح داری، اپنی رنگین بیانی وغیرہ سے کام لے کر حسن و تاثیر برپا کرتا ہے، حالانکہ یہ افسانے زمین ہی سے جڑے ہوتے ہیں، نیز انسانی دنیا اور انسانی ماحول کے قصے اور واقعات ہوتے ہیں، لیکن علامہ ارشد القادری افسانے نہیں گڑھتے، بلکہ حقیقی واقعات کو اپنے قلم کی سحرکاری سے افسانوی زبان و بیان میں اس طرح سامنے لاتے ہیں کہ حقیقت کا کوئی بھی گوشہ کسی طرح آلودگی کے بغیر اپنا وہ روپ دکھاتا ہے کہ نگاہیں جلؤوں میں گم سچائی کے ایک ایک تاباں و توانا زاویہ کی زیارت سے محفوظ ہوتی ہیں اور ایمان و عقائد کا جہان نور آباد ہو جاتا ہے"۔ [از: ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی، بریلی شریف]
تصنیفات : - 🔶 آپ کی تین درجن سے زائد تصنیفات و تالیفات ہیں جن میں
زلزلہ ،
زیر و زبر، اور
لالہ زار بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
کارہاے نمایاں :- 🔶 آپ نے خدا داد صلاحیت کی بدولت پورے ملک میں مدارس ومساجد کا ایک جال بچھا دیا۔ آپ کی دو درجن سے زائد تصانیف، متعدد کتب پر مقدمہ و تقریظ، ماہنامہ جام نور،جام کوثر،رفاقت، شان ملت کے علاوہ ملک کے مختلف جرائد و رسا ئل میں آپ کے ادارتی و فکر و عمل سے لبریز مضامین و شہہ پارے آپ کی ادبی حیثیت کے ثبوت میں روشن دلائل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ملک و بیرونِ ملک آپ نے کئی ادارے قائم کیے ہیں۔ جن کی مجموعی تعداد تین درجن سے زائد ہے۔ جن میں جامعہ حضرت نظام الدین اولیا دہلی،ادارۂ شرعیہ، پٹنہ، عالمی دعوتی، اصلاحی تحریک دعوت اسلامی ،ورلڈ اسلامک مشن لندن، جامعہ مدینۃالاسلام ہالینڈ، دار العلوم علیمیہ جمدآشاہی، سورینام امریکا اور مدرسہ فیض العلوم جمشید پور وغیرہ کا قیام آپ کے زریں کارنامے ہیں۔
انھوں نے ملی ،جماعتی ،مفاد میں ملک وبیرون ملک سینکڑوں مضبوط ومستحکم قلعہ تعمیر کرنے کے باوجود اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے ایک جھونپڑی بھی نہیں بنائی۔
القابات :- 🔶 قائد اہل سنت، رئیس القلم۔
وفات : - 🔶 ارشد القادری 29 اپریل 2002ء) کو وفات پا گیے۔
_______________-__________-___
اللہ کریم نے گوناگوں خصوصیات و کمالات سے آپ کو خوب خوب نوازا تھا۔۔۔ عشق نبی کی دولت لازوال تو خوب خوب پائی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جب آپ کبھی تصور جاناں کی طرف لو لگا کر صفحۂ قرطاس پر اشعار رقم فرماتے تو بالکل روانگی کے ساتھ اظہارِ عقل و خرد کرتے چلے جاتے اور پھر جب اسے گنگناتے تو ایسی بلا کی چاشنی ملتی کہ پورا وجود تاجدارِ مدینہ کی حسین یادوں سے بھیگ جاتا اور ساتھ ہی دل مضطر کو بھی قرار آ جاتا۔ آپ کی ہر ایک نعت عشق نبی کی رنگ سے معمور ہے۔ آپ کا ایک نعتیہ مجموعہ بھی بنام "اظہارِ عقیدت" مارکیٹ میں دستیاب ہے. راقم الحروف کو یہ نعت تو بے حد پسند ہے۔ لیجیے 👇آپ بھی گنگنائیں اور صاحب کون و مکان کی حسین یادوں میں گم ہو جائیں۔ ___
بہرِ دیدار مشتاق ہے ہر نظر دونوں عالم کے سرکارآجائیے
چاندنی رات ہے اور پچھلا پہر دونوں عالم کے سرکارآجائیے
سدرۃ المنتہیٰ، عرش وباغِ ارم ہر جگہ پڑچکے ہیں نشانِ قدم اب تو اک بار اپنے غلاموں کے گھر دونوں عالم کےسرکار آجائیے
شامِ امید کا اب سویرا ہوا شہرِ طیبہ نگاہوں کا ڈیرا ہوا
بچھ گئے راہ میں فرشِ قلب ونظر دونوں عالم کے سرکار آجائیے
سامنے جلوہ گر پیکرِ نور ہو منکروں کا بھی سرکار شک دور ہو
کرکے تبدیل اک دن لباسِ بشر دونوں عالم کے سرکار آجائیے
دل کا ٹوٹا ہوا آبگینہ لیے جذبۂ اشتیاقِ مدینہ لیے
کتنے گھائل کھڑے ہیں سرِ رہ گزر دونوں عالم کے سرکار آجائیے
میرے گلشن کو اک بار مہکائیے اپنے جلوئوں کی بارش میں نہلائیے
دیدۂ شوق کو کیجئے بہرہ ور دونوں عالم کے سرکار آجائیے
تاابد اپنی قسمت پہ نازاں رہیں خاک ہوجائیں پھر بھی فروزاں رہیں
دل کی بزمِ تمنا میں اک بار اگر دونوں عالم کے سرکار آجائیے
آخری وقت ہے ایک بیمار کا دل مچلنے لگا شوقِ دیدار کا
بجھ نہ جائے کہیں یہ چراغِ سحر دونوں عالم کے سرکار آجائیے
شامِ غربت ہے اور شہر خاموش ہے ایک ارشدؔ اکیلا کفن پوش ہے
خوف کی ہے گھڑی وقت ہے پُر خطر دونوں عالم کے سرکار آجائیے ***__________________
Wazirmisbahi87@gmail.com
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں