علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کی شفقتیں

علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کی شفقتیں

میں اپنی زندگی کے تین اہم واقعات کو پیش کرتا ہوں جس سے حضرت کی شفقتیں ٹپکتی ہیں۔
(1)فیض العلوم کے زمانہ طالب علمی کی بات ہے 21/ مئی 1981ء کی شدید گرمی تھی۔میں آٹوڈرائیور کے بگل میں بیٹھا تھا۔آٹورکشہ بہت تیز دوڑ رہا تھا۔اچانک سامنے سے آرہے ایک تیز رفتار موٹرسائکل سے ٹکراجاتا ہے۔دونوں گاڑیاں کچھ اوپر اچھل جاتی ہیں ۔میں پہلے زمین پر گرتاہوں اور میرے بائیں ران پر آٹوآکر گرتاہے۔میری ران کی ہڈی بری طرح ٹوٹ جاتی ہے۔دوسرے سوار وں کو بھی چونٹیں آئیں لیکن میں شدید مجروح ہوا۔مجھے ٹاٹا مین ہاسپٹل جمشید پور میں ایڈمٹ کیا گیا۔دس دنوں تک علاج و معالجہ چلا اور پھر کمر تک پلاسٹر کرکے تین ماہ تک بیڈریسٹ کی ہدایت کے ساتھ ریلیز کیاگیا۔فیض العلوم ہائی اسکول کے ایک روم میں مجھے ڈاکڑوں کی صلاح کے مطابق ایک بیڈ پر تین ماہ کے لیے چت لٹا دیا گیا۔اسی درمیان مدرسہ فیض العلوم میں سالانہ چھٹی ہوئی۔سارے طلباءاپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔لیکن محب گرامی حضرت علامہ و مولانا محمد منظور عالم نظامی صاحب قبلہ اور حضرت علامہ و مولانا محمد معراج الحق صاحب قبلہ یہ دونوں سالانہ چھٹی میں گھر نہیں گئے اور میری تیمارداری کے لیے وہیں رک گئے۔تین ماہ تک بے لوث میری خدمت کرتے رہے۔ان لوگوں نے میرے لیے جو خدمات پیش کی ہیں ،صدق و وفا کے جو نمونے پیش کیے،میں انہیں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔میں ان کے احسان کا بدلہ اس دنیا میں نہیں دے سکتا۔بس ہمیشہ اللہ سے دعاگوہوں کہ مولی تعالی توہی انہیں اس کا بدلہ عطافرما! بیشک تو ہی عطافرمانے والا ہے۔اللہ کا شکر و احسان ہے کہ میرے ان دونوں محسنوں کو اللہ تعالی نے خوب نوازا ہے۔ الغرض ہماری تیماری داری چلتی رہی اور رمضان گزر کر عید کا دن آگیا۔علامہ ارشدالقادری علیہ الرحمہ عید کی نماز پڑھانے کے بعد نہ گھر گئے نہ کسی ہم نشین کے یہاں بلکہ سب سے پہلے مجھ ناچیز کو عیدی اور دعائیں دینے کے لیے تشریف لائے۔سرپہ دست شفقت پھیرا،حوصلہ افزائی فرمائی اور دعائیہ کلمات کے پیارے پیارے چند کلمات کہے ۔جلد ہی شفایابی کا مژدہ سنایا اور ہاتھ میں عیدی رکھ کر تشریف لے گئے۔یہ تو سردست ان کی شفتوں کی مختصرعکاسی ہے لیکن ان کی شفقت و محبت اورعنایت ورحمت کی حقیقی تصویر اور استاذو شاگر کے بیچ پدرانہ سلوک و کردار کی جو کیفیت ہم نے محسوس کیا ہے وہ اظہار بیان سے ماوراء ہے۔چالیس سالوں کے بعدآج بھی وہ منظر ہماری نگاہوں کے سامنے ہے۔اپنے محسنوں کی محبت اور حضرت علامہ علیہ الرحمہ کی شفقتوں کو نہ کبھی بھولا ہوں اور نہ کبھی بھلا پاوں گا۔الحمد للہ حضرت کے سبھی صاحبزادگان ناچیز سے محبت و شفقت فرماتے ہیں او رملاقاتوں میں دعاوں سے نوازتے ہیں ۔وہ سبھی میرے لیے آج بھی بھائی جیسے ہیں اور اللہ سے دعا ہے کہ یہ رشتہ محبت ایسے ہی ہمیشہ قائم و دائم رہے۔
(2) 1989ء میں میرے محب مکرم حضرت علامہ و مولانا محمد منظور نظامی اور میں فاضل پرشین کا امتحان دینے کے لیے پٹنہ ادارہ شرعیہ میں تھا۔میں جب بھی پٹنہ جاتا تھا یا اب بھی جاتا ہوں تو قیام ادراہ شرعیہ سلطان گنج پٹنہ میں ہی ہوتا ہے۔ان دنوں علامہ علیہ الرحمہ بھی ادارہ شرعیہ میں قیام پذیر تھے۔حضرت نےامتحانات کے نظام الاوقات اور تیاریوں کے بارے میں دریافت فرمانے کے بعد حکم دیا کہ تم دونوں ہردن صبح نو بجے میرے ساتھ ناشتہ کرنا۔اور رات میں ساڑھے نو بجے رات کا کھانا بھی میرے ساتھ ہی کھانا۔یہ حضرت کی ذرہ نوازی تھی کہ ہم جیسوں کو بھی اپنے ساتھ کھانا کھلاتے تھے۔ہم لوگوں کا معمول تھا کہ صبح کو ناشتہ کرکے امتحان دینے مدرسہ شمس الہدی چلے جاتے اور رات میں کھانا کھا کر حضرت کی خدمت میں بیٹھ جاتے۔حضرت ہم لوگوں سے کچھ دینی و ملی مسائل پر گفتگو فرماتے۔کبھی کچھ مسائل سمجھاتے۔کسی دن ہم لوگوں کے معاشی حالات اور اقتصادی معاملات پے گفتگو فرماتے اور نصیحتیں کرتے۔ایک دن ہم دونوں نے باہم مشورہ کیا کہ آج شب حضرت سے عرض کرنا ہے کہ ہم لوگوں کو مدرسہ اور مسجد کی ملازمت سے الگ کرکے کوئی تجارت وغیرہ کی رہنمائی کی جائے۔رات کو کھانےسے فراغت کے بعد میں حسب معمول حضرت کے سر کو سہلاتے ہوے عرض گزارہوا کہ مدرسہ اور مسجد کی ملازمت بہت ہی نازک ہے۔اس میں ہم لوگوں کو اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ اس لیے کوئی دوسرا ذریعہ معاش کی رہنمائی فرمائیں۔تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد حضرت نے مرغی فارم وغیرہ جیسے چارطرح کی تجارت کی خوبیوں اور خامیوں کو بتایا اور پھر فرمایاکہ یہ سب تم لوگ نہیں کرسکوگے۔اس لیے جو دین کی خدمت کر رہے ہو یہی تمہارے لیے بہتر ہے۔بیشک حضرت کا فرمان حق اور سچ ثابت ہوا کہ الحمدللہ آج ہم لوگ مدرسہ اور مسجد کی خدمت کرکے بہت مطمئن ہیں اور اللہ کا شکر ہے کہ ہم لوگوں کا ہاتھ ہمیشہ اوپر ہی رہتا ہے۔پوری زندگی کبھی دست درازی کی نوبت نہیں آئی۔دراصل ہم جسے تاریک سمجھ رہے تھے حضرت ہماری صلاحیتوں کو پرکھ کر سمجھ چکے تھے کہ وہی ہمارے لیے روشن و تابناک ہے۔آپ علیہ الرحمہ کو اللہ تعالی نے نبض شناسی اور شخصیت سازی کی جو صلاحیت عطاکی تھی آج بھی زمانہ اس کا معترف ہے اور یہ خوبی بھی آپ کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔جس کو جس کام کے لیے لگا دیا تاحیات وہ اسی کام میں لگا رہا اور خوب ثمر آوار ہوا۔اس کی درجنوں مثالیں میرے پاس ہیں لیکن وہ ایک الگ باب ہے جس کے ذکر کا یہ محل نہیں ۔
(3)1998ء میں رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں دہلی جانا ہوا۔حضرت علامہ علیہ الرحمہ کی قدم بوسی کے لیے جامعہ حضرت نظام الدین اولیاء ذاکر نگر گیا۔حضرت اپنی آرام گاہ میں آرام فرما رہے تھے۔دروازے پہ آنے کی آہٹ سن کر آپ نے آنکھیں کھولیں ۔میں نے سلام عرض کی اور دست بوسی کرتے ہوے دو زانو بیٹھ گیا۔کچھ دیر تک ہلکا ہلکا ہاتھ پیر دباتا رہا۔پھر حضرت نے اٹھنے کی کوشش کی تو میں نے سہارا دے کر انہیں باتھ روم تک پہنچایا۔ضروریات سے فارغ ہوکر حضرت نے آواز دی۔میں اندر گیا اور صابن سے ہاتھ وغیرہ دھلا کر انہیں وضوکرایا اور پھر سہارا دے کر مسند تک لایا۔ہیٹر آن کرکے ہاتھ پیر سیکے۔پھر حضرت نے مدرسہ مدینۃ الرسول اور مدینہ مسجد کوڈرما کے بارے میں دریافت کیا۔جب میں نے سارے احوال بتائے تو بہت خوش ہوے۔پھر کچھ اور باتیں کرنے کے بعد میں نے دست بستہ عرض کی کہ حضور مجھے کم از کم ایک ہفتہ یہاں رہنے کی اجازت دیں تاکہ میں آپ کی خدمت کرسکوں۔میری فریاد کے جواب میں آپ نے جو فرمایا اور جو کیا وہ آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔حضرت نے فرمایا کہ" بیٹا کل بھی میرے ضروری خدمت ہورہی تھی اور ایک ہفتے کے بعد بھی وہ ہوتی ہی رہے گی ان شاء اللہ! تم ایک ہفتہ یہاں رہو گےتو مجھے کچھ آرام تو ضرور ہوگا جسے میں چھوڑ سکتا ہوں، لیکن تمہارے یہاں رہنے سے مدرسے کو جو نقصان ہوگا وہ مجھے برداشت نہیں ہے۔" پھر آپ قبلہ رو ہوکر دو رکعت نماز پڑھتے ہیں اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں اور پھر آنکھوں سے ساون بھادو کی طرح آنسوں کی بارش ہونے لگتی ہے۔آواز میں رقت اور درد کا یہ عالم تھا کہ میں بھی رو نے لگا اور میر ے پورے جسم میں لرزہ طاری ہوگیا۔تھوڑی دیر بعد مجھے محسوس ہوا کہ حضرت کچھ زیادہ ہی نڈھال ہو رہے ہیں تو بڑی ہمت جٹا کر قریب گیااور سہارا دے کر لیٹا دیا۔زبان خشک ہورہی تھی تو پانی کا چھینٹا مارا اور پیالہ منھ سے لگادیا۔چند گھونٹ پینے کے بعد حضرت کو قدرے سکون ہوا۔پھر حضرت نے مجھے جانے کا اشارہ کیا لیکن میں وہیں رکا رہا اور ایک دن کے لیے رک ہی گیا۔دوسرے دن حضرت نے مجھے حکما جانے کو کہا۔اور میں دست بوسی اور قدم بوسی کے بعد سلام عرض کرتا ہوا رخصت ہوا۔حضرت سے یہ میری آخری ملاقات تھی جو تمام ملاقاتوں اور خدمتوں پر بھاری تھی۔22 سالہ صحبت و خدمت حضرت کے ساتھ رہی ہے، اس لیے واقعات بہت ہیں لیکن مذکورہ تین حقیقی واقعات پر ہی اکتفا کرتا ہوں جو کہ حضرت کی شفتوں کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔
*مختصر سوانح عمری:* 
اصل نام غلام رشید ۔عرفی نام علامہ ارشد القادری اور قلمی نام رئیس القلم ہے۔آپ 5/مارچ 1925ء کو اترپردیش میں ضلع بلیا کے ایک گاوں" سید پورا" میں پیدا ہوے۔ابتدائی تعلیم اپنے والدگرامی حضرت علامہ عبد اللطیف علیہ الرحمہ سے حاصل کی۔بعد ہ مصباح العلوم مبارکپور جو آج الجامعۃ الاشرفیہ عربی یونیورسٹی ہے میں داخلہ لیا۔1944ء میں آپ کی فراغت ہوئی۔جلالۃ العلم علامہ الشاہ عبد العزیز محدث مرادآبادی المعروف حافظ ملت علیہ الرحمہ (1304ھ-1394ھ) کی خصوصی توجہ سے مختلف علوم و فنون مین مہارت حاصل کی۔آپ اپنے بہنوئی حضرت علامہ مفتی امجد علی صدرالشریعہ علیہ الرحمہ(1300ھ-1367ھ ) سے بیعت تھے۔اور انہی کی حصوصی عنایتوں اور شفقتوں سے خوب فیض یاب ہوے۔
*مختصر خدمات:* 
1947ء میں مدرسہ شمس العلوم مومن پورہ ، ناگپور میں مدرس مقرر ہوے۔وہاں پڑھ رہے طالب علموں کی غربت و ضرورت کو دیکھتے ہوے ان پہ شفقت کی کہ *اسلامیہ شبینہ مدرسہ* کی شروعات کی اور یہ شاید آزاد ہندستا ن کا پہلا مدرسہ تھا جہاں بچے دن میں مزدوری اور رات میں علم دین حاصل کرتے تھے۔ان پڑھنے والوں میں فقیہ ملت حضرت مفتی جلال الدین امجدی علیہ الرحمہ بھی شامل ہیں جن کی فراغت 19/مئی 1952ء مطابق 25/شعبان 1371ء کو ہوئی۔اس کے بعد ہی رئیس القلم نے ناگپور چھوڑ کر عید کی تعطیل کلاں کے بعد 1952ء میں جمشید پور تشریف لائے اور جناب صابری صاحب مرحوم کے برآمدے میں مدرسہ فیض العلوم قائم فرمایا۔ اور وہیں سے تعلیم و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔31/مارچ 1955ء کو دھتکیڈیہہ میں فیض العلوم کے لیے زمین حاصل کی اور 15/ فروری 1957ء کو حافظ ملت علیہ الرحمہ کےہاتھوں اس کی سنگ بنیادی رکھی۔1960ء میں تعمیری کام پورا ہوا۔اور اسی سال مدرسہ فیض العلوم اپنی عمارت میں منتقل ہوا۔طلبہ مدرسہ کے لیے 1965ء میں انجمن فیضان ملت قائم کیا، جس کے تحت ایک عظیم الشان لائبری بھی ہے۔راقم الحروف بھی فیضان ملت کا دوسال تک سکریٹری رہا ہے۔1970ء میں فیض العلوم اردو مڈل اسکول قائم ہوا جو کچھ سالوں میں ہائی اسکول ہوگیا۔1972ء میں فیض العلوم ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ قائم کیا۔پھر 1974ء میں مفتی اعظم ہند کے ہاتھوں ہاسٹل کی بنیاد رکھی گئی۔16 سالوں تک ٹینٹ میں نماز پنج گانہ وجمعہ پڑھنے کے بعد 21/فروری 1997 ء کو مکہ مسجد کی بنیاد حضرت نے خود اپنے مقدس ہاتھوں سے رکھا۔حضرت کو بانئی مساجد و مدارس کثیرہ بھی کہا جاتا ہے۔آپ نے ہند و بیرون ہند ہزاروں مساجد و مدارس ،ادارے اور تنظیم و تحریک قائم کیے۔الحمد للہ آج سبھی ادارے شان و شوکت کے ساتھ دین وملت کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔
*اولاد:* 
حضرت کی دو صاحبزادیاں اور پانچ صاحبزادے ہیں۔ان میں سے ایک حضرت مولانا غلام جیلانی صاحب کا وصال ہوگیا ہے۔بقیہ صاحبزادے، صاحبزادیاں اور پوتے پوتیاں ، نواسے نواسیاں سبھی ذی علم ،دین دار،زبان و قلم کے ماہر اور اعلی درجے کے منتظم ہیں ۔سبھی اپنے اپنے تجارت و کاروبار میں ملک و بیرون ملک میں قیام پذیر ہیں ۔اور ملک و بیرون ملک بالخصوس امریکہ و انگلیڈ میں آپ کے قائم کردہ دینی مدارس و جامعات کی سرپرستی و سربراہی کی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔
*وصال:* 
29/اپریل 2002ء مطابق 15/صفر 1423ھ کو 4/ بج کر 35 منٹ پر ایمس دہلی کے روم نمبر 205 میں آپ نے آخری سانس لی۔جسد مبارک کو بذریعہ ہوئی جہاز دہلی سے رانچی اور پھر جمشید پور لایا گیا۔اور مدرسہ فیض العلوم اور مکہ مسجد کے درمیان گارڈن میں سپرد خاک کیا گیا۔آپ کا خوبصورت مزار مرجع خلائق ہے۔اللہ تعالی ہمیشہ ان کی تربت پر انوار و رحمت کی گہرباری فرمائے! آمین
          *شہادت حسین فیضی* 
9431538584

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے