*از قَلَم* سید حسام الدین ابن سید جمال الدین رفاعی
خانقاہ رفاعیہ، بڑودہ، گجرات
9978344822
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولی کبیر و امام شہیر حضرت سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ کو حضور سرور کائنات احمد مجتبیٰ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی دست بوسی کا شرف حاصل ہوا اور اس واقعہ نے آپ کو تمام اولیاء میں ممتاز کر دیا، اور ہمارے سردار و رہبر سرور کائنات حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عظیم المرتبت اعزاز و اکرام حضرت سید احمد کبیر رفاعی کو اللہ کے حکم سے مرحمت فرمایا یہ عظیم الشان اعزاز و اکرام صرف اور صرف سلطان سید احمد رفاعی کے لئے تھا اور یہ انتہائی منفرد اور یکتا واقعہ ہے۔
دست بوسی کی کرامت پر تبصرہ کرتے ہوے حضرت سید رضی الدین الرشید المعروف لالہ میاں رفاعی شافعی رحمتہ اللہ علیہ سجادہ نشین مسند رفاعیہ کراچی پاکستان اپنی کتاب شان رفاعی میں لکھتے ہیں :
البنیان المشید اور دیگر کتابوں میں سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ کی کرامات کے ضمن میں اس عظیم الشان واقعہ کا بھی ذکر ہے، آپ کو حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی دست بوسی کا شرف حاصل ہوا، اور میں نے بھی اس کو کرامت ہی کے باب میں لکھا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک مخصوص انعام الہی اور اکرام خداوندی ہے جو صرف آپ ہی کا حصہ تھا۔ عام طور پر کرامت اگر اولیاء اللہ کو تمام مومنین سے ممتاز کرتی ہے تو یہ وہ خاص الخاص کرامت ہے جو آپ کو تمام اولیاء اللہ سے ممتاز کرتی ہے۔ چنانچہ تمام علماے کرام و صوفیاے عظام و مشائخ با صفا کا متفقہ فیصلہ ہے کہ صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے بعد یہ فضیلت یعنی تقبیل ید المصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم (حضور محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی دست بوسی) کا شرف کسی کو حاصل نہیں ہوا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ عز و جل شانہ کو اپنے پیارے حبیب لبیب (ہماری جانیں قربان آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر) کے دست ضوفشاں و معجز نما سے اپنے خاص بندے یعنی حضرت سید احمد کبیر رفاعی کو ایک بے مثال نعمت و سعادت سے سرفراز فرماکر ان کی عظمت و مرتبت پر حجت و برہان قائم فرمانا تھا، تاکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئی کے مطابق آپ کا تمام اولیاء اللہ کا سردار منتخب ہونا عیاں و ظاہر ہوجاے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ اس واقعہ سے اپنے بندوں پر یہ واضح اور ظاہر کر دینا مقصود الہی تھا کہ حضور سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم حیاة النبی ہیں۔ تب ہی تو وہ دست معجز نما جو معطر نورانی پردوں میں مخفی ہو گیا تھا اور تقریبا ساڑھے پانچ سو برس کا زمانہ گزر چکا تھا۔ شیخ امام الاولیا سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ کو نعمت اور سعادت سے نوازنے کو مزار اقدس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے جلوہ افروز ہوا اور عیاناً ظاہر ہوا، اور شیخ سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ نے نہایت ادب و احترام سے اس دست روشن و معطر المعطر کا بوسہ لیا اور دیگر زائرین اور عاشقان جمال محمدی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے دست اطہر الاطہر کی زیارت اور دیدار سے مشرف ہوے، اس سے قطعیت کے ساتھ ثابت ہو گیا کہ حضور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مزار منور پاک و اقدس میں سید احمد کبیر رفاعی کی آواز سنی اور نہ صرف یہ کہ سماعت فرمائی بلکہ اس کا جواب بھی مرحمت فرمایا۔
لہٰذا اس واقعہ سے ہمارا یقین دو بالا ہو جاتا ہے کہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم ہماری آوازیں اور جو پوری عقیدت اور محبت و احترام اور باادب طریقے سے ہم درود و سلام حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر بھیجتے ہیں ان سب کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ضرور سماعت فرماتے ہیں اور تحفہ درود و سلام قبول فرماتے ہیں۔ جب آپ ہماری آوازیں سماعت فرماتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم یا رسول اللہ ، یا، یا محمد کہہ کر آپ کو نہ پکاریں۔
*دست بوسی دست پر ضیا فخر موجودات محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر مزید تفصیلات لکھتے ہوے شان رفاعی میں رقمطراز ہیں:*
سب سے زیادہ اعلیٰ عطیہ الہی اور سب سے زیادہ نادر اور مشہور کرامت آپ کی دست بوسی دست رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ اور اس مبارک واقعہ کو کثرت سے اور تواتر سے علماء و فضلا اور صوفیاء عظام نے بیان کیا ہے کہ اس کی صداقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور اسی ضمن میں امام جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں کہ "یہ منقبت مبارک مسلمانوں کے درمیان درجہ تواتر کو پہنچی ہوئی ہے اور روایت صحیحہ و اسانید عالیہ سے انکار کرنا گویا ایک گونہ نفاق ہے"۔
لہذا امام جلیل ضیاءالدین احمد وتری نے اپنی کتاب مناقب الصالحین میں اس واقعہ پر روشنی ڈالی ہے، علاوہ ازیں تاریخ امام یافعی ، تاریخ تریاق، سوادالعینین فی مناقب غوث ابوالعلمین میں امام رافعی، وانتضاح فی ذکر الصلاح، تریاق المحبین و نزہت المجالس وغیرہ کتابوں میں مفصل طور پر مذکور ہیں۔ چنانچہ عمر ابی الفرج فاروثی سے منقول ہے کہ ایک روز لب دریاے واسط مع چند اولیاءاللہ و خلفاء اور مریدوں کے حضرت سردارالاولیاء غوث المکرم قطب المعظم سیدنا شیخ احمد کبیر رفاعی قدس سرہ تشریف فرماتھے کہ یکایک آپ نے نعرہ لگایا اور ارشاد فرمایا کہ مجھے یوں الہام ہوتا ہے کہ اے احمد تیرے جد امجد صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کو جا، وہاں تیرے لئے ایک نعمت پر سعادت لازوال امانت ہے جو سرور کونین حبیب رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے دست پر شفقت سے تجھ کو عطا ہوگی، لہٰذا میں زیارت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ رکھتا ہوں، تم سب صاحبوں کا کیا قصد ہے؟ تب سید عبدالرزاق حسینی نے موادب کھڑے ہوکر عرض کیا: جو کچھ کہ ارشاد عالی ہو ہم بسر وچشم حاضر ہیں۔ چنانچہ وہاں سے آپ بمع جماعت ام عبیدہ کو تشریف لاے، اور اسباب سفر تیار کرکے مع جماعت کثیر عازم حجاز ہوے۔
حضرت ولی اللہ العارف باللہ القطب الجلیل السید ہاشم الاحمدی العبدلی الرفاعی الحسینی رحمتہ اللہ علیہ (متوفی 630ھ) اپنی کتاب *غنیمتہ الفریقین من حکم الغوث الرفاعی ابی العلمین* میں لکھتے ہیں کہ یہ مشہور واقعہ 17/محرم الحرام 555ھ بروز جمعرات بعد نماز عصر پیش آیا۔
*نوٹ:* صاحب کتاب بزرگ حضرت امام رفاعی رحمتہ اللہ علیہ کے چچا زاد بھائی اور خلیفہ ہیں۔ آپ اس واقعہ کے وقت دست مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کرنے والوں میں شامل تھے۔
امام الکبیر سید احمد عزالدین صیاد رفاعی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
کان ذالک بعد صلاة العصر یوم الخمیس۔ ( المعارف المحمدیہ ،ص: 34)
*ترجمہ:* "دن پنجشبنہ اور وقت عصر کا تھا"
اس سال بہت زیادہ تعداد میں مدینہ منورہ، ملک شام، عراق، یمن، ترکستان، مصر اور عجم و ایران اور ہند وغیرہ سے لوگ حج اور زیارت بیت اللہ کو مکہ مکرمہ میں آے ہوے تھے۔
الشیخ سیدنا احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ بعد فارغ ہونے حج بیت اللہ کے مدینہ منورہ روانہ ہوئے اور جب مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو اپنی سواری سے اتر گئے، اور پیادہ پا برہنہ وقار و عظمت کے ساتھ آہستہ اور قدم بقدم چلتے ہوئے حرم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تک تشریف فرماہوے اس وقت مدینہ منورہ میں عشاقان جمال محمدی کی تعداد نوےہزار سے زیادہ تھی۔
حضرت ابوالعباس شیخ المشائخ سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ بعد نماز عصر حرم اطہر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں داخل ہوئے ۔ تمام زوّار حرم مبارک کے اطراف و جوانب جمع تھے۔ امام احمد کبیر رفاعی نے مزار اطہر و منور کے قریب ہوکر نہایت عجز و انکسار و خاکساری سے تحفہ سلام ان لفظوں میں پیش کیا۔
*السلام علیک یا جدی*
آپ پر سلام ہو اے میرے نان جان
جواب میں مزار مقدس نبوی سے اسی وقت ازروے انعام و مرحمت ارشاد ہوا۔
*وعلیکم السلام یا ولدی*
اے میرے بیٹے تم پر بھی سلامتی ہو
جملہ حاضرین مسجد نبوی نے اس آواز کو سنا۔ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے اس درجہ انعام و اکرام ہونے کے باعث سید احمد کبیر رفاعی پر بہ سبب غایت ذوق و شوق کے حالت وجد و رعد طاری ہوگئی حتیٰ کہ طاقت کھڑے رہنے کی نہ رہی ، بعد ایک لمحہ کے مزار اطہر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے اور زیادہ قریب ہوکر نہایت عجز و فروتنی سے عرض کیا اے جد کریم!
*فی حالة البعد روحی کنت ارسلھا*
*تقبل الارض عنی وھی نائبتی*
*وھذہ دولة الاشباح قد حضرت*
*فامدد یمینک کی تحظی بھا شفتی*
*ترجمہ:* اے جد کریم! دوری کی حالت میں، میں اپنی روح و خیال کو بھیجا کرتا تھا، جو میری نیابت میں آستاں بوسی کرتے تھے اور آج یہ دور افتادہ خود دردولت پر حاضر ہے لہٰذا آپ اپنے دست کرم کو دراز فرمائیں تاکہ میری لب دست بوسی کی سعادت حاصل کرسکیں۔
سبحان اللہ کیا نوازش و اکرام حضور رسول خیرالانام صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت سید احمد کبیر رفاعی پر ہیں کہ ہنوز یہ اشعار تمام نہ ہونے پاے تھے کہ مزار رحمت العالمین صلی اللہ علیہ وسلم سے سرور کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کا دست معجز نما پر ضیاء چمکتا ہوا جلوہ افروز ہوا۔ شیخ احمد کبیر رفاعی معشوق اللہ نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر نہایت ادب و احترام سے دست اطہر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا بوسہ لیا۔ دست منور پھر قبر شریف میں مخفی ہو گیا۔
علامہ سید محمود سامرائی رفاعی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
*"فقبلھا علی مشھد عظیم من حجاج ذالک العام۔ (المجالس الرفاعیہ، ص: 26)*
*ترجمہ:* "حاضرین حجاج کی بڑی تعداد کے روبرو آپ نے دست بوسی کی"
جس وقت یہ واقعہ ظہور میں آیا اس وقت بارگاہ رسالت میں نوے ہزار (90 ہزار) سے زیادہ عاشقان جمال محمدی کا مجمع موجود تھا، جنہوں نے اس واقعہ کو بنظر خود دیکھا، اور فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کی زیارت کی اور دیدار سے مشرف ہوئے۔
صاحب المجموعتہ الصغریٰ لکھتے ہیں:
*"قبلھا فی ملاء من تسعین الف رجل والناس ینظرون یدالنبی صلی اللہ علیہ وسلم ویسمعون کلامہ" (المجموعتہ الصغریٰ، ص: 7)*
*ترجمہ:* "آپ نے نوے ہزار حاضرین کے سامنے دست بوسی کی اور لوگ یہ منظر دیکھ رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آوازِ مبارک کو سن رہے تھے۔"
*اکابر شیوخ کی موجودگی*
"ارشاد المسلمین" میں لکھا ہے کہ اس کرامت کے ظاہر ہونے کے وقت حرم مقدس نبوی علی ساکنہ الف الف صلوة و سلام میں اکابر وقت میں بڑے مراتب والے مشائخ کرام و اولیائے عظام اور علماء بھی موجود تھے جن کے نام نامی و اسماے گرامی یہ ہیں۔ حضرت عدی ابن مسافر الاموی رحمتہ اللہ علیہ، شیخ عبدالرزاق الحسینی رحمتہ اللہ علیہ، شیخ احمد زعفرانی رحمتہ اللہ علیہ، حضرت حیات بن قیس حرانی رحمتہ اللہ علیہ اور شیخ خمیس رحمتہ اللہ علیہ موجود تھے علاوہ ان اولیائے کرام کے حضرت محبوب سبحانی قطب ربانی غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی نوراللہ مرقدہ اور حضرت شیخ احمد زاہد انصاری اور حضرت شیخ شرف الدین ابوطالب بن عبدالسمیع ہاشمی عباسی رضی اللہ عنہم بھی موجود تھے ۔علاوہ اور بھی مشائخ اور اولیاء حاضر تھے جو تمام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دست منور کی زیارت سے شرف یاب ہوئے ۔
شیخ حیات بن قیس الحرانی ، شیخ عدی بن مسافر الاموی اور شیخ عقیل المنحی رحمتہ اللہ علیہم ان تینوں مشائخ نے اسی روز شیخ امام رفاعی کے ہاتھ پر بیعت کی اور آپ کا خرقہ پہن کر آپ کے حلقہ اصحاب و مریدین میں داخل ہوئے۔
شیخ عبدالسمیع ہاشمی واسطی اپنا چشم دید واقعہ بیان کرتے ہیں کہ
"جب واپسی کا وقت قریب ہوا تو آپ روضہ اقدس کی دہلیز پر لیٹ گئے اور حاضرین کو قسم دے دی کہ میری گردن پر سے باہر نکلیں، عوام نے تو ایسا ہی کیا، مگر خواص دوسری طرف سے نکل گئے، میں حضرت رفاعی کے پاس ہی تھا وہ رو رہے تھے اور فرما رہے تھے یا اللہ میرے ایمان اور تیری معرفت اور تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پہچان میں اضافہ فرما"۔(المعارف المحمدیہ، ص: 49)
یہ نعمت پُر سعادت کا کیا انعام عطا ہوا جو نہ کسی کی آنکھوں نے دیکھا اور نہ کسی کے کانوں نے سنا۔ وہ دینے والا جانے، لینے والا جانے اور اللہ جانے اس دست بوسی کی صنو وضیا سے جو حضرت سید احمد کبیر رفاعی کو ہوئی۔ بڑے بڑے آفتاب ولایت ماند پڑ گئے۔ بلکہ اس دست بوسی کی کرامت پُر سعادت پر فرشتے اور ملائکتہ الاعلی کو رشک ہوا۔
شیخ امام الاولیاء سید احمد کبیر رفاعی کے خادم علی بن موہوب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ وہ دست مبارک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو میرے شیخ امام رفاعی کے لئے مزار مقدس و منور نبوی سے جلوہ افروز ہوا جو میری آنکھوں میں سمایا ہوا ہے۔ دست اطہر نہایت خوشنما، سفیدرنگ، دراز انگلیوں والا، پر ضیاء، برق و بجلی سے زیادہ چمکتا ہوا، روشن اور پرانوار اور معطر المعطر اور بے مثال تھا۔ دست مطہر کا ظہور میں آنا تھا کہ حرم شریف تہ و بالا ہوگیا اور لوگوں میں گویا قیامت برپا ہوگئی، اور ایک ہیبت و دہشت و رعب و دبدبہ سلطان محمدی دلوں پر طاری ہوگیا۔ اور مسجد نبوی تمام روشن و منور و معطر ہوگئی گویا خوشبو اور نور کی بارش ہو رہی تھی۔ چاروں طرف سے آواز اللہ اکبر کی بلند ہوئی اور تمام حضرین کے لبوں پر درود شریف جاری و ساری ہوگیا۔
شیخ محمد علی نے ان سے شیخ ابی الرجال یونینی بعلبکی نے، ان سے شیخ عبداللہ بطائحی قادری نے، ان سے شیخ علی بن ادریس یعقوبی نے اور ان سے ان کے شیخ قطب یگانہ و غوث زمانہ شیخ عبدالقادر جیلی بغدادی نے روایت کیا ہے، فرمایا کہ اس محفل کرامت میں میں بھی موجود تھا جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دست بوسی کے زریعہ شیخ احمد کبیر رفاعی کی کرامت و بزرگی کا اظہار کیا، اور انعام الہی سے عالی مرتبہ نصیب ہوا، یعقوبی کہتے ہیں میں نے اپنے شیخ حضرت جیلانی سے عرض کیا: حضور حاضرین کو اس کرامت و بزرگی سے حسد نہیں ہوا تو یہ سوال سن کر حضرت غوث صمدانی رونے لگے اور جواب دیا اے ابن ادریس اس کرامت پر سعادت پر ملا اعلی (فرشتوں) نے بھی رشک کیا ہے۔
وظائف احمدیہ میں تحریر ہے:
شیخ الانس والجان سیدی احمد کبیر رفاعی تمام اولیاء میں اس طرح ممتاز ہیں جس طرح حضور رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء و رسولوں میں ممتاز ہیں، صاحب کتاب وظائف احمدیہ نے مثال اس کی یوں بیان کی کہ
حق تعالیٰ جل شانہ نے آقا و مولا رحمت العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج عطا فرماکر اعلیٰ و ارفع شرف بخشا اور رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرب کامل و اکمل حق تعالیٰ کا حاصل ہوا جو عقل کے دائرے سے باہر ہے، اسی طرح خدا وند کریم جل شانہ نے روح عرفاں شیخ سید احمد کبیر رفاعی کو سرور کونین تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دست بوسی دست طاہر و منور حضور رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرف فرماکر حضرت سید احمد کبیر رفاعی معشوق اللہ کو روے زمین کے تمام اولیاوں میں سرفراز و ممتاز کردیا۔
شیخ علی واسطی "خلاصتہ الاکسیر" میں تحریر فرماتے ہیں:
امام و صاحب طریقہ رفاعیہ سید احمد کبیر رفاعی کو قریب تر بیعت بہ نسبت دوسروں کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم حاصل ہے ، اور دوسروں کے مقابلے میں سیدی احمد رفاعی کے ہاتھ نے ذاتی طور پر دست مبارک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چھونے و بوسہ دینے کا شرف حاصل کیا ہے، "ان الزین یبایعونک انما یبایعون اللہ ید اللہ فوق ایدہیم" (سورہ الفتح)
"اے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم جو لوگ آپ کی بیعت کرتے ہیں در حقیقت وہ اللہ سے بیعت کرتے ہیں اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے"
شیخ الاسلام قلیوبی رحمتہ اللہ علیہ کتاب "تحفتہ الراغب" میں لکھتے ہیں:
تمام اہل اللہ صوفیاء و علمائے کرام کا متفقہ فیصلہ ہے کہ رتبہ اعلیٰ و اکرم سید احمد رفاعی کا مافوق قطبیت و غوثیت ہے، کوئی ولی اس رتبہ جامعیت اوصاف حمیدہ اخلاق سعیدہ و مقامات فریدہ کا نہیں آیا اور نہ ہی آےگا۔
راغب میں مزید تحریر ہے:
قسم اللہ کی مرتبہ اعلیٰ جان لینے کے لئے یہی کافی ہے کہ سید احمد کبیر رفاعی مشرف دست بوسی دست منور و مبارک رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سرفراز ہوئے اور یہی شرف امتیازی شرف ہے۔
صاحب ام البراھین فرماتے ہیں کہ جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنا دست اقدس آگے بڑھایا، تو حضرت امام رفاعی نے اس کا بوسہ لیا اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے کامل بیعت کی، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے آپ کو کالا اونی کپڑا پہننے کا حکم دیا، اور فرمایا کہ منبر پر چڑھ کر لوگوں کو نصیحت کرو ، پھر فرمایا کہ الله تعالیٰ تم سے زمین و آسمان کی مخلوق کو فائدہ پہنچائے گا، اور یہ بیعت قیامت تک تم سے اور تمہاری اولاد سے متصل رہے گی۔ (ص: 132)
یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دست بوسی ہی کا اثر ہے جس کے سبب سے جب آپ کے خاندان و سلسلہ کے مریدین وجد میں آکر ضرب لگاتے ہیں اور گرز و شمشیر اور سیخ وغیرہ آلات آہنی اپنے جسم پر مارتے ہیں۔ بعض اوقات ان کے جسم سے خون بہنے لگتا ہے تو آپ رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے کسی کا یا کسی بلکل کم سن چھوٹے بچے کا یا آپ رضی اللہ عنہ کے کسی خلیفہ جس کو باقاعدہ طریقے سے اجازت حاصل ہو کا لعاب لگا دیا جاتا ہے اور لعاب لگاتے ہی اس شخص کا خون بہنا بند ہو جاتا ہے، اور اس کا جسم صحیح و سالم ہو جاتا ہے کیونکہ آپ کے لب مبارک حضور سرور کائنات کے دست معنبر سے مس ہونے کا شرف رکھتے ہیں۔ یہ اسی کی تاثیر ہے جو آپ کی اولاد میں اب تک موجود ہے۔ (شان رفاعی)
*کرامت عظمیٰ*
سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی دست بوسی کو تذکرہ نویسوں نے حضرت امام رفاعی کی عظیم کرامتوں میں شمار کیا ہے، اس پر امام سیوطی، شیخ عبدالکریم رافعی، شیخ ابراہیم کازرونی، علامہ محمود آلوسی، علامہ سید محمد ابوالہدی صیادی رفاعی نے مستقل رسالے تصنیف کئے ہیں اور شعراء نے اس پر طویل قصائد کہے ہیں۔
شیخ عبدالقادر طبری کہتے ہیں کہ اس مرتبہ کو آپ کے علاوہ کسی ولی نے نہیں پایا۔
ھزہ رتبة رقاھا الرفاعی
لم ینلھا من الرجال سواہ
ھوفی الاولیاء قطب رحاھم
وقدس الله اسرارہ وحباہ
*ترجمہ:* یہ بلند رتبہ حضرت رفاعی کو حاصل ہوا، ان کے سوا کوئی اس رتبہ تک نہیں پہنچا، حضرت رفاعی "قطبُ الاولیاء" ہیں، اللہ نے انہیں اپنی رحمت سے ڈھانپا اور ان کے باطن کو پاک بنایا۔
شیخ سراج الدین رفاعی کہتے ہیں کہ حضرت رفاعی کی مدح کے لئے یہ واقعہ کافی ہے۔
لقد مدح الغوث الرفاعی امۂ
وماذ اعسی بعدان قبل الیدا
ومن شرف الارث الصریح لذاتہ
من ذکروہ یذکرون محمدا
*ترجمہ:* ایک بہت بڑے طبقے نے حضرت غوث الرفاعی کی مدح و تعریف فرمائی ہے، اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دست بوسی کے بعد ان کی مدح میں اس سے بڑھ کر کوئی کیا کہہ سکتا ہے۔ انہیں وراثت نبویہ کا یہ شرف حاصل ہے کہ جو ان کا تذکرہ کرتا ہے تو وہ ساتھ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی تذکرہ کرتا ہے۔
علامہ سید محمد ابوالہدا صیادی رفاعی لکھتے ہیں کہ آپ کے شرف و فضل کے لئے یہ واقعہ کافی ہے۔
کفی الرفاعی شرفا
تقبیل ید المصطفےٰ
فلاتحدعن بابہ
وخذہ شیخاو کفی
*ترجمہ:* حضرت رفاعی کی عزت و کرامت کے لئے مصطفےٰ جان رحمت صلی الله علیہ وسلم کی دست بوسی ہی کافی ہے، لہٰذا ان کے درسے لگے رہو اور انہی کو اپنے لئے کافی سمجھو ۔
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں