Header Ads

سلسلہ رفاعیہ کی وجہ تسمیہ

*سلسلہ رفاعیہ کی وجہ تسمیہ*
*از قَلَم*: سید حسام الدین ابن سید جمال الدین رفاعی
خانقاہ رفاعیہ، بڑودہ، گجرات
9978344822
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
      سلسلہ رفاعیہ تصوّف وسلوک کے حقائق و مقاصد اور معانی و معارف سے لبریز ایک معروف و مبارک سلسلہ ہے ۔
     یہ مبارک سلسلہ سلطان العارفین، امامِ ثالث عشر، حضرت غوثِ اکبر سید احمد کبیر رفاعی حسنی حسینی موسوی قدس سرہُ العزیز کی طرف منسوب ہے، اسی لیے یہ مبارک طریقہ "سلسلہ رفاعیہ"اور "سلسلہ احمدیہ"کہلاتا ہے ۔
       واضح رہے کہ حضرت غوثِ اکبر رحمۃُ اللہ علیہ کے نام میں "رفاعی" نسبت کی دو وجوہات ہیں :
      ایک بشارت نبوی کہ ایک موقع پر جب کہ حضرت رفاعی عرفات کے میدان میں موجود تھے تو روحانی طور پر آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا :
رفعتک فی الدنیا والآخرۃ ۔
"میں نے دنیا و آخرت میں آپ کو بلند مرتبہ عطا کیا ہے".
      دوسری خاندانی جو کہ ان کے جد امجد حضرت سید حسن رفاعہ المکی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب ہے ۔ 
      چنانچہ اس وضاحت سے ایک اور علمی و تاریخی نکتہ بھی سامنے آ گیا کہ حضرت غوثِ اکبر سید احمد کبیر رفاعی رحمۃ اللہ علیہ کو حاصل بشارت نبویہ کے علاوہ رفاعی نسبت کی کل تین جہتیں ہیں :
*پہلی :* حضرت غوثِ اکبر سید احمد کبیر رفاعی کے جد امجد حضرت حسن رفاعہ المکی رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد در اولاد ۔
*دوسری :* حضرت غوثِ اکبر سید احمد کبیر رفاعی رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد در اولاد ۔
*تیسری :* سلسلہ رفاعیہ میں مرید ہونے والے تمام افراد کی نسبت ، اگرچہ وہ نسباً رفاعی نہ ہوں ۔ البتہ انہیں چاہیے کہ وہ وقتاَ فوقتاً اس حقیقت کا اظہار کر دیا کریں تاکہ کوئی غلط فہمی سے نسبی اور سلوکی نسبت کو گڈ مڈ نہ کر بیٹھے ۔
      چونکہ ہر سلسلے میں کسی نہ کسی مبارک نسبت کا زیادہ ظہور ہوتا ہے تو اس طرح اس مبارک سلسلے میں "نسبتِ محمدی" اور "نسبتِ ابراہیمی" کا ظہور زیادہ ہے ۔
نسبتِ محمدی کا ظہور جاننے کے لیے درج ذیل دو باتیں ملاحظہ کیجیے :
     نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے دعاء فرمائی :
      یا اللہ ! مجھے مسیکن بنا کر زندہ رکھ ، مجھے مسکین بنا کر موت دے اور مساکین کی جماعت کے ساتھ میرا حشر فرما ۔(جامع ترمذی)
    یہ یاد رکھیے کہ اس دعاء میں مسکین سے متواضع مراد ہے ، جس سے معلوم ہوا کہ تواضع نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاص نسبت ہے ۔
     اب حضرت غوثِ اکبر سید احمد کبیر رفاعی رحمۃ اللہ علیہ کی بات ملاحظہ کیجیے ، فرماتے ہیں کہ :
    میں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں داخل ہونے کے لیے ہر دروازے پر حاضری دی ، مگر ہر جگہ بے انتہا بھیڑ تھی ، پھر میں نے تواضع، اور مسکنت والا دروازہ دیکھا تو وہ خالی تھا تو میں نے اسی دروازے پر ڈیرہ لگا لیا ۔ (مراحل السالکین للامام الرواس الصیادی الرفاعی رحمۃ اللہ علیہ) ۔
     اور نسبتِ ابراہیمی کا ظہور دیکھنا ہو تو اس مبارک سلسلے میں جاری و ساری وہ خاص کرامات دیکھ لیجیے کہ جس طرح احقاقِ حق کے موقع پر حضرت خلیل اللہ سیدنا ابراہیم علی نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام پر آگ نے کوئی اثر نہیں کیا تھا اسی طرح اس مبارک سلسلے کے مشائخ و مریدین سے ایسی کرامات لگاتار ظاہر ہیں کہ وہ آگ میں کود جاتے ہیں مگر آگ ان پر کوئی اثر نہیں کرتی حتیٰ کہ عالم اسلام کو تہ و بالا کرنے والے ظالم تاتاریوں کے سامنے اس مبارک سلسلے کے بعض مشائخ نے جب ایسی کرامت کا نظارہ پیش کیا تو انہی کے شاہی خاندان کا ایک بچہ ان کے سپرد کر دیا گیا اور بانی سلسلہ کے نام پر اس کا نام احمد رکھا گیا اور اس واقعے کی بدولت تاتاریوں کے شاہی خاندان میں اسلام اپنی قوت کے ساتھ داخل ہو گیا ۔ اس واقعے کو دیگر کتب کے علاوہ سلسلہ رفاعیہ کے کسی قدر ناقد علامہ شمس الدین ذھبی کی تاریخ الاسلام تک میں درج کیا گیا ہے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے