اپنا سامان قسطوں پر زیادہ قیمت میں بیچنا شرعاً کیسا ہے

*🕯 « احــکامِ شــریعت » 🕯*
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
*📚اپنا سامان قسطوں پر زیادہ قیمت میں بیچنا شرعاً کیسا ہے؟📚*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
سوال زیدکے پاس گاڑی ہے اگر وہ کیش میں بیچتا ہے تو اسکی قیمت بیس لاکھ مانگتا اگر قسطوں میں بیچتا ہے تو پچیس لاکھ میں بیچتا ہے ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں
*سائل ۔۔ عبدالواحد رضا ، کوٹہ جنکشن راجستھان* 
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ و برکاتہ*
*الجواب بعون الملک الوھاب:*
*جائزہے بشرطیکہ قیمت اور قسطوں کی مدت متعین ہو* 
چنانچہ علامہ علاء الدین حصکفی حنفی متوفی ۱۰۸۸ھ فرماتے ہیں:
*🖋️" (وصح بثمن حال) وهو الأصل (ومؤجل إلى معلوم) لئلا يفضي إلى النزاع "*
*📔(الدرالمختار ، کتاب البیوع ، ص۳۹۶ ، مطبوعۃ دارالکتب العلمیۃ بیروت، الطبعۃالاولی:۱۴۲۳ھ)*
یعنی، بیع نقد بھی درست ہے اور یہی اصل بیع ہے ، اور مدت معلوم تک ادھار بھی تاکہ مفضی الی النزاع نہ ہو 

اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ۱۲۵۲ھ فرماتے ہیں:
*🖋️" قيد بالثمن لأن تأجيل المبيع المعين لا يجوز ويفسده "*
*📔(ردالمحتار ، کتاب البیوع ، ۷/۵۲ ، دارعالم الکتب ریاض ، طبعۃخاصۃ:۱۴۲۳ھ)*
یعنی ، مصنف علیہ الرحمہ نے ثمن کی قید لگائی کیونکہ مبیع معین کو ادھار بیچنا جائز نہیں بلکہ فاسد ہے 

اور امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ فرماتے ہیں:
*🖋️" قرضوں بیچنے میں نقد بیچنے سے دام زائد لینا کوئی مضائقہ نہیں رکھتا، یہ باہمی تراضی بائع و مشتری پر ہے "*
*📔(فتاوی رضویہ ، کتاب الوقف ، باب المسجد ، رقم المسئلۃ : ۲۹۹ ، ۱۶/۴۹۵ ، رضافاؤنڈیشن لاہور)*

اور دوسری جگہ فرماتے ہیں:
*🖋️" یہ فعل اگر چہ نرخ بازار سے کیساہی تفاوت ہو حرام یا نا جائز نہیں کہ وہ مشتری پر جبر نہیں کرتا ، نہ اسے دھوکا دیتا ہے اور اپنے مال کا ہر شخص کو اختیار ہے چاہے کوڑی کی چیز ہزار روپیہ کو دے، مشتری کو غرض ہو لے ، نہ ہو نہ لے "*
*📔(ایضا ، کتاب البیوع ، بیع مطلق ، رقم المسئلۃ: ۲۴ ، ۱۷/۹۷,۹۸)*

اور علامہ خواجہ علی حیدر آفندی حنفی متوفی ۱۳۵۳ھ فرماتے ہیں:
*🖋️" البيع مع تأجيل الثمن وتقسيطه صحيح "*
*📔(دررالحکام شرح مجلۃالاحکام ، کتاب البیوع ، الباب الثالث ، الفصل الاول ، رقم المادۃ: ۲۴۵ ، ۱/۲۲۷ ، دارعالم الکتب ریاض ، طبعۃ خاصۃ:۱۴۲۳)*
یعنی، ثمن کے ادھار و قسط کے ساتھ بیع درست ہے

*ہاں ! ایسا کرنا خلاف اولی ضرور ہے ،*

امام اہلسنت فرماتے ہیں:
*🖋️" صراف کہ نقد روپیہ دینے والے کو پونے سولہ آنے دے یہ بیع بلا کراہت جائز ہے اور جو روپیہ اس وقت نہ دے دوسرے وقت کا وعدہ کرے اسے روپے کے عوض بارہ آنے دینا بھی جائز ہے ، سود و حرام و گناہ نہیں ، صرف مکروہ تنزیہی یعنی خلاف اولی ہےکہ نہ کرے تو بہتر ہے اور کرے تو حرج نہیں "*
*📔(فتاوی رضویہ ، کتاب البیوع ، باب الاستصناع ، رقم المسئلۃ: ۲۵۲ ، ۱۷/۶۰۸)*

*البتہ اگر ادھار یا قسطوں کی مدت مجہول ہوتو بیع درست نہیں بلکہ فاسد ہوگی* 

چنانچہ علامہ علی حیدر آفندی فرماتے ہیں:
*🖋️" يلزم أن تكون المدة معلومة في البيع بالتأجيل والتقسيط الأجل يتعين بكذا سنة أو شهراً أو يوماً أو إلى الشهر الفلاني وما أشبه ذلك فإذا عقد البيع على أجل مجهول فسد البيع "*
*📔(دررالحکام شرح مجلۃالاحکام ، رقم المادۃ: ۲۴۶ ، ص۲۲۸)*
یعنی ، ادھار و قسط والی بیع میں مدت معلوم ہونا لازم ہے ، اور مدت اتنے سال ، اتنے مہینے ، اتنے دن یا فلاں مہینے تک وغیرہ کے ذریعہ متعین ہوتی ہے ، لہذا جب عقد بیع مجہول مدت پر ہوتو بیع فاسد ہوگی 

*واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*✍🏻 کتبـــــــــــــــــــــــــــــه:*
*محمد شکیل اختر القادری النعیمی، شیخ الحدیث مدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند۔*

*✅الجواب صحیح والمجیب نجیح: عبدہ محمد عطاء اللہ النعیمی عفی عنہ، خادم الحدیث والافتاء بجامعۃ النور٫ جمعیت اشاعت اہلسنت (پاکستان) کراچی۔*
*✅الجواب صحیح والمجیب نجیح:عبدہ محمد جنید العطاری النعیمی عفی عنہ,دارلافتاء جامعة النور,جمعیت اشاعت اہلسنت(پاکستان) کراچی۔*
*✅الجواب صحیح والمجیب نجیح: محمد شرف الدین قادری رضوی، شیخ الحدیث دارالعلوم حبیبیہ قادریہ فیلخانہ ہوڑہ کلکتہ الھند۔*
*✅الجواب صحیح:محمد شہزاد نعیمی غفرلہ، دارلافتاء جامعة النور,جمعیت اشاعت اہلسنت(پاکستان) کراچی۔*
*✅الجواب صحیح: ابوثوبان محمدکاشف مشتاق نعیمی ، دارالافتاء جامعۃالنور جمیعت اشاعت اہلسنت (پاکستان)کراچی۔*
https://t.me/Faizan_E_DarulUloom_Amjadia_Ngp
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے