ہند میں گستاخ فرقوں نے سَر اُبھارا- علماے حق نے اپنی ذمہ داری کا احساس کیا- عقائدِ باطلہ پر شرعی گرفت کی- توہینِ رسالت کے مرتکبین کو سمجھانے کی کوشش کی اور آخرت کا خوف دلایا۔ جب دیکھا کہ وہ جنبش کو تیار نہیں تو پھر ان کا شرعی مواخذہ کیا۔
علماے ربانیین میں ایک نام اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری محدث بریلوی (ولادت ۱۲۷۲ھ/۱۸۵۶ء -وصال ۱۳۴۰ھ/۱۹۲۱ء) کا ہے۔ آپ نے ان عقائد و گستاخیوں سے متعلق تنبیہ و توبہ کی ترغیب کے بعد دینی ضرورت سمجھتے ہوئے علماے حرمین کی خدمت میں بِلا کم وکاست گستاخانہ عبارتوں کو پیش کیا اور حکمِ شرع واضح کرتے ہوئے علماے حرمین سے تصدیق چاہی۔ اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ علامہ فضل رسول بدایونی (م۱۲۸۹ھ)کی کتاب ’’المعتقد المنتقد‘‘ پر امام احمد رضا نے حاشیہ لکھا بہ نام ’’المعتمد المستند‘‘، اس کا خلاصہ امام احمد رضا نے دوسرے سفرِ حج ۱۳۲۳ھ میں علماے حرمین کی خدمت میں پیش کیا اور اس میں ہندُستان میں پیدا ہونے والے فرقوں... مثلاً قادیانی، نیچری، وہابی، دیوبندی، غیر مقلد وغیرہم کے عقائد ذکر کیے۔ جس پر ۳۳؍علماے حرمین نے مذکورہ فرقوں پر فتاویٰ کفر صادر فرمایا جس کی اشاعت ’’حسام الحرمین علی منحرالکفر والمین‘‘ (۱۳۲۴ھ) کے نام سے ہوئی۔
فتاویٰ حسام الحرمین کی اشاعت عربی میں ہوئی جب کہ اردو اور انگریزی تراجم بھی ہند و پاک سے بار بار شائع ہو چکے ہیں اور ساری دُنیا میں ان کی مقبولیت ہے۔
'’حسام الحرمین‘‘ (۱۳۲۴ھ) پر ۳۳؍علماے حرمین کی تصدیقات کی اشاعت کے ۲۰؍ سال بعد ۱۳۴۵ھ میں علامہ حشمت علی خان قادری پیلی بھیتی نے ’’الصوارم الہندیہ علیٰ مکر شیاطین الدیوبندیہ‘‘ کے نام سے ٢٦٨؍ علما و مشائخ کی تصدیقات جمع کر کے شائع فرمائیں۔ مصدقین میں مشہور خانقاہوں کے مشائخ و سلاسلِ طریقت کے پیرانِ عظام اور مشاہیر علماے برصغیر شامل ہیں-
آج بھی "حسام الحرمین" کا فیض جاری ہے- گستاخ گروہ بے نقاب ہے- توہین و جرأت کے خیمے لرزہ بر اندام ہیں- ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے تحفظ کی ایک مضبوط کڑی حسام الحرمین ہے- جس کا مطالعہ یقینی طور پر ایمان و عقیدہ کی سلامتی کے لیے بہت مفید ثابت ہو گا-
غلام مصطفیٰ رضوی
نوری مشن مالیگاؤں
٢٤ نومبر ٢٠٢٢ء
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں