••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
*📚وکالت کی آمدنی اور حرام آمدنی والوں کے گھر دعوت کھانے کا شرعی حکم📚*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام و علماء عظام مسئلہ ذیل کے بارےمیں
کہ زید وکالت کا کام کرتا ہے
اور وکالت میں کبھی جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرتے ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ۔۔ ایسے وکلاء کے گھر دعوت میں علماء کا جانا کیسا ہے؟
جواب عنایت فرمائیں۔
*المستفتی:* منصور عالم ، دودھ بازار ناسک سٹی مہاراشٹر انڈیا
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ*
*الجواب بعون الملک الوھاب:*
*وکالت کا پیشہ فی نفسہ ناجائز و حرام نہیں بلکہ جائز و مباح ہے*
چنانچہ امام شمس الائمہ سرخسی حنفی متوفی ۴۸۳ھ فرماتے ہیں:
*🖋️" "اذا وكل الرجل بالخصومة في شئ فهو جائز لانه يملك المباشرة بنفسه فيملك هو صکه الی غیرہ لیقوم فیہ مقامه وقد يحتاج لذلك اما لقلة هدايته او لصيانة نفسه عن ذلك الابتذال في مجلس الخصومة وقد جرى الرسم على التوكيل على ابواب القضاء من لدن رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم الى يومنا هذا من غير نكبير منكر وزجر زاجر "*
*📔(المبسوط للسرخسی ، کتاب الوکالۃ ، ۱۹/۴ ، مطبوعۃ دارالمعرفۃ بیروت ، ۱۴۰۹ھ)*
یعنی ، جب کوئی شخص کسی جھگڑے میں وکیل بنائے تو یہ جائز ہے کیونکہ وہ خود یہ کام کر سکتا ہے تو کسی اور سے کروانے کا اختیار بھی رکھتا ہے تاکہ دوسرا اس کے قائم مقام ہو جائے ، بسا اوقات وکیل بنانے کی ضرورت اس لئے بھی ہوتی ہے کہ مؤکل کو پوری سمجھ نہیں ہوتی یا کورٹ میں ذلت سے بچنا مقصود ہوتا ہے ۔ بہر حال فیصلوں میں وکیل بنانے کا جواز نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم کے زمانہ مبارکہ سے آج تک بغیر کسی انکار کے رائج ہے
*اگر شرعی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے وکالت کرے تو اس کی آمدنی بھی حلال و طیب ہے اور اس کے گھر دعوت کھانا بھی جائز ،*
چنانچہ علامہ خواجہ علی حیدر محمد امین آفندی حنفی متوفی ۱۳۵۳ھ فرماتے ہیں:
*🖋️" اذا شرطت الاجرۃ فی الوکالۃ ، و اوفاھا الوکیل استحق الاجرۃ ۔۔۔ لو وکل احد آخر بالمحاکمۃ والمخاصمۃ مع آخر ، وبین و وقت مدۃ معینۃ للخصومۃ والمرافعۃ وقولہ علی اجرۃ ، کانت الاجارۃ صحیحۃ ، و لزم الاجر المسمی "*
*📔(دررالحکام شرح مجلۃالاحکام ، کتاب الوکالۃ ، الباب الثالث ، الفصل الاول ، رقم المادۃ: ۱۴۶۷ ، ۳/۵۷۴ ، دارعالم الکتب ریاض ، طبعۃخاصۃ:۱۴۲۳ھ)*
یعنی ، جب وکالت میں اجرت کی شرط ہوئی اور وکیل نے وکالت پوری کردی تو وہ اجرت کا مستحق ہوگا ۔۔۔ کسی نے دوسرے کو جھگڑے کا فیصلہ کروانے کا وکیل بنایا اور معاملہ بیان کرکے مقدمہ کے وقت کو بیان کردیا اور وکیل نے اجرت پر یہ کام کیا تو اجارہ صحیح ہے اور مقررہ اجرت لازم ہوگی
*مگر گزرتے وقت کے ساتھ اس پیشے میں بےشمار منہیات شرعیہ در آئیں ، اور جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنا فی زمانہ وکالت کا جزو بن گیا ہے ، فلہذا آج کل جس طرح کی وکالت رائج ہے وہ شرعاً حرام ہے*
چنانچہ امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ فرماتے ہیں:
*🖋️" وکالت کا پیشہ جس طرح آج کل رائج ہے شرعا حرام ہے "*
*📔(فتاوی رضویہ ، کتاب النکاح ، رقم المسئلۃ: ۷۳ ، ۱۱/۲۵۷ ، رضافاؤنڈیشن لاہور)*
*فلہذا ایسی خبیث کمائی کرنے والوں کے گھر دعوت میں جانا اگرچہ حرام و ناجائز نہیں کہ بعینہ وہی مال حرام دعوت میں نہیں کھلاتا بلکہ اس سے اشیاء خرید کر دعوت کا انتظام کرتا ہے*
چنانچہ امام اہلسنت فرماتے ہیں:
*🖋️" اور اگر مال خریدا ہوا ہے اگرچہ سودی روپے سے ، تو اس کا کھانا حرام نہیں ، کہ اس کا وہ روپیہ حرام تھا ، خریدنا حرام نہ تھا ، اور کچھ معلوم نہ ہو جب بھی یہی حکم حلت ہے "*
*📔(ایضا ، کتاب الحظر والاباحۃ ، باب الاکل والشرب ، رقم المسئلۃ:۲۴۴ ، ۲۱/۶۵۰)*
*مگر اجتناب کرنا بہرحال اولی ہے بالخصوص علمائےکرام کو ضرور پرہیز کرنا چاہئے*
چنانچہ امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی فرماتے ہیں:
*🖋️" جس کا ذریعہ معاش صرف مال حرام ہے۔اس کے یہاں سے بچنا ہی اولی ہے تحرز اعن الخلاف (اختلاف سے بچتے ہوۓ۔ت ) مگر کوئی کھا نا حرام نہیں جب تک تحقیق نہ ہو کہ خاص یہ کھانا وجہ حرام سے ہے عملا بأصل الحل(صل کے اصل ہونے پر عمل کرتے ہوۓ۔ ت) ہاں یہ جدا بات ہے کہ ایسے فاسقوں سے خلط ملط مناسب نہیں خصوصا ذی علم کو "*
*📔(فتاوی رضویہ ، کتاب الحظر والاباحۃ ، باب الاکل والشرب ، رقم المسئلۃ: ۲۲۱ ، ۲۱/۶۳۷)*
دوسری جگہ فرماتے ہیں:
*🖋️" سود خوار کے یہاں نہ کھانا بہتر ہے خصوصا عالم و مقتداء کو اور فتوی وہی ہے کہ جب تک کسی خاص مال کی حرمت معلوم نہ ہو منع نہیں "*
*📔(ایضا ، رقم المسئلۃ: ۲۲۸ ، ص۶۴۱)*
*واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*✍🏻 کتبـــــــــــــــــــــــــــــه:*
*محمد شکیل اختر القادری النعیمی، شیخ الحدیث مدرسۃ البنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند*
*✅الجواب صحیح والمجیب نجیح: عبدہ محمد عطاء الله النعیمی عفی عنہ ، خادم الحدیث والافتاء جامعة النور,جمعیت اشاعت اہلسنت(پاکستان) کراچی۔*
*✅الجواب صحیح والمجیب نجیح:عبدہ محمد جنید العطاری النعیمی عفی عنہ,دارلافتاء جامعة النور,جمعیت اشاعت اہلسنت(پاکستان) کراچی۔*
*✅الجواب صحیح:محمد شہزاد النعیمی غفرلہ،دارلافتاء جامعة النور, جمعیت اشاعت اہلسنت(پاکستان) کراچی۔*
*✅صح الجواب:فقیر مُحَمَّد قاسم القادری اشرفی نعیمی غفر اللہ لہ ولوالدیہ شیش جراہ ببلدة بریلی الشریفہ و خادم غوثیہ دار الافتا کاشی پر اتراکھنڈ الھند*
*✅الجواب صحیح والمجیب مصیب:ابوآصف راجہ محمد کاشف مدنی نعیمی ، رئیس دارالافتاء ھاشمیہ کراچی*
*✅الجواب صحیح:ابوثوبان محمد کاشف مشتاق نعیمی ، دارلافتاء جامعة النور,جمعیت اشاعت اہلسنت(پاکستان) کراچی*
https://t.me/Faizan_E_DarulUloom_Amjadia_Ngp
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں