ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا

📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
🕯ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

کنیت: ام الحکم۔
لقب: اَوَّاھه (خشوع کرنے والی اور خدا کے حضور گڑ گڑانے والی۔ (اسد الغابة، حرف الزاء، 6955- زینب بنت جحش، 7/ 128۔)
نام: ابتدائی نام "برہ" تھا، رسولِ اکرمﷺ نے تبدیل کرکے "زینب" رکھ دیا۔ (صحیح البخاری، کتاب الادب، باب تحویل الاسم۔۔۔ الخ ص 532، الحدیث 6192)
سلسلسہ نسب: زینب بنتِ جحش بن ریاب [رباب] بن یعمر بن صبرہ بن مرہ بن کبیر [کثیر] بن غنم بن دودان بن اسد بن خزیمہ۔ (الطبقات الکبریٰ، ذکر ازواج رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم، 4132، زینب بنت جحش، 8/ 80۔)
والدہ کا نام: امیمہ بنتِ عبد المطلب۔ یہ رسولِ اکرمﷺ کی پھوپھی تھیں۔ اس طرح حضرت زینب رضی اللہ عنہا آپﷺ کی پھوپھی زاد ہوئیں۔ (اسد الغابة، حرف الزاء، 6955- زینب بنت جحش، 7/ 126۔)

ابتدائی زندگی: حضرت زینب کا پہلا نکاح حضورﷺ کے منہ بولے بیٹے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے ہوا جوﷺ کے آزاد کردہ غلام اور متبنیٰ (گود لیئے ہوئے لے پالک، بیٹے) تھے۔ دونوں کے تعلقات خوشگوار نہ رہ سکے تو حضرت زید نے حضورﷺ سے ان کو طلاق دینے کی اجازت مانگی۔ آپﷺ نے ان کو نباہ کرنے کا مشورہ دیا۔ لیکن جب تعلقات اور زیادہ ناخوشگوار ہونے لگے تو حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے انہیں طلاق دے دی۔

شرفِ ام المؤمنین: جب زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے آپ کو طلاق دے دی تو چونکہ عرب میں اس وقت تک متبنیٰ کو اصلی اولاد تصور کیا جاتا تھا۔ اس لئے آپ تامل فرماتے رہے لیکن چونکہ یہ جاہلیت کی رسم تھی اس کا مٹانا مقصود تھا تو اللہ تعالیٰ نے درجِ ذیل آیت قرآنی نازل فرما کر آپﷺ کو حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کرنے کا حکم دیا۔

ارشادِ باری تعالیٰ  ہے:
وَ اِذْ تَقُوۡلُ لِلَّذِیۡۤ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیۡہِ وَ اَنْعَمْتَ عَلَیۡہِ اَمْسِکْ عَلَیۡکَ زَوْجَکَ وَاتَّقِ اللہَ وَتُخْفِیۡ فِیۡ نَفْسِکَ مَا اللہُ مُبْدِیۡہِ وَ تَخْشَی النَّاسَ ۚ وَ اللہُ اَحَقُّ اَنۡ تَخْشٰىہُ ؕ فَلَمَّا قَضٰی زَیۡدٌ مِّنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنٰکَہَا لِکَیۡ لَا یَکُوۡنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیۡنَ حَرَجٌ فِیۡۤ اَزْوٰجِ اَدْعِیَآئِہِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْہُنَّ وَطَرًا ؕ وَکَانَ اَمْرُ اللہِ مَفْعُوۡلًا ﴿۳۷﴾
ترجمۂ کنزالایمان: اور اے محبوب یاد کرو جب تم فرماتے تھے اس سے جسے اللّٰہ نے نعمت دی اور تم نے اسے نعمت دی کہ اپنی بی بی اپنے پاس رہنے دے اور اللہ سے ڈر اور تم اپنے دل میں رکھتے تھے وہ جسے اللّٰہ کو ظاہر کرنا منظور تھا اور تمہیں لوگوں کے طعنے کا اندیشہ تھا  اور اللہ زیادہ سزاوار ہے کہ اس کا خوف رکھو پھر جب زید کی غرض اس سے نکل گئی تو ہم نے وہ تمہارے نکاح میں دے دی کہ مسلمانوں پر کچھ حرج نہ رہے ان کے لے پالکوں (منہ بولے بیٹوں) کی بی بیوں میں جب ان سے ان کا کام ختم ہوجائے اور اللہ کا حکم ہوکر رہنا۔ (سورۃ الاحزاب:37)   

اس آیت کے نزول کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے ماہِ  ذیقعدہ 5ھ میں نکاح کر لیا۔ آپ کے دعوت ولیمہ میں حجاب کی آیات نازل ہوئیں۔

فضائل و خصائل: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سے روایت  ہے: کہ ام المؤمنین حضرت زینب بنتِ جحش رضی اللہ عنھا بعد از نکاح، ازواجِ رسولﷺ پر فخر کیا کرتی تھیں، اور فرماتی تھیں کہ: تمہارے نکاح تو تمہارے متولیوں نے پڑھائے ہیں لیکن میرا نکاح خود خدائے ذوالجلال نے عرشِ مجید پر سر انجام دیا ہے اور حضور نبیِ کریمﷺ نے میر ے ولیمے پر روٹی اور گوشت کھلایا تھا۔ حضرت  زینب بنتِ جحش رضی اللہ عنھا  بڑی عبادت گزار اور کریم النفس تھیں، آپ ہنر مند تھیں، اس لئے جو کچھ کماتی تھیں اللہ کی راہ میں صرف کردیتی تھیں، اسی طرح بیت المال سے جو کچھ آتا تھا وہ بھی غربا میں تقسیم کردیا کرتی تھیں۔
اس نکاح پر کفارِ مکہ نے بڑی حاشیہ آرائی اور غوغا کیا کہ محمدﷺ نے اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرکے حرام کو حلال کرلیا ہے، لیکن قرآن نے "مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٌ مِّن رِّجَالِکُم" کہہ کر دشمنوں کے منہ پر ایک چپت رسید کردی، اور صاف صاف فرما دیا، "اُدعُوھُم لِاٰبَاءِھِم ھُوَاَقسَطُ عِندَ اللہِ" اس کے بعد زید بن محمد، زید بن حارثہ ہوگئے۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ: حضورِ اکرمﷺ نے فرمایا کہ: میری وفات کے بعد تم میں سے سب سے پہلے وہ خاتون مجھ سے آملے گی جس کے ہاتھ لمبے ہونگے، اس لئے ہم باہم ہاتھوں کی لمبائی ناپا کرتی تھیں (کہ کون سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کریگی)(ہاتھ لمبے مراد سخاوت تھی)جب ام المؤمنین حضرت زینب بنتِ جحش رضی اللہ عنھا کا انتقال ہوا تو پھر ہمیں معلوم ہوا کہ اس سے رسول اللہﷺ کی مراد سخاوت و فیاضی تھی لیکن چونکہ زینب بکثرت انفاق فی سبیل اللہ کیا کرتی اس لئے ہاتھ اسی کے لمبے تھے، اور پھر فرماتی ہیں کہ میں نے کوئی خاتون اتنی کریم النفس، متقی اور راستگو زندگی بھر نہیں دیکھی۔
رسول ِ کریمﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ: میں نے زینب سے بڑھ کر (عورتوں میں) کسی کو خضوع خشوع کرنے والا نہیں دیکھا۔ آپ کی دو بیوہ بھابھیاں بھی ازواجِ مطہرات میں سے تھیں۔ (ام المؤمنین ام حبیبہ جو عبید اللہ بن جحش کی بیوہ تھیں اور ام المؤمنین زینب بنت خزیمہ جو عبد اللہ بن جحش کی بیوہ تھیں)

وصال: آپ کا وصال حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت 14 رجب 20 [یا 21ھ] ہجری میں ہوا۔اس وقت آپ کی عمر 53 برس تھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جنازہ پڑھایا۔ اسامہ بن زید، محمد بن عبداللہ بن حجش اور عبداللہ بن ابو احمد بن جحش نے انہیں قبر میں اتارا، یہ پہلی خاتون ہیں، جن کے لئے تابوت تیار کیا گیا، اور آپ جنت البقیع میں  آرام فرما ہیں۔

ماخذ و مراجع: مدارج النبوت، قسم پنجم، باب دوم، در ذکر ازواج مطہرات، ج 2۔ ازواج مطہرات و صحابیات انسائیکلوپیڈیا۔ امہات المؤمنین، مجلس المدینۃ العلمیۃ دعوت اسلامی۔ فیضان امہات المؤمنین، مجلس المدینۃ العلمیۃ دعوت اسلامی۔
https://t.me/Faizan_E_DarulUloom_Amjadia_Ngp
◈◈⊰──────⊱◈◈◈⊰──────⊱◈◈
*مرتبیـن📝 شمـس تبـریز نـوری امجـدی، محمـد یـوسف رضـا رضـوی امجـدی "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 966551830750+/ 9604397443+*
◈◈⊰──────⊱◈◈◈⊰──────⊱◈◈

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے