فرماتے ہیں کہ میں آج سے ۲۰ سال پہلے مولانا ضیاء الدین صاحب کا لنگر پکاتا تھا جو صبح و شام جاری رہتا تھا۔ ایک دفعہ ہندوستان سے کچھ خاص مہمان آنے والے تھے اور لنگر کے لئے تنگدستی چل رہی تھی۔ صبح کی نماز پڑھ کر جب میں مولانا ضیاء الدین صاحب کے پاس پہنچا تو فرمانے لگے۔ غلام رسول ہندوستان بریلی سے کچھ خاص مہمان آنے والے ہیں اور ہم نے کچھ ضیافت کا انتظام کرنا ہے اور ان دنوں ہاتھ تھوڑا تنگ ہے۔ کسی سے پیسے ہمیں قرض مل جائیں بعد میں ادا کر دیں گے کوشش کرو۔۔۔۔۔
بابا جی فرماتے ہیں جب انہوں نے یہ بات بتائی تو میں تڑپ اٹھا اور میں ناشتہ کرنے کے بعد سید الشہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مزار ِاقدس پر احد شریف چلا گیا۔ اور سید الشہداء کی خدمت عالیہ میں عرض کیا کہ
"حضرت مولانا صاحب کے خاص مہمان آنے والے ہیں اور آج کل ہمارا ہاتھ تھوڑا تنگ ہے۔ اگر اپنے غلاموں پر نگاہ کرم ہو جائے تو عنایت ہوگی"
یہ باتیں عرض کرنے کے بعد کافی دیر تک میں مزار شریف میں بیٹھا رہا۔ پھر واپس آگیا اور ظہر کی نماز مسجد نبوی شریف میں ادا کی
ان دنوں مسجد نبوی میں باب مجیدی پر کوئی مرمت ہو رہی تھی تو میں مزدوروں کے ساتھ آ کر بیٹھ گیا۔ انہوں نے کہا کھانا کھالو میں نے ان کے ساتھ کھانا کھانا شروع کردیا پھر میں مولانا صاحب کے پاس آگیا تو فرمانے لگے غلام رسول کچھ بندوبست ہوا؟ تو میں نے عرض کی کہ
سرکار کوشش کی ہے شاید اللہ کامیابی عطا فرمادے۔
بابا جی فرماتے ہیں کہ میں جب عصر کی نماز پڑھ کر واپس جارہا تھا تو کافی لوگ تھے۔ باب مجیدی سے نکلتے ہوئے باہر کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا، "لو بھئی غلام رسول ! یہ تمہارے لئے ہے"۔۔۔۔۔۔ وہ ایک کپڑے کی تھیلی تھی اس میں چاندی کے ریال تھے۔ میں دیکھ کر ہکا بکا اور ششدر رہ گیا اور تھیلی دینے والی ہستی کو نہ دیکھے سکا
اتنے میں مولانا ضیاء الدین صاحب بھی عصر کی نماز پڑھ کر آچکے تھے۔ جب گھر پہنچے تو تھیلی میں نے ان کے آگے رکھ دی اور کہا کہ حضرت یہ اللہ نے ہماری مدد کردی ہے تو مولانا صاحب کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ فرمانے لگے یہ آپکو کہاں سے ملی ہے ؟ تو میں نے عرض کی کہ میں باب مجیدی سے باہر آ رہا تھا تو رش میں کوئی مجھے پکڑا گیا ہے آپ نے شاید کسی اور کو بھی کہا ہو شاید وہ ہمارے جاننے والے ہی ہوں اور پھر میں نے عرض کیا کہ " حضور میں نے انہیں دیکھا نہیں۔۔۔۔۔
مولانا صاحب نے فرمایا کہ غلام رسول آج ناشتے کے بعد کہاں گئے تھے ؟ میں نے عرض کیا کہ میں سید الشہداء کی خدمت میں گیا تھا اور وہاں عرض کر کے آیا تھا
"مولانا چیخ کر بولے کہ ارے جن کو عرض کر کے آیا تھا وہ خود ہی تو تمہیں تھیلی پکڑا کر گئے ہیں "
جب مولانا نے یہ بات کہی تو میری حالت غیر ہوگئی کہ کائنات کی اتنی بڑی ہستی مجھے یہ عطیہ دے کر گئی اور میں انہیں پہچان نا سکا میں فوراً ایک دوست کی سائکل پکڑ کر سید الشہدا کے مزار پر گیا اندھیرا ہو چکا تھا اور میں مزار شریف پر جا کر تقریباً گر گیا
تھوڑی دیر بعد مجھے اونگھ آگئی اور میں دیکھتا ہوں کہ حضرت امیر حمزہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اپنی نورانی صورت میں ظاہر ہوئے
تو میں نے عرض کیا کہ "حضور ! آپ نے اتنا بڑا کرم فرمایا میں اس قابل کہاں تھا آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ غلام رسول تم نے ہم سے مدد مانگی تھی کیا ہم تماری مدد نہ کرتے؟ جو بھی ہمارے پاس آتا ہے ہم اسے خالی نہیں لوٹاتے ۔۔
( کتاب ۔۔۔مقربِ بارگاہ ِ رسالت حضرت بابا غلام رسول نقشبندی مجددی مدنی ص 42
زیرِ نگرانی ڈاکٹر محمد مسعود احمد
مرتبہ محمد مقصود حسین قادری ))
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں