کیا حیلہ کرنا ناجائز ہے

کیا حیلہ کرنا ناجائز ہے

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ 

کیا فرماتے ہیں، علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں،
حیلہ شرعی کا ثبوت کہاں سے ہے، غیر مقلیدین حیلہ کو ناجائز بتا رہے ہیں ،
اس کا مدلل اور تفصیلی جواب عطا فرمائے ،،

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ 

الجواب ھو الھادی الی الصواب
جائز کام کے لیے شرعی حیلہ کیا جاۓ تو حیلہ کرنا جائز ہے،،۔

حیلہ کا جواز قران حدیث سے ثابت ہے،، اللہ عزوجل قرآن پاک میں فرماتا یے،،
  سورة ص 

وَ خُذۡ بِیَدِکَ ضِغۡثًا فَاضۡرِبۡ بِّہٖ وَ لَا تَحۡنَثۡ ؕ اِنَّا وَجَدۡنٰہُ صَابِرًا ؕ نِعۡمَ الۡعَبۡدُ ؕ اِنَّہٗۤ اَوَّابٌ ﴿۴۴﴾

اور فرمایا کہ اپنے ہاتھ میں ایک جھاڑو لے کر اس سے مار دے اور قسم نہ توڑ بے شک ہم نے اسے صابر پایا کیا اچھا بندہ بیشک وہ بہت رجوع لانے والا ہے ،،،،،

حضرت ایوب علیہ السلام کسی وجہ سے اپنی زوجہ سے ناراض ہو گئے اور یہ قسم کھائی کہ وہ صحت یاب ہو جایں گے تو سو 💯 کوڑے اپنی بیوی کو ماریں گے
صحت یاب ہونے کے بعد اپ کو یہ پریشانی ہوئی اگر وہ قسم پوری کرتے ہے، تو خدمت گزار بیوی کو تکلیف پہنچے گے،، تب انکو حکم ہوا قسم نہ توڑے تنکو کی جھاڑو لیکر انکو ماریں ،اور قسم نہ توڑے،، اس آیت سے بھی حیلہ کے جواز کا ثبوت ملتا ہے،، 

حیکہ کے جواز کی دوسری دلیل یہ ہے،، حضرت یوسف علیہ السلام اپنے بھائی بنیامن کو اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے،، تو ان کے کارندے نے شاہی پیمانہ بنیامن کے سامان میں رکھ دیا،، اور اس ملک کو قانون یہ تھا، جس کے پاس مال مسروقہ برآمد ہو اس شخص کو بطور سزا اس ملک کے مالک کے حوالہ کردیا جاتا تھا،
 سو جب شاہی پیمانہ بنیامن کے سامان سے برآمد ہوا تو ،بنیامن کو یوسف علیہ السلام کے حوالہ کردیا گیا،، 
اللہ عزوجل قران کریم میں فرماتا ہے

سورة يوسف آیت 76

فَبَدَاَ بِاَوۡعِیَتِہِمۡ قَبۡلَ وِعَآءِ اَخِیۡہِ ثُمَّ اسۡتَخۡرَجَہَا مِنۡ وِّعَآءِ اَخِیۡہِ ؕ کَذٰلِکَ کِدۡنَا لِیُوۡسُفَ ؕ مَا کَانَ لِیَاۡخُذَ اَخَاہُ فِیۡ دِیۡنِ الۡمَلِکِ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ ؕ نَرۡفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنۡ نَّشَآءُ ؕ وَ فَوۡقَ کُلِّ ذِیۡ عِلۡمٍ عَلِیۡمٌ ﴿۷۶﴾

تو اول ان کی خُرجیوں سے تلاشی شروع کی اپنے بھائی کی خُرجی سے پہلے پھر اسے اپنے بھائی کی خرجی سے نکال لیا ہم نے یوسف کو یہی تدبیر بتائی بادشاہی قانون میں اسے نہیں پہنچتا تھا کہ اپنے بھائی کو لے لے مگر یہ کہ خدا چاہے ہم جسے چاہیں درجوں بلند کریں اور ہر علم والے اوپر ایک علم والا ہے،،،،

حیلہ کے جواز پر ان احادیث سے استدلال کیا گیا ہے،

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْهَمْدَانِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي يُونُسُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي أَبُو أُمَامَةَ بْنُ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ أَخْبَرَهُ بَعْضُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْأَنْصَارِ:‏‏‏‏ أَنَّهُ اشْتَكَى رَجُلٌ مِنْهُمْ حَتَّى أُضْنِيَ، ‏‏‏‏‏‏فَعَادَ جِلْدَةً عَلَى عَظْمٍ فَدَخَلَتْ عَلَيْهِ جَارِيَةٌ لِبَعْضِهِمْ فَهَشَّ لَهَا فَوَقَعَ عَلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ رِجَالُ قَوْمِهِ يَعُودُونَهُ أَخْبَرَهُمْ بِذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ اسْتَفْتُوا لِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنِّي قَدْ وَقَعْتُ عَلَى جَارِيَةٍ دَخَلَتْ عَلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالُوا:‏‏‏‏ مَا رَأَيْنَا بِأَحَدٍ مِنَ النَّاسِ مِنَ الضُّرِّ مِثْلَ الَّذِي هُوَ بِهِ لَوْ حَمَلْنَاهُ إِلَيْكَ لَتَفَسَّخَتْ عِظَامُهُ مَا هُوَ إِلَّا جِلْدٌ عَلَى عَظْمٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْخُذُوا لَهُ مِائَةَ شِمْرَاخٍ فَيَضْرِبُوهُ بِهَا ضَرْبَةً وَاحِدَةً .

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ انصاری صحابہ نے انہیں بتایا کہ انصاریوں میں کا ایک آدمی بیمار ہوا وہ اتنا کمزور ہو گیا کہ صرف ہڈی اور چمڑا باقی رہ گیا، اس کے پاس انہیں میں سے کسی کی ایک لونڈی آئی تو وہ اسے پسند آ گئی اور وہ اس سے جماع کر بیٹھا، پھر جب اس کی قوم کے لوگ اس کی عیادت کرنے آئے تو انہیں اس کی خبر دی، اور کہا میرے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھو، کیونکہ میں نے ایک لونڈی سے صحبت کر لی ہے، جو میرے پاس آئی تھی، 
چنانچہ انہوں نے یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا، اور کہا: ہم نے تو اتنا بیمار اور ناتواں کسی کو نہیں دیکھا جتنا وہ ہے، اگر ہم اسے لے کر آپ کے پاس آئیں تو اس کی ہڈیاں جدا ہو جائیں، وہ صرف ہڈی اور چمڑے کا ڈھانچہ ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ درخت کی سو ٹہنیاں لیں، اور اس سے اسے ایک بار مار دیں۔ 

ابو داود 4472
اس حدیث میں حیلہ کے ذریعہ سزا کو پورا کیا گیا ہے،،،،،،

بخاری میں روایت ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمٍ ، فَقِيلَ : تُصُدِّقَ عَلَى بَرِيرَةَ ، قَالَ : هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ وَلَنَا هَدِيَّةٌ .


 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک مرتبہ گوشت پیش کیا گیا اور یہ بتایا گیا کہ یہ بریرہ رضی اللہ عنہا کو کسی نے بطور صدقہ کے دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ان کے لیے یہ صدقہ ہے اور ہمارے لیے ( جب ان کے یہاں سے پہنچا تو ) ہدیہ ہے۔“ 

صحیح بخاری 2577۔،،

ایک اور روایت بخاری میں ہے،،
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، قَالَ : حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَجِيدِ بْنِ سُهَيْلٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَ رَجُلًا عَلَى خَيْبَرَ ، فَجَاءَهُ بِتَمْرٍ جَنِيبٍ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَكُلُّ تَمْرِ خَيْبَرَ هَكَذَا ، فَقَالَ : لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّا لَنَأْخُذُ الصَّاعَ مِنْ هَذَا بِالصَّاعَيْنِ وَالصَّاعَيْنِ بِالثَّلَاثَةِ ، فَقَالَ : لَا تَفْعَلْ ، بِعِ الْجَمْعَ بِالدَّرَاهِمِ ، ثُمَّ ابْتَعْ بِالدَّرَاهِمِ جَنِيبًا ،


 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی ( سواد بن غزیہ رضی اللہ عنہ ) کو خیبر کا عامل مقرر کیا۔ وہ وہاں سے عمدہ قسم کی کھجوریں لائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ کیا خیبر کی تمام کھجوریں ایسی ہی ہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں، اللہ کی قسم یا رسول اللہ! ہم اس طرح کی ایک صاع کھجور ( اس سے خراب ) دو یا تین صاع کھجور کے بدلے میں ان سے لے لیتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس طرح نہ کیا کرو ‘ بلکہ ( اگر اچھی کھجور لانی ہو تو ) ردی کھجور پہلے درہم کے بدلے بیچ ڈالا کرو ‘ پھر ان دراہم سے اچھی کھجور خرید لیا کرو۔ 

📗صحیح بخاری 4244
اس حدیث میں سود سے بچنے کا حیلہ بتایا گیا 



واللہ اعلم بالصواب
فقیر محمد دانش حنفی
ہلدوانی نینیتال ،9917420179

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے