از: اشرف الفقہاء مفتی محمد مجیب اشرف
رحمۃ اللہ علیہ
کعبۂ معظمہ کو بیت اللہ شریف بھی کہتے ہیں اور یہی دُنیا میں سب سے پہلا وہ مکان ہے جو خاص اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے بنایا گیا۔ قرآن شریف میں ہے:
اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّھُدًی لِّلْعٰلَمِینَ (سورۃ آل عمران: ۹۶)
’’سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لیے بنایا گیا وہی ہے جو مکہ میں ہے۔‘‘
کعبۂ معظمہ کا وجود سب سے پہلے سیدنا آدم علیہ الصلوٰۃ و السلام کے زمانہ میں ہوا۔ حضرت شیخ محدث دہلوی رحمۃاللہ علیہ نے ’مدارج النبوت‘ میں نقل فرمایا ہے۔ جب حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ اے اللہ! میں اپنی سعادت کو جانتا ہوں اور تیرا ایسا نور دیکھتا ہوں جس میں تیری عبادت کرنا چاہتاہوں، تو خداے قدوس کے حکم سے مکۂ معظمہ میں اسی جگہ جہاں آج کعبہ ہے۔ ایک عبادت گاہ اُتاری گئی جو ساتویں آسمان کے بیت المعمور کے بالمقابل تھی، یہ بیت المعمور فرشتوں کا کعبہ ہے۔ یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے لیے یہ مکان بہشت سے بھیجا گیا تھا جو یاقوت کا تھا اور اس کے دو دروازے مشرق و مغرب میں تھے جو زمرد کے بنے ہوئے تھے، اس عبادت گاہ سے حضرت آدم علیہ السلام کا رنج و غم دور ہوا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے چالیس حج پاپیادہ کیے۔ یہ کعبہ حضرت نوح علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ تک ایسا ہی رہا اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ حضرت شیث علیہ السلام نے اسے پھر سے تعمیر فرمایا تھا۔ جب طوفانِ حضرت نوح علیہ السلام آیا تو یہ عبادت گاہ آسمان پر اُٹھا لی گئی اور بنیادیں ہموار ہوگئیں اور سیدنا ابراہیم علیہ الصلوٰۃوالسلام کے زمانہ تک ایسی ہی رہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃوالسلام اپنے چہیتے فرزند ارجمند حضر ت اسمٰعیل علیہ الصلوٰۃوالسلام کو زمانۂ شیر خوارگی میں ہی آپ کی والدہ ماجدہ حضرت ہاجرہ ( رضی اللہ عنہا) سمیت اسی مقام پر چھوڑ کر واپس ہوگئے تھے جہاں آج کعبہ ہے۔ اسی کو تلِ سرخ بھی کہتے ہیں۔ جب سیدنا اسمٰعیل علیہ الصلوٰۃوالسلام کچھ بڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کعبہ شریف کی تعمیر کا حکم فرمایا۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کعبۂ معظمہ کی تعمیر اسی جگہ شروع فرمائی جہاں حضرت آدم علیہ السلام کی عبادت گاہ تھی اور آج تک اسی جگہ قائم ہے۔ حضرت سیدنا ابراہیم اور حضرت سیدنا اسمٰعیل علیہما الصلوٰۃ والسلام دونوں نبیوں نے اپنے ہاتھوں سے کعبۂ معظمہ کی تعمیر فرمائی۔ حضرت اسمٰعیل خود اپنی گردنِ مبارک پر پتھر لاتے تھے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے نقل کیا گیا ہے کہ جو پتھر کعبۂ معظمہ کی تعمیر میں کام آئے وہ کوہِ حرا، کوہِ شبیر، لبنان، طور اور جودی کے تھے اور یہ بھی منقول ہے کہ یہ پتھر فرشتے تراشتے تھے۔
حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد عمالقہ اور ان کے بعد جرہم نے پھر کعبہ کی تعمیر کی، ان کے بعد قریش نے کعبۂ معظمہ کی تعمیر کی۔ جس وقت کہ حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کی عمر شریف پینتیس سال کی تھی؛صورت یوں ہوئی کہ سیلاب کی وجہ سے کعبۂ معظمہ منہدم ہوگیا تھا۔ قریشِ مکہ نے تعمیرکابیڑہ اُٹھایا، خود رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تعمیر اور پتھر لانے میں شریک تھے۔ جب تعمیر مکمل ہوگئی تو حجر اسود کے نصب کرنے پر قبائل میں جھگڑاہوگیا۔ ہر قبیلہ یہ کہتا تھا کہ جب تک میرے قبیلے کا ایک ایک فرد قتل نہیں ہوجائے گا میں دوسرے کوحجراسود نصب نہیں کرنے دوں گا۔ آخر اس پر فیصلہ ہوا کہ جوکوئی(صبح) مسجد حرام کے دروازے سے پہلے آئے اسی کے فیصلہ کو سب تسلیم کر لیں گے۔ اتفاق کہ سب سے پہلے تشریف لانے والوں میں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام تھے، تمام لوگ خوش ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی چادرِ مبارک بچھا کر حجراسود اس میں رکھا اور خاص قبیلوں کے خاص افراد سے چادر پکڑنے کے لیے فرمایا، اس طرح یہ حجر اسود کعبۂ معظمہ کی مشرقی جنوبی گوشہ تک لایا گیا، پھر حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اپنے دستِ اقدس سے کعبہ میں نصب فرمادیا۔ اس کے بعد اس زمانہ میں جب کہ کربلا میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت ہوئی، ان ہی ایام میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پھر کعبۂ معظمہ کی تعمیر کی۔ اس زمانہ میں آپ کی حکومت مکۂ معظمہ میں تھی۔ اس کے بعد جب ان ہی حضرت عبداللہ ابن زبیر پر ظالم حجاج بن یوسف نے عبدالملک کے حکم سے حملہ کیا، کعبۂ معظمہ میں بھی مسلمانوں کاخون بہایا گیا۔ بے حرمتی کی گئی۔ اس واقعہ کے درمیان حضر ت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب کہ آپ حجاج کی طرف سے پھینکے ہوئے منجنیق کے پتھر سے زخمی ہوکر بے ہوش ہوگئے تھے۔ آپ کا سرِمبارک وہیں کعبہ میں کاٹا گیا اور آپ کے جسم کو سولی دی گئی۔ پھر حجاج نے کعبۂ معظمہ کو منہدم کرکے پھر سے تعمیر کی جو آج تک قائم ہے۔
***
ترسیل : نوری مشن مالیگاؤں
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں