سیکولرزم کیا ہے

–––––– سیکولرزم کیا ہے ––––––

آئے دن سیکولرزم(secularism) کا لفظ ہمارے ذہن کے عصبیات سے ٹکڑاتا رہتا ہے لیکن ہم میں سے کم ہی لوگ ایسے ہیں جنہیں اس سے متعلق کماحقہ معلومات فراہم ہے انشاءاللّٰه‎‎ ذیل میں مذکور چند سطریں آپ کے لئے نہایت ہی سودمند ثابت ہونگی۔
سیکولرزم( secularism) لفظ کی تحقیق جب شروع کی گئی تو مشہور انگلش ڈکشنری کیمبرج میں ’’سیاسی و معاشرتی معاملات میں مذہب کی عدم مداخلت کا نام سیکولرزم بتایاگیا ‘‘۔ امریکن ہری ٹیج ڈکشنری میں ’’اجتماعی معاملات میں مذہب کو شامل کیے بغیر چلانے کا نام سیکولرزم بتایا گیا‘‘۔ آکسفورڈ، مریم ویبسٹرز اور دیگر تمام تر معتبر انگریزی لغات میں سیکولرزم کی تعریف تقریبا یہی کی گئی ہے کہ ہر ایک شخص اپنی انفرادی زندگی میں پرستار خدا اور پیروکار مذہب تو ہو سکتا ہے لیکن اس کی حد بندی انفرادی زندگی تک ہی رکھی گئی اس سے تجاوز کرنے کی قطعا اجازت نہیں ۔
          اسے واضح طور پر یوں سمجھ سکتے ہیں کہ ایک ہی شخص کو آن واحد میں دو طرح کا طرز عمل اختیار کرنا ہوگا ایک تو "انفرادی دوسرا معاشرتی اور حکومتی" انفرادی حالات میں انسان کو یہ تو اختیار حاصل ہے کہ وہ خدائے لم یزل کی پرستش کرے اس کی نازل کردہ کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے احکام شرع سے اپنے آپ کو مربوط رکھے اور دینی قوانین و ضوابط پر عمل پیرا رہے لیکن اجتماعی حالات اس کے بر خلاف اور اس سے جدا گانہ ہوں گے دین و مذہب کا اجتماعی معاملات میں کوئی دخل نہ ہوگا بلکہ انسان کو حکومت کے خود ساختہ قوانین و ضوابط کی بیڑیاں پیروں میں ڈالے ہوے ان اصول و قوانین کا ہمیشہ ہمیش کاربند رہکر زندگی کا سفر طے کرنا پڑے گا جن کی ساختگی میں سیاسی لیڈران کی نفسانی خواہشات کی جھلکیاں نصف نہار کی طرح ظاہر و باہر ہونگی لیکن یہ کس حد تک ممکن ہوگا کہ ایک ہی شخص انفرادی زندگی میں خدائے واحدالاصل اور اس کے رسولوں اور کتابوں کے پیرو رہے اور وہی شخص اجتماعی زندگی میں ان باتوں سے انحراف کرتے ہوے خالق کائنات سے بغاوت کے در پے ہوتا نظر آئے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دعوی کرتا رہے کہ میں انفرادی زندگی میں اَللّٰهُﷻاور اس کے دین متین کا ماننے ‎‎ والا ہوں ایسے ہفوات اور لغویات صرف وہی شخص اپنی زبان سے نکال سکتاہے جس کی عقل ماری گئی ہو اور اپنے آپے سے باہر ہوچکا ہو۔۔ اس سے زیادہ واہیات بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ ہر ایک شخص فرداً فرداً تو اَللّٰهُﷻ‎‎ کا بندہ ہو مگر الگ الگ بندے جب مل کر معاشرہ بنائیں تواس کے بندے نہ رہیں بلکہ خود قادرمطلق اور خودمختار بن جائیں اور اجتماعی معاشرت کے قانون اپنی فکر و تخیلات اور خواہشات کے مطابق ترتیب دیں ۔ جبکہ زمین ، آسمان شمس و قمر خاکدان گیتی کا چپہ چپہ الغرض پوری کائنات کا خالق، مالک و مختار اَللّٰهُﷻ‎‎ ہے اور وہی اس کا حق رکھتا ہے کہ اس کے بنائے ہوئے اجتماعی معاشرت کے قانون کو مانا اور اسی پر نظام حکومت چلایا جائے۔ لیکن موجودہ نظام جمہوریت کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس نظام میں مذہب کیلئے کوئی جگہ ہی نہیں ہے۔
یہاں پر علامہ اقبال کا شعر اگر پڑھا جائے تو بر محل ہوگا

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشہ ہو 
جدا ہودین سیاست سےتو رہ جاتی ہےچنگیزی

        اسلام اور سیکولرازم ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے کیونکہ اسلام کا مطلب اللہ تعالیٰ کی حاکمیت جبکہ سیکولرازم کا مطلب ہے بندوں کی حاکمیت، بندوں کےارادوں ، بندوں کی خواہشات و مطالبات کی حاکمیت۔ کوئی آدمی اگر ہندو، عیسائی اور دیگر مذاہب کا پیرو ہو تو سیکولر تو رہ سکتا ہے لیکن مسلمان بیک وقت سیکولر اور مسلمان نہیں رہ سکتا۔ ایسا کرنے کے لیے قرآن اور سیرت رسول ﷺکے ایک بہت بڑے حصے کا واضح انکار کرنا پڑے گا۔ جبکہ دین کے تو ایک واضح نکتے کا انکار بھی کفر ہے اور خدا کے سخت غصے اور غیظ و غضب کا باعث ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں اس سے متعلق یوں انتباہ فرمایا گیا ۔

اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَ تَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍۚ-فَمَا جَزَآءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِكَ مِنْكُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یُرَدُّوْنَ اِلٰۤى اَشَدِّ الْعَذَابِؕ وَ مَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ(85) ( البقرہ )
کیا خدا کے کچھ حکموں پر ایمان لاتے اور کچھ سے انکار کرتے ہو تو جو تم میں ایسا کرے اس کا بدلہ کیا ہے مگر یہ کہ دنیا میں رسوا ہواور قیامت میں سخت تر عذاب کی طرف پھیرے جائیں گے اور اللہ تمہارے کوتکوں سے بے خبر نہیں۔


   ✍️: سعید رضا اسعد
        اتردیناج پور
متعلم: جامعہ اشرفیہ مبارک پور

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے