قائد اہل سنت کی دور اندیشی

قائد اہل سنت کی دور اندیشی________

حضرت غلام رشید عرف علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ 5/ مارچ - 1925ء کو اترپردیش ضلع بلیا کے سید پورا گاؤں میں پیدا ہوئے۔ 1947ء میں فراغت کے بعد شمس العلوم ناگپور میں مدرس مقرر ہوئے۔ پھر وہاں سے 1952ء میں جمشید پور تشریف لائے اور ایک نیک شخص کے برآمدے میں فیض العلوم مکتب کی ابتداء کی جو آگے چل کر مدرسہ بنا۔ اور 31/ مارچ - 1955ء کو باضابطہ طور پر مدرسه فیض العلوم کی بنیاد حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کے مقدس ہاتھوں سے ایک وسیع وعریض احاطے میں رکھی گئی جو جلد ہی ہندوستان کے ممتاز اداروں میں سے ایک ہوگیا۔ 1970ء میں فیض العلوم مڈل اسکول کی بناء رکھی جو بہت جلد ہی ہائی اسکول ہو گیا۔ اسی طرح 1972ء میں فیض العلوم ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ قائم فرمایا۔ اس کے علاوہ رئیس القلم نے ملک اور بیرون ملک درجنوں جدید نوعیت کے تعلیمی ادارے ، اور سیکڑوں مساجد و مدارس قائم کیے۔ اور بالآخر یہ روشن و تابندہ ستارہ جس سے ایک آفاق روشن تھا 15/ صفر - 1423ھ بمطابق 29/ اپریل- 2002ء کو آفاق ظاہری سے روپوش ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ انکے مرقدِ انوار پر رحمت و نور کی بارش فرمائے ! آمین۔

 *حیات زیست کا نمایاں وصف*_________

بانی مساجد و مدارس کثیرہ، قائد اہل سنت، رئیس القلم علیہ الرحمہ کی زندگی کا سب سے نمایاں وصف بلاشبہ فروغ علم سے عبارت ہے۔ اور اسی لیے آپ کی نظریۂ تعلیم کو سمجھنا آج ہم سب کے لیے بیحد مفید اور ضروری ہے۔ اس پہلو پر روشنی ڈالنے سے قبل ہندستانی مدارس اور ان کے فارغین کا سرسری جائزہ لیتے ہیں:
(1) وہ مدارس جہاں کے فارغین کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ زیادہ تر مفتی ہوتے ہیں۔ دین و سنیت کی دعوت کا کام کرتے ہیں اور جلسوں میں شرکت زیادہ کرتے ہیں۔ یہ حضرات عموماً پانچ ہزار سے دس ہزار روپے ماہانہ پر ملازمت کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثراقتصادی طور پر اس قدر کمزور ہوتے ہیں کہ اگر خدا نخواستہ ان کے یہاں کوئی حادثہ ہو جائے تو ان کو ہاتھ پھیلانے کی ضرورت پڑجاتی ہے۔ إلا ماشاء الله!
(2) وہ مدارس جہاں کے طلباء کو کالج و یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب و سہولیات دی جاتی ہیں۔اکثر یہی وہ فارغین مدارس ہیں جو ملک اور بیرون ملک، قوم و ملت کی قیادت کر رہے ہیں۔ جدید دینی و عصری تعلیمی ادارے قائم کر رہے ہیں، یا ان کی سربراہی کر رہے ہیں۔
 اسی آخری کیٹیگری میں جانشین قائد اہل سنت حضرت علامہ ڈاکٹر غلام زرقانی صاحب قبلہ مدظلہ العالی جیسے علماء شامل ہیں۔ جو اس وقت امریکہ میں ایک یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں۔ حجاز انٹرنیشنل اکیڈمی کے چیئرمین ہیں، فیض العلوم اور ادارۂ شریعہ پٹنہ وغیرہ جیسے اداروں کے سربراہ ہیں۔ اسی فہرست میں نبیرۂ قائد اہل سنت حضرت حافظ و قاری مولانا ڈاکٹر خوشتر نورانی صاحب قبلہ مدظلہ العالی صاحبزادۂ حضرت مولانا غلام ربانی صاحب قبلہ مدظلہ العالی بھی ہیں، جنہوں نے تکمیل حفظ و درس نظامی کے بعد یونیورسٹی کا رخ کیا، اور ''پی ایچ ڈی'' کی ڈگری حاصل کی۔ جام نور جیسے شہرۂ آفاق دینی مجلے کی برسوں ادارت کی اور فی الوقت امریکہ میں دین و سنیت کی خدمت کر رہے ہیں۔ قائد اہلسنت کے پوتوں میں ایک اور نمایاں نام حضرت مولانا محمود غازی ازہری صاحب زید مجدہ کا بھی ہے جو حضرت مولانا فیض ربانی صاحب قبلہ مدظلہ العالی کے نور نظر ہیں۔ آپ اس وقت جامعہ حضرت نظام الدین اولیاء دہلی کے بہت ہی کامیاب ڈائریکٹر ہیں۔ان کی سرپرستی میں جامعہ صوری و معنوی دونوں جہتوں سے اپنے عروج پر ہے۔ بلند حوصلوں کے ساتھ اپنے دادا قائد اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ کے مشن کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں۔ 
واضح رہے کہ ان تینوں حضرات کی تعلیم و تربیت قائد اہل سنت رحمۃ اللہ کے عین منشاء کے مطابق ہوئی ہے۔ قائد اہلسنت رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اپنے صاحبزادے اور اپنے نبیروں کی تعلیم و تربیت کے لیے جس راہ عمل کا انتخاب کیا تھا وہی راستہ آپ علیہ الرحمہ نے دیگر طلباء مدارس کو بھی دکھایا اور ان کے لیے مختلف پلیٹ فارم تیار کیے۔ جن کے برکات و ثمرات آج تک جاری ہیں۔آپ علیہ الرحمہ علماء کرام کے ساتھ عام مسلمانوں کو بھی دینی و عصری علوم و فنون سے آراستہ دیکھنا چاہتے تھے تاکہ ان کی دنیا بھی اچھی ہو اور آخرت بھی اچھی ہو - اس کا واضح ثبوت فیض العلوم ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ، فیض العلوم بوائز اینڈ گرلز ہائی اسکول ، جامعہ حضرت نظام الدین اولیاء وغیرہ جیسے متعدد ملکی و غیر ملکی ادارے ہیں۔ 
  قائد اہلسنت نے ان اداروں کو قائم کرنے کی ابتدا تقریبا 50 سال پہلے اس وقت کی تھی جب موجودہ وقت کے رحمانی تھرٹی، شاہین گروپ آف ایجوکیشن، الامین ایجوکیشن ٹرسٹ وغیرہ اور دہلی، کوٹا، پٹنہ، چنئی، گجرات، حیدرآباد، پونے، بھوپال اور کلکتہ وغیرہ میں قائم سینکڑوں مسلم کوچنگ سینٹرز کا وجود کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھے۔بہت بعد میں قائم ہونے والے یہ معمولی درجے کے عصری تعلیمی ادارے آج کالج اور یونیورسٹی میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ جس میں ہزاروں مسلم لڑکیاں (پردے میں رہ کر) اور مسلم لڑکے پڑھ رہے ہیں، اور کامیاب ہو رہے ہیں۔ ان اداروں میں زیر تعلیم رہ کر فارغین مدارس بھی مستفیض ہو رہے ہیں۔ ناچیز کو قوی امید ہے کہ قائد اہل سنت رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے قائم کردہ عصری دینی تعلیمی ادارے بھی شاہراہ ترقی پر گامزن ہوں گے، اور وہاں بھی ہزاروں مسلم لڑکیاں اور مسلم لڑکے زیور تعلیم سے آراستہ و پیراستہ ہو رہے ہوں گے۔ قائد اہل سنت رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے سچی محبت و عقیدت کا تقاضا بھی یہی ہے۔

 *عرس سے زیادہ تعلیمی ادارے پسند تھے*________
 
 رئیس القلم علیہ الرحمہ کو چادر و گاگر سے زیادہ تعلیمی ادارے پسند تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مرید کم بنایا اور شاگرد زیادہ پیدا کیے۔ انکے مرید تو انگلیوں میں گنے جا سکتے ہیں لیکن ان سے علمی فیض پانے والوں کی تعداد بے شمار ہیں۔

 *آپ علیہ الرحمہ سے سچی محبت کیسی ہو؟* _______

 قائد اہل سنت علیہ الرحمہ سے سچی محبت و عقیدت کا تقاضا یہ ہے کہ قائد اہل سنت کی اس مثبت نظریۂ تعلیم کو فروغ دیں اور تحریر و تقریر کے ذریعے تعلیمی تحریک کی شکل میں اس نظریے کو عام کریں، احیا کریں، اور گھر گھر نور علم کا چراغ روشن کریں۔ اسی میں ہماری اور ہماری قوم کی ترقی اور کامیابی کا راز مضمر ہے۔  

شہادت حسین فیضی
9431538584

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے