مردے کی بے بسی کی کچھ یوں منظر

آقا اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت،مولاناشاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فتاوٰی رضویہ ج۹ ص۹۳۴ تا ۹۳۷پرمردے کی بے بسی کی کچھ یوں منظر کشی فرماتے ہیں :وہ موت کا تازہ صدمہ اٹھائے ہوئے رُوح (کہ نکلتے وقت) جس کا ادنیٰ جھٹکا سَو ضربِ شمشیر (یعنی تلوار کے سو وار) کے برابر، جس کا صدمہ ہزار ضربِ تیغ (یعنی تلوار کے ہزار وار) سے سخت تر، بلکہ ملکُ الموت (عَلَیْہِ السَّلَام )کا دیکھنا ہی ہزار تلوار کے صدمے سے بڑھ کر۔ وہ نئی جگہ ، وہ نِری تنہائی ، وہ ہر طرف بھیانک بے کسی چھائی ، اِس پر وہ نکیرَین(یعنی منکر نکیر)کا اچانک آنا ،وہ سخت ہیبت ناک صورَتیں دکھانا کہ آدمی دن کو ہزاروں کے مجمع میں دیکھے تو حو اس بَجانہ رہیں ، کالا رنگ، نیلی آنکھیں دیگوں کے برابر بڑی، اَبرَق (چمکیلی دھات) کی طرح شُعلہ زن، سانس جیسے آگ کی لَپَٹ، بیل کے سینگوں کی طرح لمبے نوک دار کِیلے (یعنی اگلے دانت)، زمین پر گِھسٹتے سر کے پیچیدہ بال، قدو قامت جسم و جَسامت بلا وقیامت کہ ایک شانے (یعنی کندھے) سے دوسرے (کندھے) تک منزلوں (یعنی بے شمار کلومیٹرز) کا فاصلہ، ہاتھوں میں لوہے کا وہ گُرز (یعنی ہتھوڑا) کہ اگر ایک بستی کے لوگ بلکہ جنّ و اِنس جمع ہو کر اٹھانا چاہیں نہ اٹھا سکیں ، وہ گرج کڑک کی ہولناک آوازیں ، وہ دانتوں سے زمین چیرتے ظاہر ہونا، پھر ان آفات پر آفت یہ کہ سیدھی طرح بات نہ کرنا، آتے ہی جھنجھوڑ ڈالنا، مُہْلَت نہ دینا، کَڑَکتی جِھڑَکتی آوازوں میں امتحان لینا۔ وَ حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ اِرْحَمْ ضُعْفَنَا یَا کَرِیْمُ یَا جَمِیْلُ صَلِّ وَ سَلِّمْ عَلَی نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ وَاٰلِہِ الْکِرَامِ وَ سَائِرِا لْاُمَّۃِ اٰمِیْنَ اٰمِیْنَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْن۔

ترجمہ: اور اللہ ہمارے لئے کافی ہے اوروہ سب سے بڑا کارساز ہے۔ اے کرم فرمانے والے!ہماری کمزوری پر رَحم وکرم فرما، اے ربِّ جمیل!دُرُودوسلام بھیج نبی رَحمت (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) پر اور ان کی عزّت والی آل اور بَقِیَّہ تمام اُمّت پر۔ قبول فرما، قبول فرما، اے سب سے زیادہ رَحم و کرم فرمانے والے!

کھڑے ہیں منکر نکیر سر پر نہ کوئی حامی نہ کوئی یاور

بتا دو آکر مرے پیمبر کہ سخت مشکل جواب میں ہے

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے