میں نے اپنا وقت آپ کو نذر کیا آپ تقریر جاری رکھیں

میں نے اپنا وقت آپ کو نذر کیا آپ تقریر جاری رکھیں

✍️: محمد سلیم قادری رضوی۔

آج ہر جگہ تناؤ اور کھچاؤ کا ماحول ہے۔۔۔ جہاں دیکھو وہاں نفرتیں، غلط فہمیاں، بدگمانیاں، اور تعصب پروان چڑھ رہے ہیں۔۔۔لوگ ساتھ رہ کر بھی جدا ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ مذہبی طبقہ میں بھی یہ رویے اپنی جڑیں مستحکم کرتے جارہے ہیں۔۔۔ تو ہم نے ارادہ کیا کہ نفرتوں اور عداوتوں کے اس تعفن زدہ ماحول میں محبت کی دلکش خوشبوئیں بکھیریں تاکہ اخلاف کو اندازہ ہو کہ ان کے اسلاف کے دل میں اپنے معاصرین کے لیے کتنی وسعت اورگنجائش تھی۔۔۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان کے خمیر میں ہی محبتوں اور الفتوں کا یہ آبِ شیریں شامل کردیا گیا تھا۔

اس موضوع پر بہت سی حکایات پیش کی جاسکتی ہیں لیکن ہم نے اپنے طرز و انداز کے مطابق صرف ایک حکایت پر اکتفا کیا ہے، جس میں محض اسلاف کی الفت باہمی کا ہی ذکر نہیں بلکہ آپ اس میں صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ کا علمی مقام ملاحظہ کرکے خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوجائیں گے۔

حکایت پیش خدمت ہے:

”ایک بار جامعہ نعیمیہ مراد آباد کے سالانہ جلسے میں شریک ہونے والے علماء نے درخواست پیش کی کہ آج حضور (صدر الشریعہ) ”امتناع نظیر“ (یعنی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی مثل کا ہونا ناممکن ہے) پر تقریر فرمائیں۔ حضرت صدرالشریعہ نے حسب عادت معذرت کی کہ ”میں مقرر بھی نہیں ہوں اور مسئلہ بہت دقیق ہے۔ اسے بیان کرنا بہت مشکل کام ہے“ 

حضرت صدر الافاضل مولانا نعیم الدین مراد آبادی نے یہ سن کر فرمایا: ”مسئلہ دقیق سہی مگر آپ جب بیان فرمائیں گے تو آفتاب سے زیادہ روشن ہو جائے گا۔“ اس وقت حضرت صدرالشریعہ خاموش ہوگئے۔
علما نے سمجھا کہ قبول فرما لیا۔

جلسے میں حضرت صدر الشریعہ کے تعارف کے وقت صدرالافاضل نے اعلان فرمادیا کہ: 

”آج حضرت صدر الشریعہ کی تقریر کا عنوان امتناعِ نظیر ہے۔ مسئلہ اگرچہ بہت دقیق ہے مگر بیان کرنے والا عبقری مدرس ہے جو جعل بسیط، مرکب وجود رابطی، مثناہ بالتکریر جیسے اہم و دقیق منطقی و فلسفی مسائل کو پانی کر دیتا ہے۔ فلسفہ اور علم الکلام اور الٰہیات کے مسائل کو بدیہی کر کے سمجھا دیتا ہے۔

 حضرت محدث صاحب تشریف فرما تھے یہ سنتے ہی پھڑک اٹھے اور فرمایا کہ” آج استاذالاساتذہ علامہ فضل حق خیرآبادی اور اپنے وقت کے امیر المومنین فی الحدیث محدث سورتی کے مجمع البحرین کے بحر نا پید کنار کے انمول موتیوں سے دامن بھرا جائے گا۔“ 

صدرالشریعہ نے آیت کریمہ ﴿مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-﴾کو اپنی تقریر کا عنوان قرار دیا۔ اور حسبِ عادت انکساری اور تواضع کے چند کلمات کہنے کے بعد ہنس کر فرمایا۔ مگر جب ان نائبانِ رسول و اساطین ملت کا حکم ہے تو اس کی تعمیل ضروری ہے۔ یہ ان حضرات کا حسن ظن ہے کہ میں اس کا اہل ہوں۔ مجھے اللہ تعالیٰ کے کرم سے امید ہے کہ ان جلیل القدر علماء کا حسنِ ظن غلط نہیں ہونے دے گا۔

 اصل موضوع پر آیہ کریمہ: ”خاتم النبیین“ اور آٹھ دس احادیث کریمہ سے بطورِ قیاس شرعی ثابت فرمایا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نظیر محال بالذات ہے تحت قدرت نہیں اور حضور اقدس صلی الله علیہ والہ وسلم کے مثل ماننے سے ان نصوص کے انکار کے ساتھ ساتھ الله عزوجل کا جھوٹا ہونا لازم آئے گا۔ ایک گھنٹہ تک بڑی سلاست و روانی کے ساتھ اس مضمون کو بیان فرمایا ۔علماء کرام محو حیرت اور مجمع دم بخود معلوم ہوتا تھا کہ ایک انسان نہیں بول رہا ہے بلکہ عالم قدس کا کوئی ملک مقرب الہامِ ربانی کی تلاوت کر رہا ہے۔ ایک گھنٹہ پورا ہونے پر جیب سے گھڑی نکالی، دیکھ کر فرمایا: ”میرا وقت ختم ہوگیا میں رخصت ہو رہا ہوں“ اس کے بعد حضرت محدث اعظم ہند کا وقت تھا۔ حضرت محدث اعظم ہند نے فرمایا: ” میں نے اپنا وقت آپ کو نذر کیا آپ تقریر جاری رکھیں“

 حضرت صدرالشریعہ کا علم بھی اس وقت جوش مار رہا تھا اور مائل بفیض بھی تھے۔ درود شریف پڑھوا کر پھر تقریر شروع کردی۔ آیت کریمہ ”خاتم النبیین“ کی ایک نئے رنگ سے تفسیر فرمائی، پہلے بطریق معروف بیان فرمایا کہ ”خاتم“ اسمِ اٰلہ ہے اس کا مادہ ”ختم“ ہے جس کے معنیٰ مہر کرنے کے ہیں۔ مگر اس کا استعمال معنی اسمی میں ہے۔ پھر اس کے لغوی، عرفی، شرعی تینوں معنی تفصیل سے بتائے۔ جب معنی شرعی بتاتے وقت مسلسل احادیث بیان کرنا شروع کیں تو معلوم ہوتا تھا کہ امام بخاری احادیث سنا رہے ہیں۔ پھر ثابت فرمایا کہ خاتم کہ کوئی بھی معنی لیے جائیں ہر معنی کے لحاظ سے اس سے ثابت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مثل محال بالذات ہے۔ اتنے میں یہ گھنٹہ بھی ختم ہوگیا۔ یہ فرما کر کہ حضرت محدث اعظم کا عطا کیا ہوا وقت بھی ختم ہو گیا اب میں رخصت ہوتا ہوں۔ اس کے بعد غالباً حضرت ابوالحسنات یا ابوالبرکات لاہوری بانی حزب الاحناف لاہور کا وقت تھا۔ اب انہوں نے فرمایا کہ ” حضرت میں بھی اپنا وقت نذر کرتا ہوں آپ اپنی تقریر جاری رکھیں“ اسی اثنا میں کسی نے کہا کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا مثل محال بذات کیوں ہے۔ اگر اس کو محال بالغیر مانا جائے اور ممکن بذات تو کیا خرابی لازم آئے گی؟ اسے واضح فرما دیں یہ سن کر پھر تبسم فرمایا اور ”امتناع نظیر“ کے محال بالغیر ہونے اور ممکن بالذات ہونے پر دس پندرہ استحالے قائم فرمانے کے بعد مولوی قاسم نانوتوی کے رد کی طرف رخ موڑا۔ وہ اس کا قائل تھا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مثل ممکن ہی نہیں واقع ہے۔

اور چھ مثل زمین کے زیریں طبقات میں ہوچکے ہیں۔ (معاذ اللہ) پھر تو صدرالشریعہ کے بیان کا رنگ ہی کچھ اور ہو گیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ عوام و خواص سب کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں۔ سب ساکت و جامد، یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ عام سامعین نے ان مضامین کو سمجھا ہوگا مگر بغور سنتے رہے۔ نہ کوئی اٹھا نہ کوئی اونگھا۔معلوم ہوتا تھا کہ سب پر سحر ہلاہل کردیا گیا ہے۔ حضرت مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ جو وہاں موجود تھے، فرماتے ہیں: ”اس وقت حضرت صدرالشریعہ کی روحانی قوت کا لوہا سب نے مان لیا اور علم و فضل کا اعتراف تو پہلے ہی سے تھا۔“

تیسرا گھنٹہ بھی پورا ہونے پر صدرالشریعہ نے یہ فرما کر کہ اب بہت دیر ہوگئی، آپ حضرات بیٹھے بیٹھے تھک گئے ہوں گے۔ سنتے سنتے اکتا گئے ہونگے۔ اس لیے اب میں ”کان رسول الله صلی اللہ والہ وسلم یتخولنا للموعظۃ“ پر عمل کرتے ہوئے بس کرتا ہوں، صدر الشریعۃ کرسی سے اتر آئے۔ حضرت صدرالافاضل قدس سرہ نے کھڑے ہوکر اس تقریر پر ایسا شاندار تبصرہ فرمایا کہ زندگی میں کسی کی بھی تقریر پر ایسا تبصرہ نہیں فرمایا تھا۔

اس کے بعد دعا پر جلسہ ختم ہوا۔ دوسرے دن پورے شہر میں اس تقریر کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ (سیرت صدرالشریعہ۔۔ازحافظ عطاء الرحمٰن قادری رضوی، ص 69)

سبحان اللہ! قارئین دیکھ رہے ہیں آپ! کیسے با اخلاص اور بے نفس لوگ تھے۔ اپنے بیان کا وقت دوسرے کو دے دینا۔ کیا یہ آج کے دور میں تصور کیا جا سکتا ہے؟...... آج تو ہمارا حال یہ ہوگیا ہے کہ بقول ڈاکڑ مسعود احمد نقشبندی علیہ الرحمہ :” عالم عالم سے خفا ہے جاہل جاہل سے ناراض ہے۔“

محبتوں کے دائرے سکڑ رہے ہیں، نفرتیں فروغ پارہی ہیں،
ایسے میں ضروری ہے کہ آپ اپنے دل پر کڑی نظر رکھیں کسی سنی مسلمان بھائی کا کینہ، حسد، یا کدورت آپ کے دل کے آنگن میں قدم نہ رکھنے پائے۔۔۔۔ہاں اپنے دل کی نگرانی کریں۔۔۔۔۔

اللہ تعالی اہل حق میں باہمی محبتوں کو عروج و دوام عطا کرے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے