شیخ ازہر کی تحریر اور برصغیر کے مذبذبین

مبسملا وحامدا ومصلیا ومسلما 

شیخ ازہر کی تحریر اور برصغیر کے مذبذبین

(1)شیخ ازہر احمد طیب نے امام المتکلمین امام ابو الحسن اشعری قدس سرہ العزیز کی کتاب"اللمع فی الرد علی اہل الزیغ والبدع"پر مقدمہ تحریر کیا اور اس میں یہ بتایا کہ اہل قبلہ کی تکفیر نہیں ہونی چاہئے اور امام اشعری علیہ الرحمۃ والرضوان بھی اہل قبلہ کی تکفیر نہیں کرتے تھے۔

برصغیر کے مذبذبین نے اس سے کچھ الٹا سمجھ لیا اور فتنہ پھیلانے لگے۔اصل حقیقت یہ ہے کہ عرب کے متعدد ممالک میں وہابیہ کی کثرت ہے۔سعودی عرب میں وہابیوں کی حکومت ہے۔فرقہ وہابیہ کا بانی ابن عبد الوہاب نجدی چھ سو سال کے مسلمانوں کو یعنی اہل قبلہ کو کافر کہتا تھا اور اپنے زمانے کے مسلمانوں پر بھی شرک وبدعت کے فتوے لگاتا تھا۔اج کے وہابیہ بھی معمولات اہل سنت کو شرک وبدعت اور سنیوں کو مشرک وبدعتی کہتے ہیں۔وہابیوں کو ہی دنیا میں تکفیری گروہ کہا جاتا ہے۔القاعدہ،داعش اور اس قسم کے اتنگ وادی گروہ وہابیہ کے ہیں۔یہ لوگ مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں اور ان کا قتل کرتے ہیں۔ابن عبد الوہاب نجدی اور ابن سعود نے بھی عرب میں بے شمار مسلمانوں کو کافر قرار دے کر ان کو قتل کیا تھا۔

 شیخ ازہر کی نصیحت عرب کے وہابیہ کے لئے ہے۔بر صغیر کے اہل سنت وجماعت اہل قبلہ کی تکفیر نہیں کرتے ہیں،بلکہ جو اہل قبلہ سے خارج اور کافر ہیں،ان کی تکفیر کرتے ہیں۔اہل قبلہ وہ ہے جو کسی ضروری دینی کا انکار نہ کرے۔

شیخ ازہر نے اپنے مقدمہ میں درج ذیل حدیث نقل کی اور اہل قبلہ کا معنی سمجھانے کی کوشش کی ہے۔

حدیث نبوی:(‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "مَنْ صَلَّى صَلَاتَنَا، ‏‏‏‏‏‏وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَكَلَ ذَبِيحَتَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَذَلِكَ الْمُسْلِمُ الَّذِي لَهُ ذِمَّةُ اللَّهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا تُخْفِرُوا اللَّهَ فِي ذِمَّتِهِ)(صحیح البخاری:حدیث نمبر:391)

ترجمہ:حضور اقدس حبیب کبریا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو ہماری نماز پڑھے اور ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرے اور ہمارا ذبیحہ کھائے تو وہ مسلمان ہے جس کے لیے اللہ اور اس کے رسول (عز وجل وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم)کی پناہ ہے،پس تم اللہ تعالی کی پناہ میں خیانت نہ کرو.

بھارت کے بہت سے ہندو لیڈر عید وبقرعید کی نماز پڑھتے ہیں اور مسلمانوں کے یہاں قربانی کا گوشت بھی کھاتے ہیں۔کیا ایسے ہندو لیڈروں کو کافر نہ کہا جائے؟ مذبذبین جواب دیں۔

حدیث شریف میں ہے جو ہماری  نماز پڑھے۔کافر اہل ثواب واہل عبادت نہیں۔اس کی نماز،روزہ،حج،زکات یا کوئی عبادت ادا ہی نہیں ہو گی،کیوں کہ وہ مومن نہیں،پس اگر وہ نماز پڑھے بھی تو اس کا پڑھنا اور نہ پڑھنا برابر ہے،لہذا وہ مسلمانوں کی نماز کبھی بھی  نہیں پڑھ سکتا،جب تک کہ ایمان والا نہ ہو جائے۔

اگر بادشاہ کا ملازم بادشاہ کا لباس پہن کر تخت پر بیٹھ جائے تو وہ ہرگز بادشاہ نہیں ہو سکتا ہے،کیوں کہ محض شاہی لباس پہن کر تخت پر بیٹھ جانا بادشاہت کی دلیل نہیں،بلکہ بادشاہ اپنے ملک کے سیاہ وسفید کا مالک ہوتا ہے۔

اسی طرح کافر ومرتد نماز کے ارکان ادا کرے تو یہ نماز نہیں،کیوں کہ کافر  اہل ثواب واہل عبادت نہیں۔نہ ہی وہ نماز ادا کرنے کا اہل ہے۔نماز کی ادائیگی اس پر فرض ہے جو عاقل،بالغ اور مسلمان ہو۔جب نماز کی ادائیگی اس پر فرض نہیں،نہ ہی وہ نفل نماز کا اہل ہے تو وہ نہ ہماری ظہر کی نماز پڑھ سکتا ہے،نہ عصر کی،نہ مغرب کی،نہ عشا کی،نہ فجر کی،نہ جمعہ کی،نہ وتر پڑھ سکتا ہے،نہ تراویح،نہ تہجد،نہ اشراق،نہ چاشت،نہ اوابین کی نماز،پس وہ ہماری نماز پڑھنے والا نہیں۔

(2)اگر بر صغیر کے مذبذبین یہ سمجھتے ہیں کہ کافروں کو بھی کافر نہ کہا جائے تو یہ نیا مذہب ہے جس کی بنیاد اہل ندوہ نے رکھی تھی۔

(الف)جبل بوقبیس سے اعلان نبوت پر سب سے پہلے حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایمان واسلام قبول کیا،جب کہ آپ بالغ بھی نہ ہوئے تھے۔آپ نے خود ایک نظم میں بیان فرمایا:

سبقتکم الی الاسلام طرا  
غلاما ما بلغت آوان حلمی

یعنی میں آپ تمام میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا،جب کہ میں بچہ تھا،اپنی بلوغت کو نہ پہنچا تھا۔

شیر خدا حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد خلافت میں بعض کلمہ گو ان کو خدا کہتے تھے۔ایسے لوگوں کو حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ نے کافر قرار دے کر آگ میں جلا دیا۔

(ب)مردوں میں سب سے پہلے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے ایمان واسلام قبول کیا۔ان کی خلافت کے زمانے میں بے شمار لوگ زکات کا انکار کر کے اور جھوٹے مدعیان نبوت کو نبی مان کر کے مرتد ہو گئے۔حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان لوگوں کو کافر ومرتد قرار دیا اور ان مرتدین سے جہاد فرمایا۔

مومنین اولین تو کافر کو کافر بتا رہے ہیں۔مذبذبین نے نیا دین ومذہب اختراع کیا ہے۔دراصل اہل ندوہ کی یہ فکر ہے۔ عصر حاضر کے مذبذبین  ندوی فکر کی تشہیر کر رہے ہیں۔

(ج)منافقین سے متعلق آیات قرآنیہ کے نزول کے بعد حضور اقدس شفیع محشر صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے  منافقین کو مسجد نبوی سے باہر نکال دیا اور ان سب کو منافق قرار دیا۔نفاق بھی کفر ہی کی ایک قسم ہے۔منافق قرار دینا خارج اسلام اور کافر قرار دینا ہے۔

(ہ)اللہ تعالی عزوجل نے شیطان کو کافر قرار دے کر اپنی بارگاہ اقدس سے نکال دیا۔کافر کو کافر کہنا تو اللہ تعالی کا طریق کار ہے،پھر اس کے خلاف جو کچھ ہے،وہ سب یقینا غلط ہے۔

(3)امام ابو الحسن اشعری قدس سرہ العزیز مسئلہ تکفیر میں مذہب فقہا پر تھے۔اخیر وقت میں انہوں نے اس مذہب کو ترک کر دیا اور مذہب متکلمین کو اختیار کر لیا۔

امام اشعری کی جس عبارت سے غلط فہمی پھیلائی جا رہی ہے۔اس کا یہی مفہوم ہے۔اس کی تفصیل ہمارے رسالہ:"اشعریہ اور ماتریدیہ"میں ہے۔

فقہائے کرام لزوم کفر کی وجہ سے  کفر فقہی کا حکم نافذ کرتے ہیں اور یہ طریق کار بھی عہد رسالت مآب علیہ التحیۃ والثنا سے رائج ہے۔احادیث طیبہ میں متعدد قسم کے افراد وجماعات کو کافر کہا گیا،حالاں کہ ان میں سے بہت سے کافر فقہی ہیں،کافر کلامی نہیں۔

مسئلہ تکفیر میں دو مذہب ہیں:مذہب فقہا اور مذہب متکلمین:حضرات ائمہ مجتہدین میں سے امام اعظم ابو حنیفہ اور امام شافعی باب تکفیر میں اسی مذہب پر ہیں جس کو بعد میں مذہب متکلمین کہا گیا اور امام احمد بن حنبل اس مذہب پر ہیں جس کو بعد میں مذہب فقہا سے تعبیر کیا جانے لگا۔امام مالک کے طریق کار سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی اسی مذہب پر ہیں جس کو بعد میں مذہب فقہا کا لقب دیا گیا ہے۔

حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ مسئلہ تکفیر میں اسی مذہب پر ہیں جس کو بعد میں مذہب متکلمین کا لقب ملا،کیوں کہ آپ نے خوارج کو گمراہ قرار دیا اور ان سے جہاد فرمایا،ان خوارج کی تکفیر نہیں کی،حالاں کہ یہ لوگ حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کو کافر قرار دیتے تھے۔فقہا ان خوارج کو کافر قرار دیتے ہیں،کیوں کہ مومن کو تاویل فاسد سے کافر کہنے والا کافر فقہی ہوتا ہے۔

حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ مسئلہ تکفیر میں اسی مذہب پر تھے جس کو بعد میں مذہب فقہا سے تعبیر کیا گیا۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے۔ذو الخویصرہ تمیمی نے حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو(اعدل یا محمد)کہا تھا۔اس سے لزومی طور پر حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بے ادبی ہوتی ہے۔حصرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے ذو الخویصرہ تمیمی کے قتل کی اجازت طلب کی،کیوں کہ کافر کو قتل کرنے کا حکم ہے۔حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے قتل کی اجازت نہیں دی اور ارشاد فرمایا کہ لوگ کہیں گے کہ یہ نبی اپنے ساتھ والوں کو بھی قتل کر دیتے ہیں۔یہ ایک حکمت عملی تھی۔

(عنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ: أَتَى رَجُلٌ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْجِعْرَانَةِ مُنْصَرَفَهُ مِنْ حُنَيْنٍ ، وَفِي ثَوْبِ بِلَالٍ فِضَّةٌ ، وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْبِضُ مِنْهَا، يُعْطِي النَّاسَ ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ : اعْدِلْ ، قَالَ: وَيْلَكَ وَمَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَكُنْ أَعْدِلُ؟ لَقَدْ خِبْتَ وَخَسِرْتَ إِنْ لَمْ أَكُنْ أَعْدِلُ- فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ : دَعْنِي، يَا رَسُولَ اللهِ فَأَقْتُلَ هَذَا الْمُنَافِقَ ، فَقَالَ : مَعَاذَ اللهِ ، أَنْ يَتَحَدَّثَ النَّاسُ أَنِّي أَقْتُلُ أَصْحَابِي-إِنَّ هَذَا وَأَصْحَابَهُ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ ، لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ ، يَمْرُقُونَ مِنْهُ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ)

(صحیح مسلم۔حدیث نمبر:1063)

طارق انور مصباحی 

جاری کردہ:12: فروری 2025

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے