نابغۂ روزگار، عالم وعارف، فقیہ، محدث ،محقق، مدقق، حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللّٰه علیہ🕯

📚     «  مختصــر ســوانح حیــات  »     📚
-----------------------------------------------------------
🕯نابغۂ روزگار، عالم وعارف، فقیہ، محدث ،محقق، مدقق، حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللّٰه علیہ🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

آپ رحمۃ اللّٰه علیہ کی ثقاہت، فقاہت، علمی دیانت، اور فضیلت، کا نہیں انکار کرےگا مگر اندھا متعصب، اور جاہل۔تمام طبقات میں آپ کی ذات مُسَلَّم ہے۔ آپ ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے سب سے پہلے علم ِ حدیث حرمین شریفین سے حاصل کرکے، اس خطۂ ہندوستان کو علم ِ نبوی سے منور کیا، اور اس علم کو عام کیا۔ حدیث کی شروحات فارسی زبان میں تحریر کرکے اور ان کی وسیع پیمانے پر طباعت کروا کر پورے خطے میں عام  کروائیں، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ علوم نبوی سے فیض یاب ہوں۔صِغر سِنی میں ہی آپ کی شہرت  عام ہوگئی تھی۔ جب  تکمیلِ علم کے بعد آپ نے ہندوستان کی راجدھانی فتح پوری سیکری کا قصد کیا۔ جو اس وقت علماء و فضل کا مرکز تھا۔ شیخ کے تعلقات ملک الشعراء فیضی سے تھے چنانچہ شیخ جب فتح پور سیکری پہنچے تو آپ کا شایانِ شان استقبال کیا گیا اور دربار شاہی میں خوب پذیرائی ہوئی۔ خود فرماتے ہیں: ’’جب اللہ کے فضل و کرم سے مجھے علم کا خاصہ حصہ مل گیا تو بعض اہل ِحقوق نے مجھے اہل دنیا کی طرف بلایا اور میں بادشاہ وقت اور امراء کے پاس گیا انہوں نے میری طرف بہت توجہ کی  اور عزت سے پیش آئے ‘‘۔
*(المکاتیب والرسائل: 279)*

یہ وہ دور تھا جب اکبر کے الحادی رجحانات شروع ہو چکے تھے اور علماء ِسُوء کا ایک بہت بڑا گروہ اس کے گرد جمع ہوگیا تھا۔ جن کی مدد سے اکبر اپنی لادینی تحریک کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ شیخ کو  بھی آلۂ کار بنانے کی کوشش کی گئی مگر وہ عالم ربانی جس نے بچپن سے لے کر فتح پور سکری پہنچنے تک خالص دینی ماحول میں تعلیم و تربیت پائی تھی ۔جنہیں قدرت نے علم کی اشاعت اور حق کی حمایت کے لیے پیدا کیا تھا وہ بھلا ایسے ملحدانہ ماحول میں رہنا کیوں کر پسند کر سکتے تھے۔ اس درباری ماحول میں بہت جلد ان کی طبیعت اچاٹ ہوگئی۔ اگر زمانہ سازی پر ان کی طبیعت ذرا بھی راضی ہو جاتی تو دولت و ثروت اور دنیاوی جاہ  و حشمت ان کے قدم چومتی۔ لیکن ان کا مذہبی شعور بیدار تھا اور وہ کسی قیمت پر اپنے ضمیر کی آواز کو دبانے کے لیے تیار نہ تھے۔ اکبر کے سیاسی اقتدار نے اتنی قوت پالی تھی کہ اس کے خلاف انفرادی جدوجہد کامیاب نہیں ہوسکتی تھی اس پر آشوب ماحول میں آپ نے ترک وطن کا ارادہ کر لیا اور حجاز مقدس کی راہ لی۔ 
آپ فرماتے ہیں: 996ھ  میں جذبہ غیب سے پیدا ہوگیا اور دل پر وحشت طاری ہوگئی دیوانگی کی حالت میں سفر کا ارادہ کرنے کے علاوہ  میرے لیے کوئی  اور چارہ نہ رہا۔ 
(مقدمہ زاد المتقین) 

مکہ مکرمہ میں اس وقت حضرت شیخ عبدالوہاب متقی رحمۃ اللّٰه علیہ کا فیض عام تھا، آپ ان کی خدمت میں پہنچے۔آپ  فرماتے ہیں:  ’’تمام اہلِ حرمین اور کل مشائخِ یمن، اور مشائخ مصر و شام سے جس نے حضرت کو دیکھا ہے ان کا معتقد ہے اور ان کی ولایت اور علوشان کا قائل ہے۔ 
*(اخبار الاخیار، ص263)*

 شیخ عبدالوہاب کی علمی و روحانی تعلیم و تربیت نے شیخ عبدالحق کی ذات کو علم و عمل، زہد و ورع کا روشن مینار بنادیا۔ آپ رحمۃ اللّٰه علیہ نے حجاز کے دورانِ قیام متعدد حج کیے اور مکہ سے مدینہ منورہ کا سفر بھی کیا۔ وہ حضرت رسالت مآبﷺ سے بےکراں محبت رکھتے تھے۔ یہی عشق رسول ﷺان کا سرمایۂ حیات تھا۔  چنانچہ جب دیار حبیب میں پہنچے تو برہنہ پا ہوگئے۔ مدینہ منورہ  میں کبھی جوتیاں نہ پہنیں۔ اپنے جذبۂ  عقیدت و محبت کو سلک نظم میں پروکر بارگاہ رسالت ﷺ میں ایک قصیدہ پیش کیا ۔

 بیا اے دل قدم نہ بر سرِکوئے وفا آنگہ۔۔۔۔ 
زِراہِ  صدق ِجاں را خاک راہِ آں کف ِپا کُن

خرابم درغمِ ہجرِ  جمالت یا رسول اللہ
جمالِ خود  نُما  رحمے  بجان   زارِ  شیدا  کن


*سرکارﷺ کی نظرِ کرم:* آپ رحمۃ اللّٰه علیہ رسول اللہﷺ کے عاشقِ صادق تھے۔ ہر وقت آپ ﷺ کی محبت میں تڑپتے رہتے تھے، اور میرے آقا ﷺ اپنے محبین پر خاص کرم فرماتے ہیں۔
حضرت شیخ رحمہ اللّٰه نے چار بار زیارت رسولﷺ کا شرف حاصل کیا۔ 
انہوں نے 21 ذی الحجہ 998ھ میں ایک خواب دیکھا جو اس طرح بیان کرتے ہیں: ’’میں نے دیکھا کہ حضور ﷺ ایک تخت پر بیٹھے ہوئے حدیث شریف کا درس دے رہے ہیں اور جمال و جلال کے وہ انوار ان کے چہرۂ مبارک سے چمک رہے ہیں جن سے زیادہ تصور ہی نہیں کیے جا سکتے‘‘۔ 
اسی شب یہ خواب بھی دیکھا کہ حضرت امام حسین رضی اللّٰه عنہ اعداء ِدین سے لڑنے کے لیے لشکر تیار کر رہے ہیں۔ شیخ عبدالحق کی پوری زندگی حقیقت میں اسی خواب کی تعبیر بن گئی وہ آخری سانس تک حدیث کی نشرو اشاعت میں سرگرم اور اعداء دین کے خلاف نبرد آزمائی میں مصروف رہے۔

*مراجعتِ ہندوستان:* شیخ عبدالحق  محدث دہلوی  رحمۃ اللّٰہ علیہ نے جن پریشان کن حالات میں ہندوستان چھوڑا تھا اور حجازِ مقدس کی علمی و روحانی فضاؤں میں انہیں اطمینان خاطر نصیب ہوا اور ان کی علمی و روحانی شخصیت کی تعمیر و تشکیل ہوئی انہوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ شہر امن ہی کو اپنا مسکن بنا لیں گے مگر رہبر کامل شیخ عبدالوہاب متقی نے علوم و معارف کی تمام وادیوں کی سیر کرادی اور مرد کامل بنا دیا تو ہندوستان لوٹ جانے کا حکم دیا۔
آپ فرماتے ہیں: میرے دل میں حضرت غوثِ اعظم رضی ﷲ عنہ کی زیارت کا اشتیاق تھا کہ یہاں سے بغداد جاؤں گا،لیکن شیخ نے اس سے بھی منع کردیا، اور فرمایا: ’’اب تمہیں یہاں رہنے یا وطن اصلی کے علاوہ دوسری جگہ جانے کی اجازت نہیں۔ حضرت غوث اعظم رضی ﷲ عنہ تمہارے ساتھ ہیں جس جگہ بھی رہو ان سے محبت اور اعتقاد کے ساتھ ان کی طرف توجہ رکھو ان کی پیروی کی کوشش کرو ان کے حکم پر چلو ‘‘۔اور شیخ عبدالوہاب رحمۃ اللّٰه علیہ نے بوقت  روانگی حضرت غوث پاک کا ایک پیراہن مبارک عطا کیا اور فرمایا: ’’آپ بیکار نہ بیٹھیے گا ان شاء اللہ اس طرف سے امداد انوار مسلسل ہوتی رہے گی۔

*شیخ عبدالحق کا مدرسۂ علم و ارشاد:* شیخ حجاز مقدس سے جب ہندوستان وارد ہوئے تو یہاں کی فضا پہلے سے بھی زیادہ خراب ہوچکی تھی۔ اکبر اور اس کے حاشیۂ نشینوں نے اپنے الحادی مشن نام نہاد دین الہیٰ کی اشاعت کھلم کھلا شروع کر دی تھی۔ اسلامی شریعت اور دینی روایات کا برملا مذاق اڑایا جاتا۔ اکبر کو ظلِّ اِلٰہ کہنے والوں نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا: ’’مرتبۂ سلطان ِعادل عنداللہ زیادہ از مرتبۂ مجتہد است‘‘۔
اس محضر کی رو سے اکبر کو معاذ اللہ پیغمبر کا درجہ دینے کی ناپاک جسارت کی گئی۔ قرآن و سنت کے احکام سے بے اعتنائی عام ہونے لگی تھی۔ عوامی زندگی اور مدارس و خانقاہ اس تحریک کے مضر اثرات سے محفوظ نہ رہ سکے۔ صوفیا نے شریعت کو طریقت سے علیحدہ کر کے اپنے غیر شرعی اعمال کا جواز تلاش کر لیا۔ علماء سوء نے فقہ کو اپنی بہانہ جو فطرت کا آلہ بنایا،اور حیلہ بازی کا وہ دور شروع ہوا کہ بقول ملا عبدالقادر بدایونی’’حِیَلِ بنی اسرائیل  پیش آں شرمندہ‘‘۔ 
*(منتخب التواریخ، ج2 ص203)*

شیخ نے انہیں روح فرسا حالات سے متاثر ہوکر ہندوستان چھوڑا تھا کیوں کہ اس فتنہ کے تدارک کی قوت ان کے اندر موجود نہ تھی۔ مگر اب وہ علوم دینی کا بیکراں سرمایہ اپنے سینے میں لے کر لوٹے تھے، اور فتنوں کی مدافعت کی بھرپور توانائی ان کے اندر پیدا ہو چکی تھی جسے بروئے کار لاکر علم نبوت کی اشاعت باطل کی تردید اور دین حق کے احیاء کا کام لینا تھا۔چناں چہ دہلی واپس آکر 1000ھ میں حلقۂ درس قائم کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دین ِالہیٰ مُسلم معاشرے کو پانی لپیٹ میں لینے کے لیے زور مار رہا تھا۔ اکبر کے زیر اثر علماء سوء اور مفاد پرست صوفیوں کا ایک ایسا گروہ پیدا ہوگیا تھا جو دین کی حقیقی روح کو ختم کر دینے کے لیے آمادہ تھا ایسے نازک اور پر آشوب ماحول میں حضرت شیخ نے ایسا مدرسہ قائم کیا جس نے صرف شریعت و سنت کی حقیقی روح کو اجاگر ہی نہیں کیا بلکہ باطل پرستوں کی ایسی سرکوبی کی کہ دوبارہ پنپنے کا موقع بھی نہ ملا دوسری درسگاہوں کے برخلاف اس مدرسہ میں قرآن و حدیث کو تمام علوم دینی کا مرکزی نقطۂ نظر قرار دے کر تعلیم دی جاتی تھی ۔ فنِ حدیث میں شیخ کی خدمات و کمالات کا دائرہ کافی وسیع ہے ان کا سب سے بڑا اور اہم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ہندوستان میں علم حدیث کو غیر معمولی  فروغ دیا۔ چوں کہ شیخ کے زمانہ میں حدیث شریف سے غفلت برتی جارہی تھی اور دین کی اصل سے بے اعتنائی کا نتیجہ  یہ ہوا کہ دین کی حقیقی روح ماند پڑنے لگی اپنے وقت میں شیخ نے پوری قوت کے ساتھ حدیث و سنت کی تعلیم کا بیڑا  اٹھا یا اور سنت ِرسول ﷺکے ذریعہ  اسلامی معاشرہ کی عروق مردہ میں روح ڈال دی۔

آپ رحمۃ اللّٰه علیہ زندگی بھر کتاب و سنت کی تعلیم دیتے رہے اور پورے ہندوستان میں آپ کی درسگاہ امتیازی شان کی مالک تھی جہاں صدہا طالب علم بیک وقت تعلیم پاتے اور شیخ کے علاوہ متعدد باصلاحیت علماء مدرس تھے اس طرح شیخ کے ہزاروں ایسے باکمال مخلص تلامذہ پیدا ہوگئے جنہوں نے شیخ کی تحریک احیاء شریعت و سنت کے آگے بڑھایا۔ شیخ اپنے مدرسہ میں صرف عالم ہی پیدا نہ کرتے تھے بلکہ وہ ایسے مرد مجاہد تیار کرتے جو باطل کے خلاف صف آراء ہوسکیں اور دین و شریعت کی بقاء و تحفظ کے لیے پوری عمر  سرگرم عمل رہیں۔ حضرت شیخ رحمہ اللّٰه کی عبقری ذات مرجع ِ خلائق بن گئی تھی۔ آپ کے علمی و روحانی کمالات سے مستفیض ہونے کے لیے صرف عوام اور طلبہ ہی نہیں علماء و مشائخ، امراء و سلاطین بارگاہِ عالی میں حاضر ہو کر سر نیاز خم کرتے اور قدم بوسی کی سعادت حاصل کرتے۔ بادشاہ ہندوستان شاہجہاں زیارت کے لیے حاضر ہوا اور نیازمندی کا ظہار کیا۔ 1028ھ میں جب وہ کشمیر کی مہم پر روانہ ہونے لگا تو شیخ سے دعاؤں کا طالب ہوا۔اس مختصر تذکرے میں حضرت محقق کی سیرتِ پاک کا احاطہ ناممکن ہے۔

تصانیف: حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی صرف بلند پایہ  مدرس اور روحانی مربی ہی نہ تھے بلکہ وہ اپنے زمانہ کے بڑے باکمال صاحب قلم مصنف بھی تھے اور انہوں نے عمر بھر درس و تدریس کے ساتھ تصنیف و تالف کا شغل بھی جاری رکھا جس طرح وہ ہندوستان کے عظیم محدث ہیں اسی طرح وہ ممتاز مصنف بھی ہیں ان کی تصانیف کی تعداد ایک سو سے زیادہ بتائی جاتی ہے جو حدیث، تفسیر، عقائد، تصوف و اخلاق، فقہ، اعمال و اوراد، منطق و فلسفہ، تاریخ، سیرو تذکرہ، نحو ادب کا احاطہ کرتی ہیں۔ بالخصوص علم ِ حدیث کے حوالے سے جو خدمات ہیں وہ رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیں گی۔ آپ رحمۃ اللّٰه علیہ کی تعلیمات آپ کی کتب سے عیاں ہیں۔ آپ کی کتب سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ فی زمانہ اکابرین کےنقش قدم پر کون عمل پیرا ہے۔

تاریخِ وصال: 21/ ربیع الاول 1052ھ مطابق 19/جون 1642ء،بروز جمعرات  کو آفتابِ علم ہمیشہ  کے لیے غروب ہوگیا مگر اس کی علمی شعائیں صبح قیامت تک تابندہ رہیں گی۔ حوضِ شمسی (دہلی) کے قریب مقبرہ میں دفن ہوئے۔ مزار پاک زیارت گاہِ عوام و خواص ہے۔

ماخذ ومراجع: محدثینِ عظام حیات وخدمات۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی موضوعاتی مطالعہ۔ زاد المتقین۔ اخبار الاخیار۔ منتخب التواریخ۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب📝 شمـــس تبـــریز نـــوری امجـــدی بانی گروپ فیضـــانِ دارالعـــلوم امجـــدیہ ناگپور 966551830750+📲
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے