Header Ads

غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ

*📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚*
-----------------------------------------------------------
*🕯غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ🕯*

*نام ونسب:* 
*اسم گرامی:* شیخ عبدالقادر جیلانی۔
*کنیت:* ابو محمد۔
*اَلقاب:* محبوبِ سبحانی، پیرانِ پیر ، محی الدین۔ عامۃ المسلمین میں آپ *’’غوث الاعظم‘‘* کے نام سے مشہور ہیں۔ 
*والدِ ماجد کا نام:* حضرت سیّد ابو صالح موسیٰ رحمۃ اللّٰه علیہ۔
*سلسلۂ نسب:* سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی بن سیّد ابو صالح موسیٰ بن سیّد عبداللہ جیلانی بن سیّد یحییٰ زاہد بن سیّد محمد بن سیّد داؤد بن سیّد موسیٰ بن سیّد عبد اللہ بن سیّد موسیٰ الجون بن سیّد عبداللہ محض بن سیّدحسن مُثنیّٰ بن سیّدنا امام حسن بن امیر المومنین سیّدنا علی المرتضیٰ رضی اللّٰه تعالیٰ عنہم۔

*سلسلۂ مادری:* 
*کنیت:* ام الخیر۔ 
*لقب:* اَمَۃُ الْجَبَّار۔
*اسم مبارک:* ’’ فاطمہ بنتِ عبد اللہ صومعی الحسنی‘‘۔
*سلسلۂ نسب:* فاطمہ بنتِ سیّد عبد اللہ صومعی بن سیّد ابو جمال بن سیّد محمد بن سیّد محمود بن سیّد طاہر بن سیّد ابو عطار بن سیّد عبداللہ بن سیّدابو کمال بن سیّد عیسیٰ بن سیّد علاء الدین بن سیّد محمد بن سیّدنا امام علی رضا بن سیّدنا امام موسیٰ کاظم بن سیّدنا امام جعفر صادق بن سیّدنا امام محمد باقر بن سیّدنا امام زین العابدین بن سیّدنا امام حسین بن سیّدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالٰی عنھم۔ 
*آپ ’’نجیب الطرفین‘‘* سیّد ہیں۔
*(تذکرہ قادریّہ، ص 129، از پیر سیّد طاہر علاؤ الدین گیلانی)*

*تاریخِ ولادت:* آپ کی ولادتِ باسعادت یکم رمضان المبارک 470ھ مطابق 15؍مارچ 10788ء کو شمالی ایران میں’’بحیرۂ کیسپین‘‘ کے جنوبی ساحل پر ’’گیلان‘‘ نامی قصبے میں ہوئی ۔

*تحصیلِ علم:* بچپن میں والدِ محترم کا وصال ہوگیا تھا۔ والدۂ ماجدہ کی آغوش میں تربیت پائی؛ اور انہوں نے تربیت کا حق ادا کردیا۔ دس سال کی عمر میں مکتب میں پڑھنے جاتے تو فرشتے فرماتے: *’’اِفْسَحُوْا لِوَلِیِّ اللہ‘‘* (اللہ کے ولی کےلیے جگہ چھوڑ دو)۔ 
اپنے قصبہ جیلان میں ہی حفظ کرلیا تھا۔ جب عمر اٹھارہ سال ہوئی تو تحصیل ِعلم کےلیے بغداد کا قصد کیا۔ چھ سو (600) کلو میٹر سے زائد، تکلیف دہ اور خطرناک سفر طے کرکے 488ھ میں بغداد پہنچے۔ بغداد میں علم تجوید اور قراءتِ سبعہ میں مہارت حاصل کی۔ اسی طرح علمِ فقہ و اُصولِ فقہ؛ عرصۂ دراز تک بہت بڑے فقہاء مثلاً ابوالوفا علی بن عقیل حنبلی، ابوالخطاب محفوظ الکلوازنی الحنبلی، قاضی ابویعلیٰ، محمد بن الحسین بن محمدالفراء الحنبلی، قاضی ابوسعید؛ 
اور علمِ حدیث؛ محمد بن الحسن الباقلائی، ابو سعید محمد بن عبد الکریم بن حشیشا، محمد بن محمد الفرسی وغیرہ سے جب کہ علم ِادب ابو زکریا یحییٰ بن علی التبریزی سے حاصل فرمایا۔
*(قلائدالجواہر، ص4)*

شیخ عبد الوہاب شعرانی اور شیخ محقق شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں: ’’یتکلم فی ثلاثۃ عشر علماء‘‘ غوث الاعظم تیرہ علموں میں بیان فرماتے تھے۔
*(سیرتِ غوث الثقلین، ص644)*

شیخ عبدالوہاب شعرانی رحمۃ اللّٰه علیہ فرماتے ہیں: ’’مدرسۂ عالیہ میں لوگ آپ سے تفسیر، حدیث، فقہ اور علم کلام پڑھتے، دوپہر سے پہلے اور بعد دونوں وقت تفسیر، حدیث، فقہ، کلام، اصول،صرف و نحو؛ اور بعد نمازِ ظہر قرأتِ سبعہ کے ساتھ قرآن مجید پڑھاتے تھے۔‘‘
*(طبقات الکبریٰ ، ج1، ص127)*

علم ادب، لغت، اور نحو کے مشہور امام ابو محمد الخشاب نحوی فرماتے ہیں: 
’’میں عالم شباب میں علم نحو پڑھتا تھا۔ ایک مرتبہ آپ کی مجلس میں حاضر ہوا۔ آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا تم ہمارے پاس رہو، ہم تمہیں زمانے کا سیبویہ بنادیں گے، آپ کےپاس پڑھنے لگا، بہت قلیل عرصے میں آپ سےوہ سیکھا جوگزشتہ عمر میں حاصل نہ کر سکا تھا۔ مسائل ِ نحویہ و علوم عقلیہ و نقلیہ کےاصول و قواعد مجھے اچھی طرح ذہن نشین ہوگئے۔‘‘
*(قلائد الجواہر، ص32)*

اسی طرح شیخ الاسلام شیخ شہاب الدین سہروردی، شیخ الاسلام علامہ ابن قدامہ حنبلی، قطب الاقطاب شیخ علی بن ہیتی وغیرہم رحمہم اللّٰہ؛ آپ کے شاگرد اور تربیت یافتہ ہیں۔

آپ کےصاحبزادے سیّد عبدالوہاب رحمۃ اللّٰه علیہ فرماتے ہیں: 
’’آپ نے 528ھ تا 5611ھ تینتیس سال درس و تدریس اور فتاوٰی نویسی کے فرائض سر انجام دیے۔‘‘
*(قلائد الجواہر، ص18)*

علامہ شعرانی رحمۃ اللّٰه علیہ فرماتے ہیں: 
’’کانت فتواہ تعرض علی العلماء باالعراق فتعجبھم اشدا الاعجاب فیقولون سبحان من انعم علیہ‘‘ یعنی علمائے عراق کے سامنے آپ کے فتاوٰی پیش کیے جاتے تھے، تو ان کو آپ کی علمی قابلیت و صلاحیت پر سخت تعجب ہوتا تھا؛ اور وہ یہ پکار اٹھتے تھے کہ وہ ذات پاک ہے جس نے ان کو ایسی علمی نعمت سےنوازا ہے۔
*(طبقات الکبرٰی، ج1، ص127)*

آپ کےعلمی کمالات کےبارے میں مذکورہ تمام اقوال عشر ِعشیر بھی نہیں ہیں۔ بیان کرنے کا مقصد یہ ہےکہ ہمارے زمانے کے واعظین صرف آپ کی کرامات پر اکتفاء کر کے دادِ تحسین وصول کرتے ہیں، علمی مقام بیان نہیں کیاجاتا، اور اکثر سجادہ و متولیان ِ اولیاءِ کرام علم و عمل سے کوسوں دور ہیں؛ اگر ان کو علم دشمن کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا۔ 
یہ حضرات اپنی مجالس میں علم ِدین اور علما کی توہین کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہےکہ وہ خانقاہیں جو ماضی میں علوم و فنون کا مرکز تھیں آج وہاں کچھ اور مناظر ہیں؛ 
جیسا کہ ڈاکٹر اقبال مرحوم نے فرمایا ہے:

قم بِاذنِ اللہ کہہ سکتے تھے جو، رُخصت ہوئے
خانقاہوں میں مجاور رہ گئے یا گورکن

*خود غوث الاعظم فرماتے ہیں:*
’’دَرَسْتُ الْعِلْمَ حَتَّى صِرْتُ قُطْبًا
 وَنِلْتُ السَّعْدَ مِنْ مَّوْلَى الْمَوَالِيْ‘‘

*ترجمہ:* ’’میں نے علم حاصل کیا یہاں تک کہ قطبیت کے مرتبے پر فائز ہوا، میں نے استاذ الاساتذہ شیخ کامل کے حضور حاضر ہوکر سعادت کی منزلوں کو پایا۔‘‘
*(قصیدۂ غوثیہ)*

*بیعت و خلافت:* سیّدنا ابو سعید مبارک مخزومی رحمۃ اللّٰه علیہ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے اور خرقۂ خلافت حاصل کیا۔
*سیرت و خصائص:* محبوبِ سبحانی، قطبِ ربانی، شہبازِ لامکانی، محی الدین، شیخ الاسلام، غوث الاعظم سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ۔ آپ کے اخلاقِ حسنہ اور فضائلِ حمیدہ کی تعریف وتوصیف میں تمام متأخرین اولیائے ِ کاملین کے تذکرے بےشمار ہیں۔ قدرت نے آپ کو ایسے اعلیٰ اخلاق و محامد سے متصف فرمایا تھا کہ آپ کے معاصرین آپ کی تحسین کیے بغیر نہیں رہتے تھے۔ اپنے تو اپنے غیر مسلم بھی آپ کےحسن ِسلوک کے گرویدہ تھے۔ آپ اسلامی اخلاق اور انسانی اوصاف کے پیکر تھے۔ شیخ حراوہ فرماتے ہیں: ’’میں نے اپنی زندگی میں آپ سے بڑھ کر کوئی کریم النفس، رقیق القلب، فراخ دل اور خوش اخلاق نہیں دیکھا‘‘۔
آپ اپنے علوِّ مرتبت اور عظمت کے باوجود ہر چھوٹے بڑے کا لحاظ رکھتے تھے۔ سلام کرنے میں ہمیشہ سبقت فرماتے تھے۔کمزوروں اور مسکینوں کے ساتھ تواضع وانکساری کے ساتھ پیش آتے، لیکن اگر کوئی بادشاہ یا حاکم آجاتا تو آپ مطلقاً تعظیم نہ فرماتے اور نہ ہی ساری عمر کسی بادشاہ یا وزیر کے دروازے پر گئے، نہ عطیات قبول کیے۔مفلوک الحال لوگوں کے ساتھ مُروَّت سے پیش آتے۔ سچائی اور حق گوئی کا دامن کبھی نہیں چھوڑا خواہ کتنے ہی خطرات کیوں نہ در پیش ہوتے، مگر سچ کہنے سے کبھی بھی چوکتے نہیں تھے۔ حاکموں کے سامنے بھی حق بات کہتے تھے اور کسی کی ناراضگی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے، بلکہ مصلحت و خوف کو پاس تک بھٹکنے نہیں دیتے تھے۔ آپ معروف (نیکی) کا حکم دیتے اور منکرات (برائی) سے روکتے تھے۔آپ کے اعلائے کلمۃ الحق نے سلاطین اور امراء کے محلات میں زلزلہ بپا کر دیا تھا۔ سیّدنا غوثِ اعظم رحمۃ اللّٰہ علیہ مجسمہ ایثار و سخاوت تھے۔ دریا دلی کا یہ عالم تھا کہ جو کچھ پاس ہوتا سب غریبوں اور حاجت مندوں میں تقسیم فرما دیتے۔ عفو و کرم کے پیکر جمیل تھے۔ کسی پر ظلم برداشت نہیں کرتے اور فوراً امداد پر کمر بستہ ہوجاتے، مگر خود اپنے معاملے میں کبھی بھی غصّہ نہیں آتا۔لوگوں کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرماتے۔
 امام ابو عبداللہ محمد یوسف البرزالی لکھتے ہیں: ’’آپ مستحبات الدعوات تھے، ہمیشہ اللہ کے ذکر وفکر میں مشغول رہتے اور کثرتِ ذکر اور خوفِ خدا سے آپ کی آنکھیں اشک بار رہتیں ۔ آپ انتہائی رقیق القلب، شگفتہ رو، کریم النفس ، فراخ دست، ذی علم، بلند اخلاق اور عالی نسب تھے۔ عبادات اور مجاہدے میں آپ سب سے رفیع الشان تھے اور آپ کانورانی چہرہ ہمیشہ بشّاش اور تبسُّم آمیز نظر آتا۔‘‘  
مفتی عراق محمد بن حامد البغدادی لکھتے ہیں: ’’آپ فحش باتوں سے کوسوں دور تھے، اپنی ذات کے معاملے میں آپ کو نہ کبھی کسی پر غصّہ آیا اور نہ ہی آپ نے کسی سے انتقام لیا، سوائے اس کےکہ کسی نے ایسا کام کیا ہو جو اللہ تعالیٰ کے غضب کا باعث ہو، تو آپ غضب ناک ہوجاتے۔ آپ اللہ تعالیٰ کی توحید کے حوالے سے کسی رُو رعایت کے قائل نہ تھے۔‘‘ کرامات کے علاوہ ہم نےصرف آپ کی سیرتِ مبارکہ کی ایک مختصر جھلک پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس طرح رسول اللہﷺ کے معجزات بےشمار ہیں، اسی طرح آپ کی کرامات بھی بےشمار ہیں۔آپ رحمۃ اللّٰه علیہ خود فرماتے ہیں: ’’ہر ولی کسی نہ کسی مُقتدا کے نقشِ قدم پرگامزن رہتا ہے اور میں بَدرُ الکمال یعنی سیّدالمرسلین ﷺکے نقش قدم پر ہوں۔‘‘

*شریعت کی پابندی:* آپ اپنے مریدین اور شاگردوں کوقرآن و حدیث،اور فقہ و تصوف کی تلقین فرمایا کرتے اور خصوصی طور پر اس بات کی طرف بھی توجہ دلاتے تھے کہ جو تصوف، فقہ کے تابع نہیں وہ اللہ تعالیٰ تک پہنچانے والا نہیں ہے۔ آپ کا ارشاد گرامی ہے: ’’شریعت جس حقیقت کی گواہی نہ دے وہ زندیقیت ہے۔ اپنے رب کی بارگاہ کی طرف کتاب و سنّت کے دو پروں کےساتھ پروازکرو۔ اپنا ہاتھ رسول اللہﷺ کے دستِ مبارک میں دے کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری دو۔ فرض عبادتوں کا ترک زندیقیت اور گناہوں کا ارتکاب معصیت ہے۔‘‘ 
*(الفتح الربانی، 145)*

تاریخِ وصال:* آپ کا وصال 11؍یا 17؍ ربیع الآخر 561ھ کو 91 سال کی عمر مبارک میں بغداد میں ہوا۔
(تذکرۂمشائخِ قادریّہ رضویہ، ص256؛ سیرتِ غوث اعظم، ص247)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے