اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
کثرت سے دُرُود پاک پڑھنے والی بچی
ایک مرتبہ حضرت شیخ محمد بن سلیمان جَزُولی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِوُضُو کرنے کے لئے ایک کنویں پر گئے مگر اُس سے پانی نکالنے کے لئے کوئی چیزپاس نہ تھی۔ شَیخ پریشان تھے کہ کیاکریں ؟ اتنے میں ایک اُونچے مکان سے بچی نے دیکھا تو کہنے لگی : ’’یاشیخ! آپ وہی ہیں نا ، جن کی نیکیوں کا بڑا چَرچا ہے ، اِس کے باوُجُود آپ پریشان ہیں کہ کنویں سے پانی کس طرح نکالوں !‘‘ پھراس بچی نے کنویں میں اپنا لُعَاب (یعنی تُھوک) ڈال دیا۔ تھوڑی ہی دیر میں کنویں کا پانی بڑھنا شروع ہوگیا حتی کہ کِناروں سے نکل کر زمین پر بہنے لگا ۔ شیخ نے وُضُو کیا اور اُس بچی سے کہنے لگے : ’’ میں تمہیں قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ تم نے یہ مرتبہ کیسے حاصل کیا؟‘‘اس بچی نے جواب دیا : ’’میں رسولِ کریم ، رء ُوفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپر کثرت سے دُرُودِ پاک پڑھتی ہوں۔ ‘‘ یہ سُن کرحضرتِ شیخ سلیمان جزولی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے قَسَم کھائی کہ میں دربارِ رِسالت میں پیش کرنے کے لئے دُرُود و سلام کی کتاب ضرور لکھوں گا۔ (مطالع المسرات مترجم ، ص۳۳ ، ۳۴) پھر آپ نے ’’ دَلَائِلُ الْخَیْرَات ‘‘ نامی کتاب تحریر فرمائی جو بَہُت مشہور ہوئی۔
صَلُّوْ ا عَلَی الْحَبِیب !
صلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد
سُبْحٰنَ اللہ ! دیکھا آپ نے مَدَنی مُنّو اور مُنیو! اُس بچی کو میٹھے میٹھے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر کثرت سے دُرُودِ پاک پڑھنے کی وجہ سے کیسا عظیم مرتبہ نصیب ہوا کہ اس کے لُعاب کی برکت سے کنویں کا پانی بڑھ گیا ، یہاں اس بات کا خیال رہے کہ وہ بچی باکَرَامت تھی اس لئے کنویں میں اپنا لُعاب ڈالا ، بہرحال ہمیں پانی کے کسی حوض ، تالاب یا کنویں وغیرہ میں نہیں تھوکنا چاہئے ۔ اُس بچی کی طرح ہمیں بھی اپنے مَدَنی آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر زیادہ سے زیادہ دُرُودِ پاک پڑھنے کی عادت بنا لینی چاہئے ۔ ہم چاہے کھڑے ہوں ، چل رہے ہوں ، بیٹھے ہوں یا لیٹے ہوں ، ہماری کوشش یہی ہونی چاہئیے کہ ہم دُرُود شریف پڑھتے ہیں کہ اس کے ثو ا ب کی کوئی انتہا نہیں۔ یاد رکھئے کہ دُرُود پاک کے مختلف الفاظ ہیں آپ کوئی سا بھی دُرُود پاک پڑھ سکتے ہیں مثلاً :
(1)صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
(2)صَلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد
(3)اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللہِ
(4)صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ۔
صَلُّوْ ا عَلَی الْحَبِیب !
صلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد
*سُنَّتوں بھَری تحریک’’ دعوتِ اسلامی‘‘*
تبلیغِ قراٰن و سُنَّت کی عَالَمْگِیر غَیر سِیَاسی تَحرِیک دعوت اسلامی کے مَدَنی کام کا آغاز آج (یعنی ۱۴۳۰ ھ)سے تقریباً 29سال پہلے شَیخ طَرِیْقَت اَمِیرِ اَہلسنّت حضرت علّامہ مولانا ابو بِلال محمداِلیاس عطاؔر قادِری رَضَوی دامت برکاتہم العالیہ نے اپنے چند رُفَقَاکے ساتھ کیا۔ دعوتِ اسلامی کا مَدَنی پیغام دیکھتے ہی دیکھتے بابُ الاسلام(سِندھ) ، پَنجاب ، سَرْحَد ، کَشْمِیر ، بلوچستان اور پھرمُلک سے باہَر ہِند ، بَنْگلہ دیش ، عَرَب اَمَارَات ، سِی لنکا ، برطانیہ ، آسٹریلیا ، کَوریا ، جنوبی اَفریقہ یہاں تک کہ(تادمِ تحریر) دُنیا کے 66سے زائد مَمَالِک میں پہنچ گیا اور آگے سفر جاری ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ ! آج(یعنی۱۴۳۰ ھ میں ) دعوتِ اسلامی کم وبیش 40 شعبوں میں سنّتوں کی خدمت میں مشغول ہے ۔
اللہ کرم ایساکرے تجھ پہ جہاں میں
اے دعوتِ اسلامی تِری دھوم مچی ہو
امیرِ اہلسنّت دامَت بَرَکاتُہُمُ العالیہنے تھوڑی سی مُدَّت میں دعوتِ اسلامیکے ذریعے لاکھوں مسلمانوں کی زندگی میں مَدَنی اِنقلاب برپا کردیا ۔ جہاں آپ دامَت بَرَکاتُہُمُ العالیہنے اسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں کو اپنے شب وروز رضائے ربُّ الانام عَزَّوَجَلَّ کے کاموں میں گزارنے کا ذہن دیا وہیں مَدَنی مُنّوں اور مُنیوں کی تربیت کا بھی سامان کیا چنانچہ صرف باب المدینہ کراچی کے مدارسِ المدینہ میں (تادمِ تحریریعنی 2009ء میں ) 50,000سے زائد مَدَنی مُنّے اور مُنیاں حفظ وناظر ہ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت بھی حاصل کر رہے ہیں ۔
امیرِ اہلسنّت دامَت بَرَکاتُہُمُ العالیہنے ایک مرتبہ دعوتِ اسلامی کی مجلس المدینۃ العلمیۃ کو اس طرح ارشاد فرمایا کہ بچوں کو مَدَنی ذہن دینے کے لئے ’’بچوں کی حکایات‘‘ کے نام سے اسلاف ِ کرام کے سبق آموز واقعات پر مشتمل رسائل شائع کرنے کی ترکیب کیجئے ۔ ‘‘آپ دامَت بَرَکاتُہُمُ العالیہکے حکم کی تعمیل میں اس موضوع پر کام شروع کردیا گیا ۔ چنانچہ 11 منتخب واقعات پر مشتمل’’بچوں کی حکایات‘‘ (حصّہ 1) ’’نُور کا کھلونا‘‘ مکتبۃ المدینہ سے شائع کیا جارہا ہے ۔ چونکہ یہ رسالہ بچوں کے لئے ہے اس لئے اسے آسان اندازمیں لکھنے کوشِش کی گئی ہے ۔ ہر اسلامی بھائی اور اسلامی بہن کو بھی چاہئے کہ ان رسائل کا نہ صرف خود مطالعہ فرمائیں بلکہ اپنے بچوں کو بھی شفقت ومحبت سے پڑھنے کی ترغیب دیں اور دیگر مَدَنی مُنّوں اور مُنّیوں کو بھی تحفۃً پیش کر کے ثواب کا اَنمول خزانہ جمع کریں ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ’’اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اِصلاح کی کوشش‘‘ کے مقدَّس جذبے کے تحت مَدَنی اِنعامات پر عمل اور مَدَنی قافِلوں کا مسافِر بنتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور دعوت ِ اسلامی کی تمام مجالس بشمول مجلس ِ اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیّہکو دن پچیسویں رات چھبیسویں ترقی عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
شعبہ اصلاحی کتب ، مجلسِ اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیّہ (دعوتِ اسلامی)
۲۹ ربیع النور ۱۴۳۰ ھ ، 27مارچ 2009ء
*غُصّہ روکنے کی فضیلت*
حدیثِ پاک میں ہے : جو شخص اپنے غُصّے کو روکے گا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ قِیامت کے روز اُس سے اپنا عذاب روک دے گا۔
(شعب الایمان ج۶ ص۳۱۵ حدیث ۸۳۱۱)
*{1} نُور کا کِھلونا*
حضرتِ سیِّدُناعبّاس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے کہ آپ نے رسولِ اکرم ، نُورِ مجسمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عرض کی : ’’ یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! مجھے توآپ کی نُبُوَّت کی نشانیوں نے آپ کے دِین میں داخِل ہونے کی دعوت دی تھی ، میں نے دیکھا کہ آپ(بچپن میں ) گہوارے(یعنی جُھولے) میں چاند سے باتیں کرتے اوراپنی انگلی سے اس کی جانب اشارہ کرتے تو جس طرف آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اِشارہ فرماتے چاند اس جانب جھک جاتا۔ حُضُور پُر نُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : ’’ میں چاندسے باتیں کرتاتھااور چاندمجھ سے باتیں کرتاتھا او ر وہ مجھے رونے سے بہلاتاتھااورجب چاند عرشِ الٰہی کے نیچے سجدہ کرتا ، اس وقت میں اُس کی تَسْبِیْح کرنے کی آواز سنا کرتاتھا۔ (الخصائص الکبرٰی ج 1،ص ۹۱)
چاند جھک جاتا جدھر انگلی اٹھاتے مہد(یعنی جُھولا)میں
کیا ہی چلتا تھا اشاروں پر کھلونا نور کا
مَدَنی مُنّو اور مَدَنی مُنیو!آپ نے مُلاحظہ فرمایا کہ ہمارے آقا مکی مدنی مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اللہ تعالیٰ نے کیسی قُوَّت عطا فرمائی تھی کہ آپ بچپن میں اِشارے سے چاند کو جِدھر چاہتے لے جاتے تھے ۔ جب اِعلانِ نُبُوَّت کے بعد تقریباً48 برس کی عمر میں کفّارِ مکّہ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے چاند کو دوٹکڑے کر کے دکھانے کا مُطَالَبہ کیا تو بھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اِشارے سے چاند کو چاک کر کے دِکھا دیا تھا ۔ (مدارج النبوۃ ، ج۱ ، ص۱۸۱)
چاند اشارے کا ہِلا ، حُکم کا باندھا سُورج
واہ! کیا بات شہا! تیری توانائی کی
اللہ عَزّوَجَلَّ کی اُن پَردُرُودیں ہو اور ان کے صد قے ہماری مغفِرت ہو
صَلُّوْ ا عَلَی الْحَبِیب !
صلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد
{2} میں کھیل کُود کے لئے پیدا نہیں ہوا
حضرت سیدنا یحییٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بچپن میں ہی نُبُوَّت عطا فرما دی تھی چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَ اٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّاۙ(۱۲) (پ ۱۶ ، مریم : ۱۲)
ترجمۂ کنزالایمان : اورہم نے اسے بچپن ہی میں نبوت دی ۔
اُس وقت آپ علیہ السلام کی عمر شریف 3 سال تھی۔ اتنی سی عمر میں آپ کی عَقْل ودانِش کمال کی تھی ۔ اس کم عمری کے زمانہ میں بچوں نے آپ علیہ السلام سے کہا : ’’ آپ ہمارے ساتھ کھیل کُود کیوں نہیں کرتے توآپ نے فرمایاکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے کھیل کُود کیلئے پیدانہیں فرمایا ۔ ‘‘ (مدارج النبوۃ ج۱ ، ص ۳۱) اللہ عَزّوَجَلَّ کی اُن پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری مغفِرت ہو
ٰٰامین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْ ا عَلَی الْحَبِیب !
صلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد
مَدَنی مُنّو اور مُنّیو! کھیل کُود میں اپنا وقت برباد کرنا عقل مندی نہیں۔ ہماری زندگی کے لَمْحَات گویا اَنمول ہیرے ہیں اگرہم نے اِنہیں بے کار ضائع کردیا تو حَسرت و نَدامت کے سِوا کچھ ہاتھ نہ آ ئیگا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا ہے۔ انسان کو اس دنیا میں بَہُت مُخْتَصَر سے وقت کیلئے رہنا ہے اوراس وَقفے میں اسے قَبْر و حَشْر کے طویل ترین معاملات کیلئے تیاری کرنی ہے لہٰذا اِنسان کا وقت بے حد قیمتی ہے۔ کاش ! ہمیں ایک ایک سانس کی قدر نصیب ہو جائے کہ کہیں کوئی سانس بے فائدہ نہ گزر جائے اور کل بروزِ قیامت زندَگی کا خزانہ نیکیوں سے خالی پاکر اَشکِ ندامت (یعنی شرمندگی کے آنسو)نہ بہانے پڑ جائیں ! وَقت ایک تیز رفتار گاڑی کی طرح فَرّاٹے بھرتا ہوا جارہا ہے نہ روکے رُکتا ہے نہ پکڑنے سے ہاتھ آتا ہے ، جو سانس ایک بار لے لیا وہ پلٹ کر نہیں آتا۔
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
سدا عیشِ دوراں دِکھاتا نہیں
صدکروڑ کاش! ایک ایک لمحے کا حساب کرنے کی عادت پڑ جائے کہ کہاں بسر ہو رہا ہے ، زہے مقدَّر! زندگی کا ایک ایک لمحہ مفید کاموں ہی میں صَرف ہو ۔ بَروزِقِیامت اوقات کوفُضول باتو ں ، خوش گپّیوں میں گزرا ہوا پا کر کہیں کفِ افسوس مَلتے نہ رہ جائیں !آہ !اے کمزور ونَاتواں مَدَنی مُنّواور مُنّیو! قِیامت کے اُس کڑے وَقت سے اپنے دِل کو ڈرایئے اور ہر وَقت اپنے تمام اَعضائے بَدَن کو گناہوں کی مُصیبَت سے باز رکھنے کی کوشِش فرمایئے۔
*جنَّت میں دَرَخت لگوائیے!*
وَقت کی اَھَمِّیَّت کا اس بات سے اندازہ لگائیے کہ اگر آپ چاہیں تو اِس دنیا میں رہتے ہوئے صِرف ایک سیکنڈ میں جنَّت کے اندر ایک دَرَخت لگوا سکتے ہیں اور جنَّت میں دَرَخت لگوانے کا طریقہ بھی نہایت ہی آسان ہے چُنانچِہ ایک حدیثِ پاک کے مطابِق ان چاروں کلمات میں سے جو بھی کلمہ کہیں جنّت میں ایک دَرَخت لگا دیا جائے گا۔ وہ کلمات یہ ہیں :
{1} سُبْحٰنَ اللہ{2} اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ {3}لَااِلٰہَ اِلاَّ اللہُ {4}اللہُ اَکْبَر (سُنَن ابن ماجہ ج۴ ص۲۵۲حدیث ۳۸۰۷ دارالمعرفۃ بیروت)
آسان کام
دیکھا آپ نے! جنّت میں دَرخت لگوانا کس قَدَر آسان ہے! اگر بیان کردہ چاروں کَلِمات میں سے ایک کَلِمہ کہیں تو ایک اور اگر چاروں کہہ لیں گے تو جنّت میں 4 دَرَخت لگ جائیں گے۔ اب آپ ہی غور فرمایئے کہ وقت کتنا قیمتی ہے کہ زَبان کومعمولی سی حَرَکت دینے سے جنّت میں دَرخت لگ جاتے ہیں تواے کاش!فالتو باتوں کی جگہ سبحٰنَ اللہ سبحٰنَ اللہ کا وِرْد کرکے ہم جنّت میں بے شُمار دَرَخت لگوالیا کریں۔
*اپنا جَدْ وَل بنا لیجئے*
کوشش کیجئے کہ صبح اٹھنے کے بعد سے لیکر رات سونے تک سارے کاموں کے اوقات مقرَّر ہوں مَثَلاً اتنے بجے تَہَجُّد ، علمی مشاغل ، مسجد میں تکبیر ُاولیٰ کے ساتھ باجماعت نمازِ فجر (اسی طرح دیگر نمازیں بھی ) اشراق ، چاشت ، ناشتہ ، مدرسے میں پڑھائی ، دوپہر کا کھانا ، گھریلو معاملات ، شام کے مشاغِل ، اچھی صحبت ، (اگر یہ مُیَسَّر نہ ہو توتنہائی اس سے کہیں بہتر ہے ) ، اسلامی بھائیوں سے دینی ضروریات کے تحت ملاقات ، وغیرہ کے اوقات مقرَّر کر لئے جائیں۔ جو اس کے عادی نہیں ہیں ان کیلئے ہو سکتا ہے شروع میں کچھ دُشواری پیش آئے۔ پھر جب عادت پڑجائے گی تو اس کی بَرَکتیں بھی خود ہی ظاہِر ہوجائیں گی۔ اِنْ شآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ
دن لھو (فالتو کام) میں کَھونا تُجھے شب صُبح تک سونا تجھے
شرمِ نبی خوفِ خدا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
رِزق خدا کھایا کیا فرمانِ حق ٹالا کیا
شکرِ کرم ترسِ جزا (انجام کاخوف) یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
(حدائق بخشش) (ماخوذ از انمول ہیرے مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب !
صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
*{3} چھوٹی مصیبت نے بڑی مصیبت سے بچالیا*
ایک مرتبہ حضرتِ ِسیِّدُنا لُقمان حکیم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے بیٹے کو (نصیحت کرتے ہوئے )فرمایا : ’’ پیارے بیٹے! جب بھی تجھے کوئی مصیبت پہنچے تو تُواسے اپنے حق میں بہتر جان اور یہ بات دِل میں بٹھالے کہ میرے لئے اِسی میں بھلائی ہے۔ ‘‘بیٹے نے عرض کی : ’’ یہ بات میرے بس میں نہیں کہ میں ہر مصیبت کو اپنے لئے بہتر سمجھوں ، میرا یقین ابھی اتناپُختہ نہیں ہوا ۔ ‘‘ حضرتِ ِسیِّدُنالقمان حکیمرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا : ’’اے میرے بیٹے ! اللہ عَزَّوَجَلَّنے دنیامیں وقتاََ فوقتاََ انبیاءِ کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام بھیجے ، ہمارے زمانے میں بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے نبی علیہ السلام کو بھیجا ہے آؤ ، ہم اُس سے فیضیاب ہونے چلتے ہیں ، ان کی باتیں سن کر تیرے یقین کو تقویت (یعنی مضبوطی)حاصل ہو گی۔ ‘‘ چُنانچِہ سامانِ سفر لیا ، اور خچروں پر سوار ہو کردونوں روانہ ہوگئے ۔ دورانِ سفر ایک ویران جنگل میں دو پہر ہوگئی ، شدید گرمی تھی اور لُو بھی چل رہی تھی ، ایسے میں پانی اور کھانا وغیرہ بھی ختم ہوچکاتھا ، خچر بھی تھکن اورپیاس کی شدت سے ہانپنے لگے ، حضرتِ سیِّدُنا لقمان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ المَنّاناور آپ کا بیٹا خچروں سے اُتر کر پیدل ہی چل پڑے ، بَہُت دُور ایک سایہ اور دھواں سا نظر آیا ، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِآبادی کاگمان کر کے اُسی طرف بڑھنے لگے ۔ راستے میں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکے بیٹے کو ٹھوکر لگی اور پاؤں میں ایک ہڈّی اس طرح گُھسی کہ تلوے سے پار ہوکر ظاہِرِ قدم تک نکل آئی اور وہ درد کی شدت سے بے ہوش ہو کر زمین پر گرپڑا۔ شفقت کے سبب روتے ہوئے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے اپنے دانتوں سے کھینچ کر ہڈّی نکالی۔ اپنے مبارَک عمامے سے کچھ کپڑا پھاڑا اور زخم پر باندھ دیا۔ حضرتِ سیِّدُنالقمانرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکے آنسو جب بیٹے کے چہرے پر گرے تو اُسے ہوش آگیا ، کہنے لگا : ’’ ابّا جان !آپ تو فرما رہے تھے کہ ہر مصیبت میں بھلائی ہے لیکن اب رونے کیوں لگے ؟ ‘‘ فرمایا : پیارے بیٹے باپ کااپنی اولاد کے دکھ درد کی وجہ سے غمگین ہوجانا اور رو پڑنا ایک فطری عمل ہے ، باقی رہی یہ بات کہ اس مصیبت میں تمہارے لئے کیا بھلائی ہے؟تو ہو سکتا ہے اس چھوٹی مصیبت میں مبتلا کر کے تجھ سے کوئی بہت بڑی مصیبت دو ر کردی گئی ہو ۔ جو اب سن کربیٹا خاموش ہوگیا ۔ پھرحضرت ِسیِّدُنا لقمان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ المَنّاننے سامنے نظر کی تو اب وہا ں نہ تو دھواں تھا اور نہ ہی سایہ وغیرہ۔ چِتْکَبرے گھوڑے (یعنی سفید وسیاہ رنگ کے گھوڑے)پر سوارایک شخص بڑی تیزی سے بڑھا چلاآرہا ہے ، وہ سوار قریب آ کر اچانک نظروں سے اوجھل ہوگیا!اور آوازآنے لگی : میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے مجھے حکم فرمایا : میں فُلاں شہر اور اس کے باشندوں کو زمین میں دھنسا دو ں۔ مجھے خبر دی گئی کہ آپ دونوں بھی اُسی شہر ہی کی طرف آرہے ہیں تومیں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دعا کی کہ وہ آپ کو اُس شہر سے دور رکھے۔ لہٰذا اُس نے یوں امتحان میں ڈالا کہ آپ کے بیٹے کے پاؤں میں ہڈّی چُبھ گئی اور اس طرح آپ دونوں اِس چھوٹی مصیبت کی و جہ سے ایک بہت بڑی مصیبت (یعنی اس عذاب والے شہر کی زمین میں دھنسنے ) سے بچ گئے ۔ ‘‘ پھرحضرت ِسیِّدُناجبرئیلعلیہ السلام نے اپنا مبارک ہاتھ اس بیٹے کے زخمی پاؤں پر پھیراتو زخم فوراً ٹھیک ہوگیا۔ پھرکھانے اورپانی کے خالی شدہ برتنوں پر ہاتھ پھیرا تو وہ دونوں کھانے اور پانی سے بھر گئے۔ اس کے بعدحضرت ِسیِّدُناجبرئیل علیہ السلام نے دونوں باپ بیٹے کو سامان اور سواریوں سمیت اٹھالیا اورآن کی آن میں یہ اپنے گھر میں موجود تھے حالانکہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکا گھر اُس جنگل سے کافی دن کی مَسافت پر تھا۔ (عیون الحکایات ، ص۱۰۹ )
اللہ عَزّوَجَلَّ کی اُن پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری مغفِرت ہو
ٰٰامین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْ ا عَلَی الْحَبِیب !
صلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد
مدنی مُنّو ! اس حکایت سے معلوم ہوا کہ ہمیں ہر حال میں اللہ عَزّوَجَلَّ کی رضا پر راضی رہنا چاہئے ۔ ربعَزّوَجَلَّ کی حکمت کو سمجھنے سے ہم قاصِر ہیں ، اُس کے ہرہر کام میں حکمت ہوتی ہے کسی کو مصیبت میں مبتلا کرنا بھی حکمت تو کسی کو بے طلب مصیبت سے بچا لینا بھی حکمت ۔
یاالہٰی ہر جگہ تیری عطا کا ساتھ ہو
جب پڑے مشکل ، شہِ مشکل کشاکاساتھ ہو
صَلُّوْ ا عَلَی الْحَبِیب !
صلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد
*{4} سب سے پہلے اِسلام قُبُول کرنے والا مدنی منّا*
جب سرکارِمدینۂ منوّرہ ، سردارِمکّۂ مکرّمہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے نبی ہونے کا اِظہار فرمایا تو عورتوں میں سب سے پہلی اُمُّ المؤمنین حضرت خَدِیجَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر ایمان لائیں۔ کچھ دن بعد امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا علی بن ابو طالب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جو رشتے میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چچازاد بھائی بھی تھے (اس وقت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی عمر تقریباً 10سال تھی) ، ان کے یہاں آئے تو تاجدارِ رِسالَت ، ماہِ نُبُوَّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اورام المؤمنین حضرت ِخدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو نماز پڑھتے دیکھا۔ جب نماز ادا کر چکے توعرض کی : ’’ یہ کیا ہے؟‘‘ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اِنفرادی کوشش{ہرایک کو الگ سے نیکی کی دعوت دینے(یعنی اسے سمجھانے)کو ’’انفرادی کوشش‘‘ کہتے ہیں)} کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا : ’’یہ اللہ عَزّوَجَلَّ کا وہ دین ہے جو اس نے اپنے لئے چنا اور اسے پھیلانے کے لئے اپنے رسول بھیجے ، میں تمہیں اللہ اور اس کی عبادت کی طرف بلاتا ہوں اور لات {(تین مشہور اور بڑے بتوں میں سے ایک بت کا نام ہے جو عرب شریف کے شہر طائف میں تھا اور قبیلہ بنی ثقیف اس کی عبادت کرتا تھا۔ (الروض الانف ، ج۱ ، ص ۱۷۴)} و عُزَّی {(یہ نخلہ کے مقام پر ایک بت تھا جسے مُشرِکینِ عرب پوجتے تھے(الروض الانف ، ج۱ ، ص ۱۷۴)} کا اِنکار کرنے کا کہتا ہوں۔ ‘‘ حضرتِ سیِّدُنا علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے عرض کی : ’’یہ بات تو میں نے آج سے پہلے کبھی نہیں سنی اس لئے میں اپنے والد سے مشورہ کئے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔ ‘‘نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فی الحال اس راز کاحضرت علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے والد پر ظاہر ہو جانا پسند نہ فرمایا اور ارشاد فرمایا’’اے علی! اگر تم اسلام قبول نہیں کر رہے تو خاموش رہنا۔ ‘‘ مگراسی رات اللہ تعالیٰ نے حضرت سیدنا علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے دل میں اسلام کی محبت ڈال دی۔ چنانچہ صبح ہوتے ہی نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی : ’’ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھ پر کیا پیش فرمایا تھا؟ ‘‘ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا’’تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ ایک ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں اور لات و عُزَّی کا انکار کر دو اور اللہ تعالیٰ کا مثل ماننے سے بَرِی ہو جاؤ۔ ‘‘ حضرت سیدنا علیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے ان باتوں کو مانتے ہوئے اسلام قبول کر لیا۔ (اسد الغابہ ،باب العین واللام،ج۴،ص۱۰۱)
اللہ عَزّوَجَلَّ کی اُن پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری مغفِرت ہو
ٰٰامین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْ ا عَلَی الْحَبِیب !
صلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد
مَدَنی مُنّو!حضرتِ سَیِّدُنَاعلی المرتضی کَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کیحکایت میں آپ نے دیکھا کہ مَدَنی مُنّے پر اِنفرادی کوشِش کر کے آقا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کس طرح اُن کا مدنی ذہن بنایا اورشیرِ خداحضرتِ سیدنا علیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اسلام قبول کر لیا ۔ یقینا نیکی کی دعوت کے کام میں اِنفرادی کوشش کو بڑا عمل دَخل ہے ، ہمارے میٹھے میٹھے آقا ، مدینے والے مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نیز سب کے سب انبیاءِ کرام علیہم الصلوۃ والسلام نے نیکی کی دعوت کے کام میں اِنفرادی کوشش فرمائی ہے۔
مَدَنی مُنّو! آپ بھی دعوتِ اسلامی کے مَدَنی کاموں کے لئے انفرادی کوشش کیجئے اور ثواب کا خزانہ اکٹھا کیجئے ۔
صَلُّوْ ا عَلَی الْحَبِیب !
صلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد
*{5} مَدَنی مُنّے کا جو شِ ایمانی*
رات کا پچھلاپہر تھا ، سارے کا سارا مدینہ نُور میں ڈوبا ہوا تھا۔ اہلِ مدینہ رحمت کی چادر اوڑھے مَحوِ خواب تھے ، اتنے میں مُؤَذِّنِ رسول حضرتِ سیِّدُنابِلال حبشی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی پُر کیف صدا مدینۂ منوَّرہکی گلیوں میں گونج اٹھی :
’’ آج نَمازِ فجر کے بعد مجاہِدین کی فوج ایک عظیم مُہِم پر روانہ ہورہی ہے۔ مدینۂ منوَّرہکی مقدَّس بیبیاں اپنے شہزادوں کو جَنَّت کا دولھا بنا کر فوراً دربارِ رسالت میں حاضِر ہوجائیں۔ ‘‘ ایک بیوہ صحابیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا اپنے چھ سالہ یتیم شہزادے کو پہلو میں لٹائے سورہی تھیں۔ حضرتِ سیِّدُنابِلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا اعلان سن کر چونک پڑیں ! دل کا زخم ہَرا ہوگیا ، یتیم بچّے کے والِدِ گرامی گُزَشتہ برس غزوئہ بدر میں شہید ہوچکے تھے۔ ایک بار پھرشَجرِ اسلام کی آبیاری کیلئے خون کی ضَرورت درپیش تھی مگر ان کے پاس چھ سالہ مَدَنی مُنّے کے علاوہ کوئی اور نہ تھا۔ سینے میں تھما ہوا طوفان آنکھوں کے ذَرِیعے اُمنڈ آیا۔ آہوں اور سسکیوں کی آواز سے مَدَنی مُنّے کی آنکھ کُھل گئی ، ماں کو روتا دیکھ کر بیقرار ہوکر کہنے لگا : ماں !کیوں رو تی ہو ؟ ماں مَدَنی مُنّے کو اپنے دل کا درد کس طرح سمجھاتی! اس کے رونے کی آواز مزید تیز ہوگئی۔ ماں کی گِریہ و زاری کیتَأَثُّر سے مَدَنی مُنّا بھی رونے لگ گیا۔ ماں نے مَدَنی مُنّے کو بہلانا شروع کیا ، مگر وہ ماں
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں