ایک روز غوث اعظم خطاب فرما رہے تھے کہ اچانک آپ نے اپنی آستین چادر مبارک میں ڈالی, اور جب واپس نکالی تو پوری آستین گیلی تھی, اس میں سے پانی ٹپک رہا تھا. لیکن آپ کے جلال کی وجہ سے کسی کو جرأت نہ ہوی کچھ پوچھنے کی.

ایک روز غوث اعظم خطاب فرما رہے تھے کہ اچانک آپ نے اپنی آستین چادر مبارک میں ڈالی, اور جب واپس نکالی تو پوری آستین گیلی تھی, اس میں سے پانی ٹپک رہا تھا. لیکن آپ کے جلال کی وجہ سے کسی کو جرأت نہ ہوی کچھ پوچھنے کی.

کچھ دنوں کے بعد ایک قافلہ بغداد پہنچا جو سمندر کے راستے کشتی کے زریعے آ رہا تھا. اس قافلے کے لوگوں نے ایک عجیب واقعہ بتایا کہ زور کا طوفان آیا اور ہماری کشتی ڈوبنے لگی. ایک شخص نے بے اختیار پکارا
"یا عبد القادر جیلانی مدد"
ہم نے دیکھا کہ ایک ہاتھ اچانک کہیں سے آیا اور ہماری کشتی کو پکڑ کر کنارے تک با حفاظت پہنچا دیا.
اس قافلے سے اس واقعے کا دن اور وقت پوچھا گیا تو یہ وہی دن اور وقت تھا جب خطاب کے دوران آپ نے اپنی آستین چادر میں ڈالی اور گیلی آستین واپس نکالی تھی. سبحان اللہ
اسی طرح ایک دن حضرت غوث اعظم مجمہ سے خطاب فرما رہے تھے. آپ کی محفل میں عراق کے تقریبا سب اولیاء موجود تھے.
آپ پر یکا یک حالت کشف طاری ہوئ اور آپ نے ارشاد فرمایا
"میرا یہ قدم تمام اولیاء کی گردن پر ہے"
یہ اعلان سنتے ہی سب مشائخ نے اپنی گردنیں خم کر دیں. کامل شیخ علی بن ابو نصر البیہقی بھی موجود تھے. آپ دوڑ کر آگے بڑھے اور سرکار کا پاؤں مبارک اپنی گردن پر رکھ لیا.
کرہ عرض پر جہاں جہاں کوی قطب ابدال یا ولی تھا سب نے حکم الہی سے غائبانہ طور پر یہ آواز سنی اور اپنی گردن جھکا لی. روایت یے کہ تقریبا 313 اولیاء کرام نے یہ آواز سنی اور اپنی اپنی گردنیں جھکا لیں.
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمت اللہ علیہ خراسان کے پہاڑوں میں مجاہدے میں مصروف تھے, آپ نے بھی یہ آواز سنی اور اپنی گردن اتنی جھکائ کہ سر زمین کو چھونے لگا. روایت میں ہے کہ غوث اعظم عبد القادر جیلانی رحمت اللہ علیہ نے فرمایا
"معین الدین گردن جھکانے میں بازی لے گیا".
اصفہان کے ایک ولی شیخ صنعان علم و معرفت کے بہتے سمندر تھے, آپ سے کئی کرامات سر زر ہوئ تھیں. آپ نے بھی یہ آواز سنی لیکن غوث اعظم کا مرتبہ پہچاننے میں ٹھوکر کھا گئے اور گردن جھکانے سے اعتراض کیا.
آپ کو اسی وقت محسوس ہوا کہ آپ کی ولایت اور سب قوتیں سلب ہو گئی ہیں. دامن خالی ہو گیا تو پریشانی نے پاؤں پکڑے, سارا ماجرا سمجھ آ گیا. جہاں تھے وہیں سے بغداد کی طرف دوڑ پڑے اور کئی دن کا سفر کر کے آپ کے أستانے پر پہنچے. وعظ جاری تھا, وعظ کے ختم ہوتے ہی آپ صفیں چیرتے ہوۓ منبر تک پہنچے اور آپ کے قدم سے لپٹ گئے.
غوث اعظم نے تھپکی دی اور پوچھا کون ہو کہاں سے أۓ ہو.
بولے یا حضرت میں شیخ صنعان ہوں اصفہان سے آیا ہوں.
صنعان یہ کیا حالت بنائ ہوی ہے تم نے.
شیخ صنعان نے روتے ہوے سارا ماجرا بیان کیا اور معافی کے دستخوار ہوۓ.
آپ نے انہیں گلے لگا لیا. گلے ملتے ہی شیخ صنعان کے سلب شدہ سب درجات و حالات واپس آ گئے بلکہ اضافہ بھی ہوا.
آپ کی زبان سے نکلا ہوا یہ لفظ حکم الہی تھا. دور حاضر کے بھی سب اولیاء آپ کے تابع ہیں اور آپ کے راستے اور آپ کی سفارش سے ہی اوپر جاتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ موجودہ سب روحانی سلسلے چاہے چشتی ہوں, نقشبندی یا سہروردی آگے چل کر قادری بن جاتے ہیں ; چشتیہ قادریہ, نقشبندیہ قادریہ اور سہروردیہ قادریہ وغیرہ.
جس کا منبر ہوئ گردن اولیاء
اس قدم کی حلاوت پے لاکھوں سلام
خاصان خدا : ڈاکٹر ساجد امجد
جو دوست پہلی اقساط نہیں پڑھ سکے ان کے لیے
قسط نمبر 1
رمضان المبارک کی پہلی تاریخ شروع ہو چکی تھی ہجری سال کا 471 سال تھا کہ عالم قدسی سے عالم امکان کی طرف بخشش کا نزول ہوا. اللہ کے ولی کی ولادت عمل میں آی.
ابو محمد صالح رحمت اللہ علیہ نے بچے کا اسم مبارک عبد القادر رکھا. سید عبد اللہ صومعی رحمت اللہ علیہ بھی خبر ملنے پر نواسے کو دیکھنے پہنچ گئے. ان کا کوی فرزند نہیں تھا اس لیے نواسے کو دیکھ کر فرزند کی خوشی حاصل ہوی.
نومولود نے سحری کے وقت ماں کا دودھ پیا اور بے خبر سو گیا. جب دن چڑھا تو آپ کی والدہ نے بھوک کا خیال کر کے دودھ ان کے منہ سے لگانے کی کوشش کی. عبد القادر نے منہ دوسری طرف پھیر لیا. جب کئی مرتبہ کی کوشش کے بعد بھی ایسا ہی ہوا تو انہوں نے سوچا, ابھی بھوک نہیں ہو گی. جب روۓ گا تو دیکھا جاۓ گا. دوپہر کے قریب انہیں پھر خیال آیا کہ بچہ ابھی تک خاموش ہے, وہ گھر کے کام کاج چھوڑ کر دوڑتی ہوی بچے کے پاس آئیں. گلاب کھلا ہوا تھا, بچے کے ہونٹ پر تبسم کی چاندی بکھری ہوی تھی, انہوں نے پھر کوشش کی بچہ دودھ پی لے. بچے نے ایک بار پھر منہ دوسری طرف پھیر لیا. اب وہ گھبرا گئیں, ننھی سی جان اتنی دیر سے بھوکی ہے. انہوں نے اپنے شوہر سے تزکرہ کیا. انہوں نے مشاہدہ کیا اور پاکباز روح کے آئینہ میں سب کچھ ظاہر ہو گیا.
"یہ بچہ مادر زاد ولی ہے, اس کی بشارت مجھے پہلے ہی ہو چکی ہے. یہ بچہ تارک صوم نہیں ہو سکتا, تم گھبراو نہیں. یہ حضرت روضے سے ہیں, افطار کا وقت ہو گا تو یہ بھی افطار کر لیں گے".
ماں نے بے تحاشہ اپنے لال کو چوم لیا. اسے گود میں لے لے کر یوں اس سے باتیں کرنے کگی جیسے اس کا روزہ بہلا رہی ہوں. بچے نے بھی سوچا ہو گا ماں کو کیوں مصروف رکھے, انہیں اور ہزار کام ہیں. رفتہ رفتہ آنکھیں بند کیں اور سو گیا.
افطار کا وقت ہوا تو سیدہ فاطمہ نے ننھے عبد القادر کو چھاتی سے لگا لیا. اب بچے کو دودھ پینے میں کوی عزر نہیں تھا. سیر ہو کر پیا.
پورے رمضان شریف میں یہی حالت رہی کہ دن بھر دودھ نہیں پیتے تھے, جب افطار کا وقت ہوتا تو سیر ہو کر پیتے.
عبد القادر نے زمانہ رضاعت میں دو رمضان گزارے. ان دونوں مقدس مہینوں میں آپ کا یہ حال تھا کہ آغاز سے اختتام تک پورے دن روزے سے رہتے اور افطار کے وقت دودھ پیتے. عام بچوں کی طرح نہ روتے نہ چلاتے.
پھول ابھی کھلا نہیں تھا کہ خوشبو ہر طرف پھیل گئی, گہوارے میں روزہ رکھنے کا قصہ عام ہو گیا. لوگ دور دور سے اس بچے کا دیدار کرنے کے لیے آنے لگے.
یہ مادر زاد ولی پیران پیر شیخ سید عبد القادر جیلانی رحمت اللہ علیہ تھے.
خاصان خدا : ڈاکٹر ساجد امجد
قسط نمبر 2
شیخ عبد القادر جیلانی رحمت اللہ علیہ نے بارش کے پانی سے پیاس بجھائ اور اللہ کا شکر ادا کیا. اچانک بادل کے ٹکڑے سمٹ گئے اور ایسی عظیم الشان روشنی نمودار ہوی کہ آسمان کے کنارے تک روشن ہو گئے. اس روشنی سے آواز آئ..
"اے عبد القادر میں تیرا رب ہوں, بطور انعام میں نے تیرے لیے سب کچھ حلال کر دیا ہے"
آپ کو خیال گزرا کہ یہ میرا رب نہیں ہو سکتا, سب کچھ تو پیغمبروں کو بھی حلال نہیں ہوا تو میں کیا چیز ہوں. آپ نے فورا اعوز بللہ من الشیطان الرجیم پڑھی اور اسے دھتکار دیا.
وہ روشنی ظلمت میں بدل گئی اور ہر طرف دھواں پھیل گیا. اور اس سے آواز آی..
"اے عبد القادر تمہیں تمہارے علم نے بچا لیا ورنہ میں اپنے اس مکر سے 70 صوفیا کو گمراہ کر چکا ہوں".
یہ دوسرا وار زیادہ سخت تھا, شیطان آپ کو علم کے تکبر میں ڈالنا چاہتا تھا.
آپ نے برجستہ جواب دیا
"میرے علم نے نہیں مجھے میرے رب کے کرم نے مجھے بچا لیا".
قسط نمبر 3
حضرت عبد القادر جیلانی کو ہمیشہ سے تنہای میں رہنے کی خواہش تھی. آپ اسی سوچ میں گم تھے کہ کیسے عوام سے دور لیکن رب کو کچھ ہی منظور تھا.
آپ کی آنکھ لگی تو سرور کونین صل اللہ علیہ وآلہ وسلم خواب میں تشریف لاۓ اور فرمایا
"اے عبد القادر تم لوگوں کو گمراہی سے بچانے کے لیے وعظ و نصیحت کیوں نہیں کرتے"
آپ نے عرض کی حضور میں ایک عجمی ہوں, عربوں کی فصاحت کے سامنے کیسے بولوں.
سرکار صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اپنا منہ کھولو.
آپ نے حکم کی تکمیل کی. حضور نے اپنا لعاب دھن مبارک 7 دفعہ آپ کے منہ میں ڈالا اور فرمایا جاؤ وعظ کرو اور لوگوں کو اللہ کی طرف بلاو"
آنکھ کھلی تو خواب تازہ تھا, اور حکم واضح تھا. آپ نے حضرت ابو سعید سے بات کی تو انہوں نے اپنا مدرسہ اس کام کے لیے پیش کر دیا.
ظہر کی نماز کے بعد وعظ کا اعلان کر دیا گیا. اور آپ مدرسے میں منبر پر تشریف لے آے. لوگ زیادہ نہیں تھے لیکن آپ پہلی دفعہ وعظ کرنے لگے تھے اس لیے جھجک رہے تھے. ایک دم کشف کی کیفیت طاری ہوی اور آپ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زیارت ہوی.
مولا علی رضی اللہ نے فرمایا
"وعظ شروع کیوں نہیں کرتے"
"حضور میں گھبرا گیا ہوں" جواب عرض کیا.
مولا نے فرمایا اپنا منہ کھولو.
حکم کی تعمیل پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے 6 مرتبہ آپ کے منہ میں اپنا لعاب دھن ڈالا اور فرمایا اب وعظ شروع کرو.
مجمہ دم بخود آپ کو دیکھ رہا تھا اور وعظ کے انتظار میں تھا. آپ نے حالت کشف سے باہر آنے پر حاضرین پر ایک نظر ڈالی. اس نظر میں کچھ ایسی تاثیر تھی کہ سب پر آپ کا رعب طاری ہو گیا. اور آپ نے پر جلال اور غضب کی تقریر کی.
وعظ کے بعد سب کی زبان پر آپ کی تقریر کے چرچے تھے, شہرت پھیلی تو اگلے وعظ میں اور زیادہ لوگ آے. رفتہ رفتہ پورا شہر, امیر غریب, حکمران و غلام سب آپ کا وعظ سننے آنے لگے. جلد ہی آپ کی شہرت عراق, شام, عرب اور عجم میں پھیل گئی. ہدایت کے قافلے عراق کا رخ کرنے لگے. آپ کا وعظ اب جگہ کی تنگی کی وجہ سے شہر کی مرکزی عید گاہ میں ہونے لگا.
کچھ ہی دنوں میں آپ کی تقاریر نے دوسرے سب علما کے چراغ گل کر دیے, ان کی محافل خالی ہو گئیں کیونکہ سب لوگ آپ کی محفل میں بیٹھنے لگے.
علماء کا ایک گروہ حسد کی وجہ سے آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گیا. انہوں نے آپ کو نیچا دکھانے کے لیے ایک ترکیب سوچی. 100 علماء کا گروہ بیٹھا اور انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم سب فقہ کا ایک ایک دقیق مسلہ سوچ کر آپ کے وعظ میں جائیں گے اور جب آپ خلقت کے سامنے خطاب کر رہے ہوں گے تو آپ سے باری باری سوالوں کے تابڑ توڑ حملے کریں گے. اگر آپ مصروفیت کے باعث کسی سوال کا تسلی بخش جواب نہ دے پاۓ تو آپ کی عزت لوگوں میں کم ہو جاۓ گی.
اس ترکیب پر عمل کرتے ہوے یہ سو علماء مجمہ میں منبر کے نزدیک جگہ بنا کر بیٹھ گئے. حضرت عبد القادر جیلانی کچھ دیر اپنے موضوع کا حق ادا کرنے کے بعد خاموش ہوے اور ان سو علماء کو باری باری مخاطب کر کے کہتے گئے کہ
"تمہارا یہ سوال ہے اور اس کا یہ جواب ہے"
"تمہارا یہ سوال ہے اور اس کا یہ جواب ہے"
اس طرح ان سو علماء کے سوال پوچھنے سے پہلے ہی ان کے جواب بھی دے دئے. سبحان اللہ. ایسے تسلی بخش جواب دیے کہ سب کی زبانیں بند ہو گئیں. مجلس میں کہرام مچ گیا, اس قدر شور ہوا جیسے زلزلہ آ گیا ہو.
اس کے بعد کسی کی جرأت نہ ہوی کہ آپ کے خلاف کوئ سازش کرتا. اب آپ کے وعظ کے ساتھ ساتھ آپ کے کشف و کرامات کا بھی چرچہ ہونے لگا. آپ کی شہرت مزید پھیلی اور لوگ ہدایت کے لیے آپ کے وعظ سننے کے لیے دور دور سے آنے لگے.

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے