مدینہ کو یَثْرِب کہنا کیسا؟

مدینہ کو یَثْرِب کہنا کیسا؟

*سُوال :* مدینۂ منورہ زَادَھَا اللّٰہُ شَرْفًا وَّتَعْظِیْمًا کو یَثْرِبْ کہنا کیسا ہے؟ نیز ایسے اَشعار جن میں مدینۂ منورہ زَادَھَا اللّٰہُ شَرْفًا وَّتَعْظِیْمًا کو یَثْرِبْ کہا گیا ہے ، انہیں پڑھنے کا کیا حکم ہے؟

*جواب:* مدینۂ منورہ زَادَھَا اللّٰہُ شَرْفًا وَّتَعْظِیْمًا کو یَثْرِبْ کہنا ناجائز و گناہ ہے چنانچہ اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنَّت، مجدِّدِ دِین و مِلَّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں: *مدینۂ طیبہ کو یَثْرِبْ کہنا ناجائز و ممنوع و گناہ ہے اور کہنے والا گناہ گار (ہے)۔* ([1]) لہٰذا ایسےاَشعار جن میں یہ لفظ آئے انہیں پڑھنا جائز نہیں۔ ”قرآنِ عظیم میں کہ لفظ یَثْرِبْ آیا وہ رَبُّ الْعِزت جَلَّ وَعَلَا نے منافقین کا قول نقل فرمایا ہے: *(وَ اِذْ قَالَتْ طَّآىٕفَةٌ مِّنْهُمْ یٰۤاَهْلَ یَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ)* (پ۲۱، اَلْاَحْزَاب:۱۳) ترجمۂ کنزُالایمان: *”اور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا: اے مدینہ والو! یہاں تمہارے ٹھہرنے کی جگہ نہیں۔“* 

یَثْرِبْ کا لفظ فَساد و مَلامَت سے خبر دیتا ہے۔ وہ ناپاک اسی طرف اِشارہ کر کے یَثْرِبْ کہتے، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان پر رَد کے لئے مدینۂ طیبہ کا نام ’’ طابہ ‘‘ رکھا۔“ ([2])

[1] فتاویٰ رضویہ ،٢١/١١٦

[2] فتاویٰ رضویہ،٢١/١١۷


*مدینۂ منوَّرہ کو یَثْرِبْ کہنے کی ممانعت*

اَحادیثِ مُبارَکہ میں مدینۂ منوَّرہ کو یَثْرِبْ کہنے کی سخت ممانعت آئی ہے چنانچہ سردارِ مکۂ مکرمہ، تاجدارِ مدینۂ منورہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے اِرشاد فرمایا: *جو مدینہ کو یَثْرِبْ کہے تو اِستغفار کرے۔مدینہ طابہ (پاک و صاف خوشبودار جگہ) ہے، مدینہ طابہ ہے۔* ([3]) اِس حدیثِ پاک کے تحت حضرتِ سیِّدُنا علّامہ عبدُ الرَّ ءُوْف مناوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی فرماتے ہیں: *(حدیثِ پاک میں مدینۂ طیبہ کو یَثْرِبْ کہنے پر) اِستغفار کرنے کے حکم سے ظاہر ہوتا ہے کہ مدینۂ طیبہ کا یَثْرِبْ نام رکھنا حرام ہے کہ یَثْرِبْ کہنے سے اِستِغْفار کا حکم فرمایا اور اِستغفار گناہ ہی سے ہوتا ہے۔* ([4])   

سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ خوشبودار ہے: *بیشک اللہ عَزَّوَجَلَّ نےمدینہ کا نام طابہ رکھا۔* ([5]) اس حدیثِ پاک کے تحت حضرتِ سیِّدُنا علّامہ علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْبَارِی فرماتے ہیں: *اللّٰہ تعالٰی نے لوحِ محفوظ میں مدینہ کا نام”طابہ“رکھا ہے یا اپنے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو حکم فرمایا کہ وہ مدینۂ پاک کا نام طابہ رکھیں تاکہ یَثْرِبْ نام رکھنے والے منافقین کا رَد کرتے ہوئے نازیبا (یعنی نامناسب ) نام کی طرف رُجُوع کرنے پر ان کی سرزنِش (یعنی ملامت) کی طرف اِشارہ ہو جائے۔* ([6]) اِسی میں اِمام شرفُ الدِّین نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی کے حوالے سے ہے: *حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ بن دِینار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِالْغَفَّار سے حِکایت نقل کی گئی کہ جس کسی نے مدینۂ طیبہ کا نام یَثْرِبْ رکھا یعنی اس نام سے پکارا تو وہ گناہ گار ہوگا۔ جہاں تک قرآنِ مجید میں یَثْرِبْ کے نام کے ذِکر کا تعلق ہے تو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ منافقین کے قول کی حِکایت ہے کہ جن کے دِلوں میں بیماری ہے۔* ([7]) 

اِس حدیثِ پاک کے تحت مُفَسّرِ شَہِیر، حکیمُ الاُمَّت حضرتِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں: *لوحِ محفوظ میں مدینۂ منوَّرہ کا نام طابہ یا طیبہ ہے یا ربّ تعالٰی نے اپنے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو حکم دیا کہ اس کا نام طابہ رکھیں، اس کے معنیٰ ہے پاک و صاف اور خوشبودار جگہ۔ اسے ربّ تعالٰی نے کفر و شِرک سے پاک کیا ، یہاں کے باشندوں کو بَدخُلقی وغیرہ سے صاف فرمایا جیسا کہ آج بھی مُشاہدہ ہے کہ مدینۂ منوَّرہ (زَادَھَا اللّٰہُ شَرْفًا وَّتَعْظِیْمًا) کے (اصل) باشندے اَخلاق و عادات اور نرمئ طبیعت میں بہت اعلیٰ ہیں۔ نیز زمینِ مدینہ بلکہ دَرو دیوار میں ایک خاص مہک ہے وہاں کے خَس و خاشاک (کوڑا کرکٹ) اگرچہ گلی کوچوں میں جمع ہیں مگر بدبو نہیں دیتے، وہاں کی مٹی میں قدرتی خوشبو ہے مگر محسوس اُسے ہو جس کے دِما غ میں کفر و نفاق کا نزلہ زُکام نہ ہو۔* ([8])  

عرصہ ہوا طیبہ کی گلیوں سے وہ گزرے تھے

اس وقت بھی گلیوں میں خوشبو ہے پسینے کی

حضورِ اکرم، نورِ مجسَّم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ مُعَظَّم ہے: *وہ اسے یَثْرِبْ کہتے ہیں اور وہ تو مدینہ ہے۔* ([9]) محقق عَلَی الْاِطلاق، حضرتِ سیِّدُنا شیخ عبدُالحق محدِّثِ دِہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی فرماتے ہیں: *نبیٔ مکرَّم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے اس کا نام ’’ مدینہ ‘‘ رکھا۔ اس کی وجہ وہاں لوگوں کا رہنا سہنا اور جمع ہونا اور اس سے اُنس و مَحبت رکھنا ہے اور آپ نے اسے یَثْرِبْ کہنے سے منع فرمایا۔اس لئے کہ یہ زمانۂ جاہلیت کا نام ہے یا اس لئے کہ یہ ’’ ثربٌ ‘‘ سے بنا ہے جس کا معنیٰ ہلاکت اور فساد ہے اور ’’ تَثْرِ یْب ‘‘ بمعنیٰ سرزنِش اور مَلامَت ہے یا اس وجہ سے کہ ’’ یَثْرِبْ ‘‘ کسی بُت یا کسی جابِر و سَرکش بندے کا نام تھا۔ ‘‘* امام بخاری (عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِالْبَارِی) اپنی تاریخ میں ایک حدیث لائے ہیں کہ *’’ جو کوئی ایک مرتبہ (مدینے کو) یَثْرِبْ کہہ دے تو اسے دَس مرتبہ ’’ مدینہ ‘‘ کہنا چاہیے تاکہ اس کی تلافی اور تدارک ہو جائے۔ ‘‘* ایک دوسری روایت میں ہے کہ *’’ یَثْرِبْ کہنے والا اللہ تعالٰی سے اِستِغفار کرے اور مُعافی مانگے۔ ‘‘* اور بعض نے فرمایا ہے کہ *اس نام سے پکارنے والے کو سزا دینی چاہیے۔‘‘* (مزید فرماتے ہیں:) *حیرت کی بات ہے کہ بعض بڑے لوگوں کی زبان سے اَشعار میں لفظ ’’ یَثْرِبْ ‘‘ صادِر ہوا ہے۔* ([1])  


[3] کنزالعمال ،کتاب الفضائل ، فضائل المدینة...الخ،الجزء: ۱۲،۶/۱۰۷،حدیث: ۳۴۸۳۶ دار الکتب العلمية بیروت

[4] فیضُ القدیر، حرف المیم ،۶/۲۰۱،تحت الحدیث : ۸۷۶۰ 

[5] مشکاةُ المصابیح ،کتاب المناسک ، باب حرم المدینة...الخ ،الفصل الاول ،۱/۵۰۹،حدیث: ۲۷۳۸ دار الکتب العلمیة بیروت

[6] مرقاةُ المفاتیح ،کتاب المناسک ، باب حرم المدینة...الخ ،۵/۶۲۲،تحت الحدیث: ۲۷۳۸ دار الفكر بيروت 

[7] مرقاةُ المفاتیح ،کتاب المناسک ، باب حرم المدینة...الخ،۵/۶۲۲، تحت الحدیث: ۲۷۳۷ 

[8] مراٰۃ المناجیح ،٤/٢١٦ ضیاء القرآن پبلی کیشنز مرکز الاولیا لاہور

[1] اَشِعةُ اللَّمعات ،کتاب المناسک ، باب حرم المدینة...الخ ، الفصل الاول ،۲/۴۱۷ کوئٹه

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے