-----------------------------------------------------------
🕯سیف اللہ المسلول معین الحق شاہ فضلِ رسول قادری بدایونی رحمۃ اللہ علیہ🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*نام و نسب:*
*اسمِ گرامی:* حضرت شاہ فضلِ رسول۔
*لقب:* سیف اللہ المسلول، معین الحق ۔
حضرت شاہ آلِ احمد اچھے میاں رحمہ اللہ تعالٰی کے ارشاد کے مطابق آپ کا نام فضلِ رسول رکھا گیا ۔
*سلسلۂ نسب اسطرح ہے:* حضرت شاہ فضل ِرسول بدایونی بن عین الحق حضرت شاہ عبد المجید بد ایونی،بن شاہ عبد الحمید بدایونی۔ علیہم الرحمہ۔
آپ کاسلسلہ نسب والدِ ماجد کی طرف سے جامع القرآن حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالی عنہ تک اور والدہ ماجدہ کی طرف سے رئیس المفسرین حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما تک پہنچتا ہے۔
*تاریخ ِولادت:* آپ کی ولادت باسعادت ماہِ صفر المظفر 1213ھ، مطابق 1798ء کو بدایوں (انڈیا) میں پیدا ہوئے۔
*تحصیلِ علم:* صرف و نحو کی ابتدائی تعلیم جد امجد اور والد ماجد سے حاصل کی۔ بارہ برس کی عمر میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے پاپیادہ لکھنؤ کا سفر کیا اور فرنگی محل لکھنؤ میں بحر العلوم قدس سرہ کے جلیل القدر شاگرد مولانا نور الحق قدس سرہ (متوفی 1338ھ)کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے چار سال کے قلیل عرصے میں تمام علوم و فنون کی تکمیل کرلی۔ حکیم ببر علی موہانی رحمہ اللہ تعالٰی سے فنِ طب کی تکمیل کی۔
*بیعت و خلافت:* آپ والدِ گرامی عین الحق شاہ عبد المجید بد ایونی کےدستِ حق پرست پر بیعت ہوئے۔ انہوں نے تمام سلاسل میں اجازت و خلافت عطا فرمائی تھی۔ درگاہِ غوثیہ کے نقیب الاشراف حضرت سید علی نے آپ کو اجازت و خلافت مرحمت فرمائی۔
*سیرت و خصائص:* جامع المنقولات والمعقولات، جامع الشریعت والطریقت، امام اہلسنت، حامیِ سنت، ماحیِ بدعت، غیظ المنافقین، مہلک الوہابیین، معین الحق والدین، محسن الاسلام والمسلمین، سیف اللہ المسلول حضرت شاہ فضل رسول قادری بدایونی رحمۃ اللہ علیہ۔
آپ معقول و منقول کے امام اور شریعت و طریقت کے شیخِ کامل تھے۔ بےحساب افراد آپ سے فیض یاب ہوئے۔ آپ نے اپنے دور میں نمایاں طور پر احقاقِ حق کا فریضہ ادا کیا۔ بے شمار سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان کا تحفظ فرمایا اور لاتعداد افراد کو راہِ راست دکھائی۔ مولانا کی ذات والا صفات مرجع انام تھی، ان کے پاس کوئی علاج معالجے کے لیے آتا اور کوئی مسائلِ شریعت دریافت کرنے حاضر ہوتا۔ کوئی ظاہری علوم کی گتھیاں سلجھانے کے لیے شرفِ باریابی حاصل کرتا، تو کوئی باطنی علوم کے عقیدے حل کرانے کی غرض سے دامِن عقیدت ہوا کرتا۔
غرض وہ علم و فضل کے نیر اعظم اور شریعت و طریقت کے سنگم تھے جہاں سے علم و عرفان کے چشمے پھوٹتے تھے۔ وہ ایک شمع انجمن تھے، جن سے ہر شخص اپنے ظرف اور ضرورت کے مطابق کسبِ ضیاء کرتا تھا۔ حرمین شریفین کی زیارت سے مستفیض ہوئے، اور خوب ریاضتیں کیں: مولوی محمد رضی الدین بدایونی لکھتے ہیں:
"جو کچھ ریاضتیں آپ نے ان اماکنِ متبرکہ میں ادا فرمائیں۔ بجز قدمء اولیاء کرام کے دوسرے سے مسموع نہ ہوئیں۔ حرمین شریفین کی راہ میں پیادہ سفر اور یتیموں مسکینوں کے آرام پہنچانے میں آپ نے ہرقسم کی تکلیف گوارا کی"۔(نورنورچہرے،ص،299)
*رد وہابیہ:* حضرت شاہ فضل رسول بدایونی علیہ الرحمہ کی ساری زندگی دینِ متین کی خدمت میں گزری۔اس وقت "فتنۂ وہابیہ "نیا نیا ظاہر ہوا تھا، اور مولوی اسمعیل دہلوی کی "تفویۃ الایمان" کے ذریعے ہندوستان میں اس فرقہ ضالہ کا بیج بویا جا رہا تھا۔ وہابی خذلھم اللہ تعالی سر عام انبیاءِ کرام اور اولیاء عظام کی توہین کرتے تھے۔ اس وقت ہندوستان میں آپ ہی کی ذات گرامی تھی جس نےاس فتنےکا سدباب کیا۔ہر جگہ ان کا تعاقب کیا۔
آپ فرماتے ہیں:
"میں قطب العالم حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار مبارک میں مراقبہ کر رہا تھا۔ حالتِ مراقبہ میں دیکھا کہ حضور خواجہ صاحب رونق افروز ہیں اور دونوں دستِ مبارک میں اس قدر کتب کا انبار ہے کہ آسمان کی طرف حد نظر تک کتاب پر کتاب نظر آتی ہے۔میں نے عرض کیا کہ اس قدر تکلیف حضور نے کس لیے گوارا فرمائی ہے؟ ارشاد مبارک ہوا کہ تم یہ بار اپنے ذمے لے کر شیاطینِ وہابیہ کا قلع قمع کردو۔ آپ نے مراقبہ سے سر اٹھایا اور اسی ہفتہ میں کتاب مستطاب "بوارقِ محمدیہ" تالیف فرمائی۔"(ایضاً،203)
حضرت شاہ فضل رسول قادری علیہ الرحمہ نےمولوی اسمٰعیل دہلوی اور سید احمد بریلوی کو قریب سے دیکھا۔ ان کے عقائد اور عزائم کا بنظرِ غائر جائزہ لیا۔ ان کے طور و طریق کو بخوبی جانچا اور پھر ضمیر کی آواز کو بلاکم و کاست تحریر کردیا۔ فرماتے ہیں:
"فاحشہ رنڈیوں کی بھی پیش کش (نذر) لینے میں تامل نہ تھا، یہاں تک کہ جو فرنگیوں کے گھروں میں تھیں۔ چناں چہ بنارس کا ریذیڈنٹ اگنسن بروک نام، اس کے گھر میں ایک فاحشہ تھی، بڑی اختیار والی اور صاحبِ مقدور مرید ہوئی اور دس ہزار روپے نذر پیش کیے اور اس کے مرید ہونے سے ریذیڈنٹ نے بہت خاطرداری کی کہ سید صاحب نے اس کو اپنی بیٹی فرمایا تھا، راقم (حضرت شاہ فضل رسول) بھی وہاں موجود تھا"۔ (سیف الجبار،ص،73)
مولوی اسمٰعیل دہلوی کے بارے میں امام المحدثین کی رائے: امام المحدثین حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے تقویۃ الایمان پر اظہارِ ناراضگی فرمایا۔ حضرت مولانا شاہ محمد فاخر الہ آبادی قدس سرہٗ فرماتے تھے:
کہ جب اسماعیل دہلوی نے تقویۃ الایمان لکھی اور سارے جہان کو مشرک و کافر بنانا شروع کیا تو اس وقت حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب آنکھوں سے معذور اور بہت ضعیف ہو چکے تھے۔ افسوس کے ساتھ فرمایا: کہ میں تو بالکل ضعیف ہوگیا ہوں، آنکھوں سے بھی معذور ہوں، ورنہ اس کتاب اور اس عقیدہ فاسد کا رد بھی تحفہ اثنا عشریہ کی طرح لکھتا کہ لوگ دیکھتے۔
(نور نور چہرے،ص،311)
*ابنِ عبدالوہاب اپنوں کی نظر میں:* محمد بن عبدالوہاب نجدی کے بارے میں ان کےشیخ الاسلام مولوی حسین احمد مدنی کی رائے قابلِ ملاحظہ ہے۔لکھتے ہیں:
صاحبو! محمد بن عبدالوہاب نجدی ابتدائے تیرھویں صدی میں نجدی عرب سے ظاہر ہوا اور چونکہ خیالاتِ باطلہ اور عقائدِ فاسدہ رکھتا تھا، اس لیے اس نے اہل سنت و جماعت سے قتل و قتال کیا اور ان کو بالجبر اپنے خیالات کی تکلیف دیتا رہا۔ ان کے اموال کو غنیمت کا مال اور حلال سمجھاکیا۔ ان کے قتل کو باعثِ ثواب و رحمت شمار کرتا رہا ۔
اہل حرمین کو خصوصاً اور اہل حجاز کو عموماً اس نے تکالیفِ شاقہ پہنچائیں۔ سلفِ صالحین اور اکابرین کی شان میں نہایت گستاخی و بے ادبی کے الفاظ استعمال کیے۔ بہت سے لوگوں کو بوجہ اس کے تکالیفِ شدیدہ کے مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ چھوڑنا پڑا اور ہزاروں آدمی اس کی فوج کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔ الحاصل وہ ایک ظالم و باغی خونخوار، فاسق و فاجر شخص تھا۔ (الشہاب الثاقب،ص،50)
*دربار رسالتﷺ میں آپ کی قبولیت:* جب آپ کی عمر 77 برس ہوئی، تو آپ کے شانوں کے درمیان پشت پر زخم نمودار ہوا۔ ایک دن قاضی شمس الاسلام عباسی، جو آپ کے والد ماجد کے مرید تھے، عیادت کے لیے حاضر تھے، آپ نے فرمایا:"قاضی صاحب! بمقتضائے وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ آج آپ سے کہتا ہوں کہ میں دربارِ نبوت سے استیصالِ فرقۂ وہابیہ کے لیے مامور کیا گیا۔
الحمد اللہ! کہ فرقہ باطلہ اسمٰعیلیہ واسحاقیہ کا رد پورے طور ہوچکا، دربار نبوت میں میری یہ سعی قبول ہوچکی ، میرے دل میں اب کوئی آرزو باقی نہ رہی، میں اس دارِ فانی سے جانے والا ہوں۔
(ایضاً،ص،313)
آپ نے خدمتِ خلق، عبادت و ریاضت، درس و تدریس، وغط و تبلیغ کے مشاغل کے باوجود تصنیف و تالیف کی طرف بھی توجہ فرمائی۔ آپ نے اعتقادیات، درسیات ،طب،تصوف او ر فقہ میں قابلِ قدر کتابیں تصنف فرمائیں ہیں۔ علماء اہلسنت کو ان کتب کا لازمی مطالعہ کرنا چاہئے۔
*تاریخِ وصال:* 2/جمادی الاخریٰ 1289ھ،مطابق8/اگست1872ء، بروز جمعرات ظہر کے وقت اسمِ ذات کے ذکر خفی میں مصروف تھے کہ اچانک دو دفعہ بلند آواز سے اللہ اللہ کہا اور ساتھ ہی روح قفسِ عنصری سے اعلیٰ علیین کی طرف پرواز کر گئی۔ درگاہِ قادری (بدایوں) میں آرام گاہ ہے۔
*نوٹ!* سیف اللہ المسلول شاہ فضلِ رسول بدایونی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ فضلِ حق خیر آبادی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات قدسی صفات کی وجہ سے اہل ِباطل کے مقابلہ میں اہل ِحق (اہل ِسنت وجماعت) ماضی قریب میں "بد ایونی" اور "خیر آبادی" کے لقب سے پکارے جاتے تھے اور فی زمانہ امام اہل ِسنت مجدد دین وملت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت سے (پاک وہند میں) اہلِ حق (اہل ِسنت وجماعت) "بریلوی" کے لقب سے پکارے اور جانے جاتے ہیں۔ جیسا کہ قرونِ اولیٰ میں معتزلہ،مجسمہ وغیرہ کے مقابلہ میں اہلِ حق اپنے آپکو "اشعری" ماتریدی" کہتے تھے۔
*ماخذ و مراجع:* تذکرہ علماء اہلسنت۔ نور نور چہرے۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب📝 شمـــس تبـــریز نـــوری امجـــدی بانی گروپ فیضـــانِ دارالعـــلوم امجـــدیہ ناگپور 966551830750+📲*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں