مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

 مرشد سے مرید کی محبت کے بارے میں فرماتے ہیں 
بے ادب محروم گشت از فضل رب
کوئی کتنا ہی علامہ کیوں نہ ہو لیکن اگر اس کو اہل اللہ کی صحبت میں رہنا نصیب نہ ہو تو وہ اللہ والا نہیں بن سکتا
اور فرماتے ہیں
خاصانِ خدا خدا نہ باشند
لیکن از خدا جدا نہ باشند
خاصانِ خدا خدا نہیں ہوتے لیکن اس سے جدا بھی نہیں ہوتے
مرید جس قدر ادب کرنے والا ہوگا اسی قدر مرشد سے فیضیاب ہوگا ادب کے بغیر کامل مرشد کی صحبت و مجلس سے نہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور نہ ہی گوہر مقصود حاصل ہوتا ہے مرید کا اپنے مرشدِ کریم سےتعلق ایسا ہونا چاہیے جیسا ایک مصعوم بچے کا اپنی ماں سے تعلق ہوتا ہے اگر بچہ ماں کے دامن سے چمٹا ہوا ہو اور کوئی اسے اپنی طرف کھینچے تو وہ ماں کو اور مضبوطی سے پکڑتا ہے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ہے حتیٰ کہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اگر دامن چھوٹ جانے کا خطرہ محسوس کرتا ہے تو نگاہِ امید ماں کی طرف اُٹھا دیتا ہے بے بسی سے بھری نگاہیں ماں کو اس کی فریاد سنائیں گی پھر بھی کچھ نہ بنے تو آنکھوں سے آنسو ٹپکیں گے پھر رونا شروع کردے گا پھر گڑ گڑاناشروع کردے گا تب کیا ماں اس کے ہاتھ سے اپنا دامن جانے دیگی؟ ہرگز نہیں بلکہ اسے اپنے سینے سے لگالے گی محبت تب تک کامل نہیں ہوتی جب تک مرشد کا نامِ مبارک سن کر مزہ نہ آنے لگے دل پر کیفیت طاری نہ ہونے لگے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یاسیدی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم سے عرض کیا یاسیدی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم مجھے تین چیزیں محبوب ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کو دیکھنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کے پاس بیٹھ جانا اور اپنا مال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم پر فدا کرنا
اسی طرح کسی بزرگ نے اندازِ محبتِ خدا کی میزان محبتِ شیخ کو قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ
مرید محبتِ حق جل و علیٰ براندازہ ءِ پیر خود حاصل می شود
مرید کو حق تعالیٰ کی محبت اپنے پیر کی محبت کی مقدار سے ہی حاصل ہوتی ہے سالک کو جتنی اپنے شیخ سے محبت ہے اسی قدر اللہ تعالیٰ سے محبت ہے منازل کا طے کرنا مرشد کی توجہ اور تصرف سے وابستہ ہے اس کے بغیر کچھ نہیں بنتا -

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے