استاذ العلماء جلالۃ العلم حافظِ ملت حضرت علامہ مولانا شاہ عبد العزیز محدث مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ

📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚
-----------------------------------------------------------
🕯استاذ العلماء جلالۃ العلم حافظِ ملت حضرت علامہ مولانا شاہ عبد العزیز محدث مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

نام و نسب: نام عبد العزیز اور لقب حافظِ ملت ہے آپکے دادا مولانا عبد الرحیم نے دہلی کے مشہور محدث شاہ عبد العزیز کی نسبت سے آپ کا نام عبد العزیز رکھا تاکہ میرا یہ بچہ بھی عالم دین بنے۔ 
سلسلۂ نسب : عبدالعزیز بن حافظ غلام نور بن مولانا عبدالرحیم (رحمہم اللہ تعالیٰ)

تاریخ ِولادت: آپ ۱۳۱۲ھ بمطابق ۱۸۹۴ء قَصْبہ بھوج پور (ضلع مراد آباد، یوپی ہند ) بروز پیر صبح کے وقت پیدا ہوئے۔

تحصیلِ علم: آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والدِ ماجد حضرت حافظ محمد غلام نور اور مولانا عبدالمجىد بھوجپورى سے حاصل کی۔ کچھ عرصہ حکیم محمد شریف حیدر آبادی صاحب سے علم ِ طب پڑھا۔ اس کے علاوہ جامعہ نعیمیہ (مراد آباد) میں حضرت مولانا عبدالعزىز خان فتح پورى، حضرت مولانا اجمل شاہ سنبھلى، حضرت مولانا وَصى احمد سہسرامى اور جامعہ مُعىینہ عثمانیہ ( اجمىر شرىف) میں حضرت مولانا مفتی امتىاز احمد، حضرت مولانا حافظ سَىِّد حامد حسىن اجمىرى اور صدرُ الشرىعہ مفتی امجد على اعظمی جیسے جلیلُ القدر اساتذہ سے اکتسابِ علم کیا بالخصوص صدرُ الشریعہ کی نگاہِ فیض سے آسمانِ علم کے درخشاں ستارے بن کر چمکے۔ 

سیرت و تعلیمات: حضور حافظِ ملت ایک عظیم مفسر ومحدث ، بہترین مدرس ، مصنف، مناظر اور منتظمِ اعلیٰ تھے آپکا سب سے عظیم کارنامہ الجامعۃُ الاشرفیہ مبارک پور (ضلع اعظم گڑھ یوپی) کا قیام ہے جہاں سے فارغُ التحصیل عُلماء ہند کی سرزمین سے لیکر پوری دنیا میں دینِ اسلام کی سربلندی اور مسلکِ اعلیٰ حضرت کی ترویج و اشاعت میں مصروف ِ عمل ہیں۔ آپ وقت کے اِنتہائی پابند اور قدردان تھے ہر کام اپنے وقت پر کیا کرتے تھے۔ آپ ایک شفیق اور مہربان باپ کی طرح طلبہ کی ضروریات اور تعلیم و تربىت کے ساتھ ساتھ ان کی شخصىت کو بھی نکھارا کرتے تھے۔
چنانچہ رئىسُ القلم حضرت علامہ ارشدُ القادرى فرماتے ہیں!استاذ شاگرد کا تعلق عام طور پر حلقۂ درس تک محدود ہوتا ہے ۔لیکن اپنے تلامذہ کے ساتھ حافظِ ملت کے تعلُّقات کا دائرہ اتنا وسىع ہے کہ پورى درسگاہ اس کے ایک گوشے مىں سماجائے، یہ انہى کے قلب و نظر کى بے اِنْتہا وُسعت اور انہى کے جگر کا بے پایا حوصلہ تھا کہ اپنے حلقہ درس میں داخل ہونے والے طالب علم کى بےشمار ذِمہ داریاں وہ اپنے سَر لیتے تھے، طالبِ علم درس گاہ میں بیٹھے تو کتاب پڑھائیں، باہر رہے تو اخلاق و کردار کى نگرانى کریں، مجلسِ خاص میں شریک ہو تو ایک عالمِ دین کے محاسن و اوصاف سے روشناس فرمائیں، بیمار پڑے تو اس کا علاج کریں، تنگدستى کا شکار ہوجائے تو مالى کفالت فرمائیں، پڑھ کر فارغ ہو تو ملازمت دلوائیں ، طالبِ علم کى نجى زندگى ، شادى بیاہ، دُکھ سُکھ سے لے کر خاندان تک کے مسائل حل کرنے میں توجہ فرمائیں، طالب علم زیرِ درس رہے یا فارغ ہو کر چلا جائے ایک باپ کى طرح ہر حال میں سرپرست اور کفیل ، یہى ہے وہ جوہرِ مُنفرد جس نے حافظِ ملت کو اپنے اَقْران و مُعاصرىن کے درمیان ایک معمارِ زندگى کى حیثیت سے ممتاز اور نمایاں کر دیا ہے۔

صدرالشریعہ مفتی امجد علی اَعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں! میری زندگی میں دوہی باذوق پڑھنے والے ملے ایک مولوی سردار احمد (یعنی محدّثِ اعظم پاکستان) اور دوسرے حافظ عبد العزیز (یعنی حافظِ ملت مولانا شاہ عبد العزیز)
(علیہم الرحمہ رحمۃ ً وّاسعۃ) 

وصال: یکم جمادی الثانی ۱۳۹۶ھ بمطابق ۳۱مئی۱۹۷۶ء رات گیارہ بج کر پچپن منٹ پر وصال ہوا۔ آپ کی آخری آرام گاہ الجامعۃ ُالاشرفیہ مُبارکپور کے صحن میں "قدیم دارُالاِقامۃ " کے مغربی میں واقع ہے۔

جس نے پیدا کیے کتنے لعل و گہر
حافظِ دین وملت پہ لاکھوں سلام

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب📝 شمـــس تبـــریز نـــوری امجـــدی 966551830750+📲
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے