Header Ads

حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی مختصر سوانح

حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی مختصر سوانح
✍محمد ابوہریرہ رضوی مصباحی. رام گڑھ (جھارکھنڈ )

یہ بزم گیتی ہردور میں ایسی باکمال ہستیوں سے معمور رہی ہے جن کا وجود اسلام اور مسلمین کےلیے رحمت الٰہی کا سرچشمہ رہا ہے. انھیں نفوس قدسیہ میں ایک عظیم المرتبت اور تاریخ ساز شخصیت کا نام، جلالۃ العلم حضور حافظ ملت علامہ شاہ عبدالعزیز محدث مبارک پوری علیہ الرحمہ کی ذات ہے. 
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی ولادت بروز دوشنبہ 1313ھ/1894ء کوضلع مرادآباد اترپردیش کے موضع بھوج پور میں ہوئی. 

تعیلم کی ابتدا 
 ابتدائی تعلیم گاؤں کے اسکول میں حاصل کی. والد ماجد کی نگرانی میں حفظ قرآن کی تکمیل کی، فارسی اور عربی کی ابتدائی کتب جناب عبدالمجيد سے بھوج پوری سے پڑھنے کے بعد جامعہ نعیمہ مرادا آباد میں داخلہ لیا، وہاں متوسطات پڑھیں، تین سال یہاں رہے. پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے شوال 1342ھ میں دارالعلوم معینیہ اجمیر شریف تشریف لے گئے جہاں آپ انتہائی محنت ولگن کے ساتھ حضرت صدرالشریعہ ودیگر استاذہء ذوی الاحترام کی بار گاہ فیض میں اکتساب علم کرتے رہے. اور پھر حضور صدرالشریعہ کی معیت میں بریلی شریف تشریف لا ئے اور 1351ھ میں دارالعلوم منظر اسلام سے دستارِ فضیلت سے نوازے گئے.
درس و تدریس
29شوال 1353ھ میں اپنے استاذ گرامی حضرت صدرالشریعہ علیہ الرحمہ کے حکم پر مبارک پور بحیثیت صدر مدرس تشریف لائے. پوری دل جمعی کے ساتھ میدان عمل کے اس دشوار ترین سفر کو جاری رکھا، اس چھوٹے سے مدرسے کو جہاں معیار تعلیم فارسی، نحومیر، پنج گنج تک تھا. آپ کے آنے کے بعد، آپ کے طرز تدریس سے اس مدرسہ کی شہرت ہوگئ، لہٰذا طالبان علوم نبویہ کی ایک بڑی تعداد یہاں آگئ. جس کی وجہ سے مدرسہ میں جگہ کم پڑگئ. تو آپ نے 1353ھ دارالعلوم اشرفیہ مصباح العلوم کی بنیاد رکھی. جس کا سنگ بنیاد حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی میاں اور حضور صدرالشریعہ علیہما الرحمہ کے مقدس ہاتھوں رکھا گیا. 
لیکن جب دارالعلوم کی یہ عمارت بھی اپنی تنگ دامنی کا شکوہ کرنےلگی تو قصبہ مبارک پور سے باہر ایک وسیع و عریض خطہء زمین، ایک شہرستان علم بسانے کے لیے حاصل کی گئی اور مئ 1972ء/ربیع الاول 1352ھ میں حضور مفتی اعظم ہند ودیگر علما و مشائخ کے ہاتھوں اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور اس کا مختصر نام"الجامعۃ الاشرفیہ" تجویز فرمایا.

حافظ ملت کا فیضان
تعلمی میدان میں مسلمانوں کی پسماندگی نے بھی حافظ ملت کو تڑپا دیا تھا، آپ نے دیکھا کہ مسلمان دنیوی تعلیم میں تو پیش قدمی کر رہے ہیں لیکن دینی تعلیم سے بالکل بے توجہی برت رہے ہیں جو ان کی عاقبت و آخرت کے لیے نقصان دہ ہے، اس کمی کو پورا کرنے کے لیے آپ نے مسلمانوں کی دستگیری فرمائی اور "جامعہ اشرفیہ" کی شکل میں وہ عظیم سرمایہ قوم کو عطا کیا جو اس وقت پورے ہندوستان ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کی ایک مرکزی درس گاہ ہے. حضور حافظ ملت کا فیضان علمی آج پورے ہندوستان ہی نہیں پورے عالم پر محیط ہے. دنیا کے گوشے گوشے میں فاضلین اشرفیہ اسلام کی بیش بہا خدمات انجام دے رہے ہیں.

تصنیفی کارنامے
جہاں آپ نے تعمیری کام میں نمایاں مقام حاصل کیا ہے وہیں تحریر ی خدمات بھی آپ کے پیش نظر تھی.
مندرجہ ذیل کتابیں آپ نے اصلاح امت کی خاطر تصنیف فرمائیں : ارشاد القرآن،معارف حدیث، الإرشاد، انباء الغیب، المصباح الجديد، فرقۂ ناجیہ، فتاویٰ حافظ ملت.
وصال پرملال
 یکم جمادی الآخرہ 1396ھ/ 31مئ 1976ء بروز دوشنبہ رات گیارہ بج کر پچپن منٹ پر یہ آسمان علم و فضل دنیا سے رخصت ہو گیا.
انا للہ وانا الیہ راجعون.

جس نے پیدا کیے کتنے لعل وگہر 
حافظ دین و ملت پہ لاکھوں سلام

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

اپنا کمینٹ یہاں لکھیں