-----------------------------------------------------------
حضرت فقیہ ابواللیث سمرقندی رحمۃ اللہ علیہ
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*نام و نسب:*
*اسمِ گرامی:* نصر بن محمد۔
*کنیت:* ابواللیث۔
*لقب:* الفقیہ الحنفی، اور امام الھدیٰ ہے۔
فقیہ ابواللیث سمرقندی سے ہی معروف عام و خاص ہیں۔
*سلسلہ نسب اسطرح ہے:* فقیہ ابواللیث نصر بن محمدبن احمد بن ابراہیم ۔علیہم الرحمہ۔آپ کے والد اپنے وقت کے عظیم فقیہ تھے۔
*تاریخ ِولادت:* امام ابواللیث سمرقندی علیہ الرحمہ ازبکستان کے مشہور شہر "سمرقند" میں پیدا ہوئے۔
*تحصیل علم:* آپ نے کئی جید اساتذہ و مشائخ سے علمی استفادہ کیا۔ جن سے سب سے زیادہ علمی استفادہ کیا۔ ان کے نام یہ ہیں:
محمد بن ابراہیم التوزی، والدِ گرامی۔ فقیہ ابو جعفر الہندوانی۔ مفسر و محقق محمد بن الفضل بلخی۔ خلیل بن احمد قاضی۔ علیہم الرحمہ۔
*سیرت و خصائص:* فخر الاحناف، فقیہ الاحناف، امام الہدیٰ، فقیہِ اعظم، محدث جلیل، مفسرِ کبیر، فاضلِ عظیم، حضرت ابواللیث نصربن محمد سمرقندی رحمۃ اللہ علیہ۔
آپ کا شمار فقہِ حنفی کے عظیم فقہاء میں ہوتا ہے۔ آپ کی کتب اور اقوال کی اہمیت ہر زمانے میں مسلم رہی ہے۔ آپ کی شہرت و عظمت کا اہم سبب آپ کا تصوف و علم الاخلاق کی طرف رجحان تھا۔ اسی طرح علم و فقاہت کے ساتھ زہد و تقویٰ اور طہارت نے آپ کی عظمت کو چار چاند لگا دئے۔
صاحبِ حدائق الحنفیہ فرماتے ہیں: علمائے بلخ میں سے امام کبیر فاضل بے نظیر فقیہ جلیل القدر محدث وحید العصر زاہد متورع۔ ایک لاکھ حدیثیں یاد تھیں۔ کتبِ امام محمد و امام وکیع و عبد اللہ بن مبارک اور امام ابو یوسف وغیرہ آپ کو حفظ تھیں۔ آپ نے قرآن شریف کی تفسیر چار جلدوں میں اور کتاب نوادر الفقہ و خزانۃ الفقہ و تنبیہ الغافلین و بستان الغافلین و بستان العارفین و شرح جامع صغیر و تاسیس النظائر و مختلف الروایۃ و نوازل و عیون اور مختلف فتاویٰ وغیرہ تصنیف کیے۔
آپ کا قول تھا کہ قیامت کےدن میرے نامہ ٔاعمال میں سے فضول کوئی چیز نہیں نکلے گی، اور میں نے جب سے دائیں ہاتھ کو بائیں سے پہچانا ہے، (جب سے ہوش سنبھالا ہے) جھوٹ نہیں بولا اور نہ کسی کے ساتھ برائی کا اس قدر بھی ارادہ کیا ہے کہ جس قدر جانور اپنے سر کو پانی میں مارتا ہے اور پھر اٹھا لیتا ہے۔
آپ کہتے تھے کہ جو شخص علم کلام کے ساتھ مشغول ہوا اس کا نام زمرۂ علماء سے محو کر دینا چاہئے،(جس کامطلب شہرت و دنیاوی منفعت ہو۔) آپ کے زہد و ورع کا اندازہ اس واقعہ سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے۔
منقول ہے: کہ ایک دفعہ آپ تجارت کی غرض سے روانہ ہوئے، راستے میں رہزنوں نے آپ کے قافلے کو لوٹ لیا۔ جب انہوں نے سامان کے بورے کھولے تو کئی بورے ایسے پائے جن میں صرف ڈھیلے بھرے ہوئے تھے۔ رہزن اس بات پر بڑے حیران ہوئے اور اہل قافلہ سے اس امر کو دریافت کیا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟
انہوں نے کہا: شیخ ابو اللیث سے پوچھو۔ کیونکہ یہ مٹی کے ڈھیلے انھوں نے ہی ڈالے تھے۔ جب چوروں نے آپ سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: یہ ڈھیلے ہم نے استنجاء کے لئے اپنی مملوکہ زمین سے لادے ہیں تاکہ غیر کی زمین سے استنجاء کے لیے ڈھیلا نہ اٹھانا پڑے۔ رہزنوں کو یہ بات سن کر بڑا خوف پیدا ہوا اور سب نے تائب ہو کر قافلہ کا مال واپس کردیا، اور متقی و پرہیزگار بن گئے۔
شیخ ابواللیث سمرقندی علیہ الرحمہ نے کئی مفید اور یادگار کتب بطورِ صدقہ جاریہ چھوڑی ہیں۔
*تاریخِ وصال:* آپ کا وصال 11 جمادی الاخریٰ 373ھ، مطابق 18/نومبر 983ء، بروز منگل ہوا۔ قبر سمرقند میں مرجعِ خلائق ہے۔
سمرقند کے لوگوں نے آپ کی وفات کے افسوس میں ایک ماہ تک دکانیں نہ کھولیں اور ان کا ارادہ تھا کہ اور ایک ماہ نہ کھولیں گے مگر حاکم نے ان کو سمجھا کر کھلوادیئے۔
*ماخذ و مراجع:* حدائق الحنفیہ۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ محــمد یـوسـف رضــا رضــوی امجــدی
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں