السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ میری بیوی کہتی ہے کہ اسلام نے ساس کی خدمت کرنے کا نہیں کہا ہے اور میں ساس کی خدمت صرف اس لیے کرتی ہوں کہ آپ میرے خاوند ہیں اور آپ کا کہا مجھے ماننا ہوتا ہے اور اسلام نے صرف خاوند کی خدمت کرنے کا کہا ہے۔ برائے مہربانی مجھے قرآن وحدیث کی روشنی میں بتا دیں کہ اس بات میں کتنی سچائی ہے؟

السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ میری بیوی کہتی ہے کہ اسلام نے ساس کی خدمت کرنے کا نہیں کہا ہے اور میں ساس کی خدمت صرف اس لیے کرتی ہوں کہ آپ میرے خاوند ہیں اور آپ کا کہا مجھے ماننا ہوتا ہے اور اسلام نے صرف خاوند کی خدمت کرنے کا کہا ہے۔ برائے مہربانی مجھے قرآن وحدیث کی روشنی میں بتا دیں کہ اس بات میں کتنی سچائی ہے؟

سائل: وحید خالدمقام: کویت

جواب:

یہ تو درست ہے کہ شرعا اور قانونا بہو پر ساس کی خدمت لازمی نہیں ہے، لیکن اخلاقی طور پر اگر وہ اپنی ساس کی خدمت کرے تو اس کے لیے بہتر اور باعث اجر ہو گا۔ اگر میاں بیوی ایک دوسرے کے والدین کا ادب واحترام کریں تو دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کا عزت واحترام بڑھتا ہے۔ زندگی کو جنت بنانے کا بہترین طریقہ ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کو اپنے والدین کی طرح سمجھیں، کوئی فرق نہ کریں تو ہزاروں مسائل جو آجکل کافی گھروں میں چل رہے ہیں حل ہو سکتے ہیں۔ گھروں میں لڑائی جھگڑوں کی زیادہ وجوہات جو ہماری پاس آتی ہیں، وہ یہی ہیں کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے والدین کو اپنے والدین کی طرح نہیں سمجھتے ہیں، جس کی بنا پر ایک دوسرے میں نفرتیں جنم لیتی ہیں اور یہ معاملات بڑھتے بڑھتے بعض اوقات میاں بیوی میں علیحدگی کا سبب بن جاتے ہیں۔ اس لیے ہمارا مشورہ یہی ہے کہ ایک دوسرے کے والدین کی خدمت کو اپنا اخلاقی فرض سمجھیں، پھر دیکھیں زندگی کتنی خوشگوار گزرتی ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے