•┈┈❍﷽❍┈┈•
⏰وقتی طور پر شادی کرنا کیسا ہے⏰
📿السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ📿
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ہٰذا میں کہ👇
اس طور پہ نکاح کرنا کیسا ہے کہ
کسی عورت سے نکاح کیا کہ اتنے دنو کے بعد طلاق دے دونگا یا اپنے ذہن میں کوئ مدت ٹھہرا لی کہ اتنے دنوں تک کے لئے نکاح کرتا ہوں مگر زبان سے کچھ نہ کہا تو کیا یہ نکاح دروست ہے
💢قرآن و احادیث کی روشنی میں مفصل جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی
💢سائل💢 ذوالفقار بہار
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
📝الجواب بعون الملک الوہاب ⇩
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
🕹وقتی طور پر شادی کرنے کو شریعت مطہرہ میں نکاح متعہ کہتے ہیں یہ ناجائز و حرام اور گناہ ہے اور وہ یہ ہے کہ کوئی شخص کسی عورت سے کچھ معین وقت کے لیے کسی چیز یا کچھ مال کے عوض شادی کر لے،اسلام کے ابتدائی اوائل میں جس طرح شراب جائز تھی، گدھے کا گوشت حلال تھا اسی طرح نکاح متعہ کی بھی ضرورت کے حساب سے اجازت دی گئی تھی اور یہ اجازت صرف اور صرف فتح خیبر اور فتح مکہ مکرمہ کے زمانہ تک جائز تھی مگر چند سال بعد میں حضور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زبان مبارکہ سے ہی اسکو قیامت تک کے لیے حرام قرار دے دیا اس کے متعلق دلائل درج ذیل ہیں👇
🕹نکاحِ متعہ کے حرام ہونے پر قرآن و حدیث سے دلائل
👑اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ ھمْ لِفُرُوْجِہِمْ حَافِظُوْنَ ٭ اِلَّا عَلٰٓی أَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ ٭ فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآئَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْعَادُوْنَ ٭}
📗✒(سورہ المؤمنون ،آئیت،5,6,7)
ترجمہ: اور وہ لوگ (مؤمن ہیں)،جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، سوائے اپنی بیویوں اور اپنی لونڈیوں کے۔ایسے لوگ ملامت نہیں کیے جائیں گے۔لیکن جو لوگ اس کے علاوہ کچھ تلاش کریں،وہ زیادتی کے مرتکب ہیں۔‘‘
*معلوم ہوا کہ بیوی اور لونڈی کے علاوہ کسی سے جنسی تعلق رکھنا جائز نہیں، جس عورت سے متعہ کیا جاتا ہے، وہ مرد کی نہ بیوی ہوتی ہے نہ لونڈی،لہٰذا متعہ حرام ہے*
ام المومنین،سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ابن ابو ملیکہ رحمہ اللہ نے متعہ کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے ارشاد فرمایا :
بَیْنِي وَبَیْنَکُمْ کِتَابُ اللّٰہِ، قَالَ : وَقَرَأَتْ ہٰذِہِ الْـآیَۃَ :
{وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حَافِظُوْنَ ٭} ۔۔۔۔
’’میرے اور تمہارے مابین اللہ کی کتاب سے فیصلہ ہو گا۔انہوں نے یہ آیت ِکریمہ تلاوت فرمائی :وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حَافِظُوْنَ الاخ
📗✒الناسخ والمنسوخ للقاسم بن سلّام 131،
📗✒مسند الحارث بغیۃ الباحث 479،
📗✒السنن الکبرٰی للبیہقي : 206/7، 207، وسندہٗ صحیحٌ
🍁امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ہٰذَا حَدِیثٌ صَحِیحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّیْخَیْنِ ۔
’’یہ حدیث امام بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔‘‘
📗✒المستدرک ج 2 ص 393/305
🍁حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ان کی موافقت کی ہے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو کر جہاد کیا کرتے تھے اور ہمارے ساتھ ہماری بیویاں نہیں ہوتی تھیں۔ اس پر ہم نے عرض کیا کہ ہم اپنے آپ کو خصی کیوں نہ کر لیں۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے روک دیا اور اس کے بعد ہمیں اس کی اجازت دی کہ ہم کسی عورت سے کپڑے ( یا کسی بھی چیز ) کے بدلے میں نکاح( متعہ )کر سکتے ہیں۔
📗✒صحیح بخاری،حدیث نمبر 4615، 5075
🍁سبرہ بن معبد جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع میں نکلے، تو لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! عورت کے بغیر رہنا ہمیں گراں گزر رہا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان عورتوں سے متعہ کر لو ، ہم ان عورتوں کے پاس گئے وہ نہیں مانیں، اور کہنے لگیں کہ ہم سے ایک معین مدت تک کے لیے نکاح کرو، لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے اور ان کے درمیان ایک مدت مقرر کر لو چنانچہ میں اور میرا ایک چچا زاد بھائی دونوں چلے، اس کے پاس ایک چادر تھی، اور میرے پاس بھی ایک چادر تھی، لیکن اس کی چادر میری چادر سے اچھی تھی، اور میں اس کی نسبت زیادہ جوان تھا، پھر ہم دونوں ایک عورت کے پاس آئے تو اس نے کہا: چادر تو چادر کی ہی طرح ہے ( پھر وہ میری طرف مائل ہو گئی ) چنانچہ میں نے اس سے نکاح ( متعہ ) کر لیا، اور اس رات اسی کے پاس رہا، صبح کو میں آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکن ( حجر اسود ) اور باب کعبہ کے درمیان کھڑے فرما رہے تھے: اے لوگو! میں نے تم کو متعہ کی اجازت دی تھی لیکن سن لو! اللہ نے اس کو قیامت تک کے لیے حرام قرار دے دیا ہے، اب جس کے پاس متعہ والی عورتوں میں سے کوئی عورت ہو تو اس کو چھوڑ دے، اور جو کچھ اس کو دے چکا ہے اسے واپس نہ لے،
📗✒سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-1962
📗✒سنن نسائی حدیث نمبر-3368
🍁سبرہ جہنی نے حدیث سنائی کہ ان کے والد نے انہیں حدیث بیان کی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لوگو! بےشک میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی ، اور بلاشبہ اب اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت کے دن تک کے لیے حرام کر دیا ہے ، اس لیے جس کسی کے پاس ان عورتوں میں سے کوئی ( عورت موجود ) ہو تو وہ اس کا راستہ چھوڑ دے ، اور جو کچھ تم لوگوں نے انہیں دیا ہے اس میں سے کوئی چیز ( واپس ) مت لو۔
📗✒صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب متعہ حدیث نمبر-1406
🍁حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی فتح کے وقت عورتوں سے متعہ کرنے سے اور گھریلو گدھوں کے گوشت کھانے سے منع فرمایا
📗✒صحیح بخاری حدیث نمبر 4216، 5115
🍁سنن ترمذی میں حضرت علی رض کی اسی حدیث کے نیچے امام ترمذی کہتے ہیں:(1)علی رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، (2) اس باب میں سبرہ جہنی اور ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں، (3) صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے، البتہ ابن عباس سے کسی قدر متعہ کی اجازت بھی روایت کی گئی ہے، پھر انہوں نے اس سے رجوع کر لیا جب انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس کی خبر دی گئی۔ اکثر اہل علم کا معاملہ متعہ کی حرمت کا ہے، یہی ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔
📗✒سنن ترمذی حدیث نمبر-1121
🍁ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نکلے تو ثنیۃ الوداع میں پڑاؤ کیا۔ (وہاں) تو چراغ دیکھے، اور کچھ عورتوں کے رونے کی آواز سنی، آپ نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ وہ عورتیں ہیں جن سے ان کے شوہروں نے متعہ کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ختم ہے، یا فرمایا: نکاح، طلاق، عدت اور وراثت نے متع کو حرام کردیا ہے۔
📗✒سلسلہ الصحیحہ،حدیث نمبر 2402
📗✒صحیح ابن حبان حدیث نمبر- 4223
🍁ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے، تو انہوں نے خطبہ دیا اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کو تین بار متعہ کی اجازت دی پھر اسے حرام قرار دیا، قسم ہے اللہ کی اگر میں کسی کے بارے میں جانوں گا کہ وہ شادی شدہ ہوتے ہوئے متعہ کرتا ہے تو میں اسے پتھروں سے رجم کر دوں گا، مگر یہ کہ وہ چار گواہ لائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (متعہ کو) حرام قرار دینے کے بعد حلال کیا تھا۔
📗✒سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-1963
🍁حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما عورتوں کے متعہ میں کوئی حرج نہیں سمجھتے، تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی لڑائی کے موقع پر متعہ سے اور پالتو گدھوں کے گوشت سے منع کر دیا تھا،
📗✒صحیح بخاری حدیث نمبر-6961
🍁’ایک آدمی نے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے متعہ کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے فرمایا : یہ حرام ہے۔اس نے کہا : فلاں شخص اس کے جواز کا قائل ہے، تو فرمایا : اللہ کی قسم ! یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ غزوۂ خیبر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام قرار دے دیا تھا۔ ہم زناکار نہیں۔‘
📗✒‘المؤطّأ لابن وہب : 249،
📗✒صحیح أبي عوانۃ : 29/3،
📗✒شرح معاني الآثار للطحاوي 25/3،
📗✒ السنن الکبرٰی للبیہقي : 207/7، وسندہٗ صحیحٌ
🍁شارح مسلم شریف حضرت محی الدین ابو ذکریا یحی بن شریف النووی تحریر فرماتے ہیں کہ
والصواب المختار أن التحريم والإباحة كانا مرتين، و كانت حلالا قبل خيبر، ثم حرمت يوم خیبر، ثم أبيـحـت يـوم فتح مكة و هو يوم أوطاس، لاتصالهما، ثم حرمت يومئذ بعد ثلاثة ایام تحريما موبدا الی يوم القيامة، واستمر التحریم.......... قال القاضي: واتفق العلماء على ان هذه المتعة کانت الی اجل لا میراث فيها، وفراقها يحصل بانقضاء الاجل من غير طلاق، و وقع الاجماع بعد ذالك على تحريمها من جميع العلماء الا الروافض
یعنی درست اور مذہب مختار یہی ہے کہ تحریم واباحت دومرتبہ واقع ہوئی ۔ خیبر سے پہلے متعہ حلال تھا، پھر خیبر کے دن حرام قرار دے دیا گیا۔ پھر مکہ کے دن مباح کیا گیا، اور یہ یوم اوطاس ہے، ان دونوں ایام کے اتصال کی وجہ سے ۔ پھر
تین دن کے بعد ہمیشہ ہمیش کے لئے قیامت تک حرام کردیا گیا اور یہ تحریم برابر قائم رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔قاضی نے کہا علماء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ یہ متعہ موقتی نکاح ہے اس میں وراثت جاری نہیں ہوتی مدت کے ختم ہوتے ہی جدائی بغیر طلاق کے حاصل ہوجاتی تھی اس کے بعد اس کی حرمت پر تمام علماء کا اجماع واقع ہوگیا سوائے رافضیوں کے
📗✒کتاب النکاح ص 450
🕹اور امت ِمسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ شریعت مطہرہ میں نکاحِ متعہ قیامت تک حرام ہو چکا ہے، جیسا کہ :
🍁مجمع الانھر میں ہے
واعلم أن نكاح المتعة قد كان مباحا بين أيام خير وأيام فتح مكة الا أنه صار منسوخا باجماع الصحابة رضى اللہ تعالی عنهم حتی لوقضى بجوازه لم يجز ولو أباحه صار كافرا كما في المضمرات یعنی جاننا چاہیے کہ نکاح متعہ فتح خیبر اور فتح مکہ کے زمانہ تک جائز تھا لیکن وہ اجماع صحابہ رضی اللہ تعالی عنھم سے منسوخ ہوگیا یہاں تک کہ اگر آج اس کے جواز کا فیصلہ بھی کر لیا جائے تو جائز نہیں ہو سکتا اور اگر کوئی اسے مباح جانے تو کافر ہوجائے گا ایسا ہی مضمرات میں ہے
📗✒مجمع الانھر استنبول ج1ص 166
🍁امام ابو عُبَیْد،قاسم بن سلام رحمہ اللہ (224-150ھ)فرماتے ہیں :
فَالْمُسْلِمُونَ الْیَوْمَ مُجْمِعُونَ عَلٰی ہٰذَا الْقَوْلِ : إِنَّ مُتْعَۃَ النِّسَائِ قَدْ نُسِخَتْ بِالتَّحْرِیمِ، ثُمَّ نَسَخَہَا الْکِتَابُ وَالسُّنَّۃُ ۔۔۔، وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا مِّنَ الصَّحَابَۃِ کَانَ یَتَرَخَّصُ فِیہَا، إِلَّا مَا کَانَ مِنَ ابْنِ عَبَّاسٍ، فَإِنَّہٗ کَانَ ذٰلِکَ مَعْرُوفًا مِّنْ رَّأْیِہٖ، ثُمَّ بَلَغَنَا أَنَّہٗ رَجَعَ عَنْہُ ۔یعنی ’آج مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ عورتوں سے نکاحِ متعہ کو منسوخ کر کے حرام کر دیا گیا ہے۔کتاب و سنت نے اسے منسوخ کیا ہے۔کوئی ایک بھی ایسے صحابی معلوم نہیں ہوئے، جو نکاحِ متعہ کی رخصت دیتے ہوں،سوائے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے کہ اس کے جواز پر ان کا مشہور فتویٰ تھا۔پھر ہم تک یہ بات بھی پہنچ گئی کہ (حق معلوم ہونے پر)انہوں نے اپنے اس فتوے سے رجوع فرما لیا تھا۔‘‘
📗✒الناسخ والمنسوخ، ص : 80
🍁امام ابو عبید رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں :وَأَمَّا قَوْلُ أَہْلِ الْعِلْمِ الْیَوْمَ جَمِیعًا، مِّنْ أَہْلِ الْعِرَاقِ، وَأَہْلِ الْحِجَازِ، وَأَہْلِ الشَّامِ، وَأَصْحَابِ الْـأَثَرِ، وَأَصْحَابِ الرَّأْيِ، وَغَیْرِہِمْ، أَنَّہٗ لَا رُخْصَۃَ فِیہَا لِمُضْطَرٍّ وَّلَا لِغَیْرِہٖ، وَأَنَّہَا مَنْسُوخَۃٌ حَرَامٌ، عَلٰی مَا ذَکَرْنَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِہٖ یعنی اس دور میں اہل عراق،اہل حجاز اور اہل شام،نیز اصحاب الحدیث واصحاب الرائے وغیرہ سب اہل علم کا اتفاقی فتویٰ یہی ہے کہ کسی کو کوئی مجبوری ہو یانہ ہو،نکاحِ متعہ کی اجازت نہیں،نیز یہ منسوخ اور حرام ہے،جیسا کہ ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام] سے ثابت کر دیا ہے۔‘‘
📗✒الناسخ والمنسوخ، ص : 82
حافظ ابو محمد،حسین بن مسعود،بغوی رحمہ اللّٰہ (م : 516ھ)فرماتے ہیں :
اِتَّفَقَ الْعُلَمَائُ عَلٰی تَحْرِیمِ نِکَاحِ الْمُتْعَۃِ، وَہُوَ کَالْإِجْمَاعِ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ یعنی علماء کرام کا نکاحِ متعہ کو حرام قرار دینے پر اتفاق ہے۔یہ مسلمانوں کا ایک اجماع ہی ہے۔‘‘
📗✒شرح السنّۃ ج 9 ص 100
🍁حافظ،عبد الرحمن بن علی،ابن الجوزی رحمہ اللہ (579-508ھ)فرماتے ہیں :
فَقَدْ وَقَعَ الْإِتِّفَاقُ عَلَی النَّسْخِ یعنی نکاحِ متعہ کے منسوخ ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔
📗✒کشف المشکل من حدیث الصحیحین ج 1 ص 146
🍁مشہور مفسر،ابو عبد اللہ،محمد بن احمد،قرطبی رحمہ اللہ (671-600ھ) فرماتے ہیں : فَانْعَقَدَ الْإِجْمَاعُ عَلٰی تَحْرِیمِہَا ۔یعنی نکاحِ متعہ کو حرام قرار دینے پر مسلمانوں کا اجماع ہو گیا ہے۔‘‘
📗✒تفسیر القرطبي ج 5 ص 133
🍁امام،ابو جعفر،احمد بن محمد بن سلامہ طحاوی رحمہ اللہ (321-238ھ)فرماتے ہیں: فَہٰذَا عُمَرُ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ نَہٰی عَنْ مُّتْعَۃِ النِّسَائِ، بِحَضْرَۃِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ یُنْکِرْ ذٰلِکَ عَلَیْہِ مِنْہُمْ مُّنْکِرٌ، وَفِي ہٰذَا دَلِیلٌ عَلٰی مُتَابَعَتِہِمْ لَہٗ عَلٰی مَا نَہٰی عَنْہُ مِنْ ذٰلِکَ، وَفِي إِجْمَاعِہِمْ عَلَی النَّہْيِ فِي ذٰلِکَ عَنْہَا دَلِیلٌ عَلٰی نَسْخِہَا، وَحُجَّۃٌ یعنی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کی موجودگی میں عورتوں سے متعہ کرنے سے منع فرمایا۔ان میں سے کسی ایک نے بھی اس پر اعتراض نہیں کیا۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سب صحابہ کرام متعہ سے منع کرنے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ہمنوا تھے۔ صحابہ کرام] کا یہ اجماع متعہ کے منسوخ ہونے کی دلیل و برہان ہے۔‘‘
📗✒شرح معاني الآثار ج 3 ص 23
🕹مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم کہ نکاح متعہ قیامت تک کے لیے حرام ہے
واضح رہے کہ ہمارے پیارے رسول،محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت ایک مکمل اور کامل ضابطہ حیات ہے۔ اس میں تاقیامت تبدیلی کی گنجائش نہیں،کیونکہ انسانیت کے مختلف ادوار اور مختلف حالات میں جو قوانین متغیر رہے تھے،اسلام نے ان کو مستقل کر دیا ہے۔نزولِ وحی کے زمانے سے لے کر قیامت تک کے لیے ایک ٹھوس دستور ِزندگی عطا فرما دیا گیا۔یہ کمال ہی کا تقاضا تھا کہ صرف افراد کو نہیں،بلکہ معاشرے کو بھی مدنظر رکھ کر قوانین مرتب کر دیے گئے۔ جن کاموں سے معاشرے میں خرابی واقع ہوتی تھی،ان کو بتدریج حرام کر دیا گیا۔شراب کی مثال لے لیں کہ کس طرح غیر محسوس انداز سے مسلمان معاشرے کو اس سے پاک کیا گیا۔ پہلے نمازوں کے اوقات میں نشہ نہ کرنے کا حکم فرما کر مسلمانوں سے اس کی لَت ختم کی،پھر اس کے فوائد کی نسبت اس کی خرابیوں کے زیادہ ہونے کا بتا کر اس سے عمومی نفرت کا رجحان پیدا کیا اور آخر میں اسے مستقل طور پر حرام قرار دے دیا گیا۔نکاحِ متعہ بھی انہی چیزوں میں سے ہے،جنہیں اسلام نے اصلاحِ معاشرہ کی خاطر ابدی طور پر حرام قرار دے دیا ہے۔جیسے شراب کی حرمت نازل ہونے سے پہلے عہد ِ رسالت میں شراب پی جاتی رہی، اسی طرح تدریجی حکمت ِعملی کے تحت عہد نبوی میں نکاحِ متعہ بھی ایک وقت تک جائز رہا،لیکن پھر اسے قیامت تک کے لیے حرام قرار دے دیا گیا اور اس کی جگہ شرعی نکاح ہی کو حتمی اور لازمی اصول بنا دیا گیا۔
اب جس طرح کسی مسلمان کا شراب کی حرمت سے پہلے تک کے عہد ِرسالت میں صحابہ کرام کے شراب پینے کے واقعات کو دلیل بنا کر شراب کو حلال قرار دینا جائز نہیں،اسی طرح کسی مسلمان کے لیے یہ بھی جائز نہیں کہ وہ حرمت ِ متعہ سے پہلے پیش آنے والے عہد ِنبوی کے واقعات کو دلیل بناتے ہوئے اب بھی نکاحِ متعہ کے جواز پر اصرار کرے۔
نکاحِ متعہ کے فرد اور معاشرے پر نہایت مضر اثرات تھے،جن کی بنا پر اسے قیامت تک کے لیے حرام کر دیا گیا۔اس کے مقابلے میں شرعی نکاح کو رائج کیا گیا،جو مفاسد سے بالکل خالی اور فرد و معاشرے کے لیے بے شمار فوائد کا حامل ہے۔ شرعی نکاح کا اہم مقصد عفت و عصمت کا تحفظ ہے،جو کہ نکاحِ متعہ سے حاصل نہیں ہوتا،نیز نکاحِ شرعی میں اہم جزو دوام و استمرار ہے،جو کہ متعہ میں نہیں پایا جاتا۔نکاحِ شرعی کا اہم فائدہ محبت و مودّت اور سکون ہے،جو کہ نکاحِ متعہ میں ناپید ہے۔نکاحِ شرعی میں بیک وقت ایک سے زائد بیویوں کا تصور تو ہے،لیکن ایک سے زائد خاوندوں کا تصور قطعاً نہیں، جبکہ نکاحِ متعہ میں ایک سے زائد خاوندوں کا تصور واضح طور پر پایا جاتا ہے۔ایک عورت کے لیے نکاحِ متعہ کے ذریعے ایک ہی دن میں بیسیوں افراد سے منہ کالا کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔نکاحِ متعہ کے ذریعے معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہو جاتا ہے اور انسانوں میں بہیمانہ رویے پروان چڑھتے ہیں۔ایک عورت جب نکاحِ متعہ کے ذریعے کئی مردوں سے تعلق رکھتی ہے، تو کیا معلوم اس کی کوکھ میں پلنے والا بچہ کس کا ہے؟ایسے بچے عام طور پر خونخوار درندے ہی بنتے ہیں،پرامن شہری نہیں بن پاتے۔نکاحِ متعہ میں ولی(باپ ،بھائی) کے حقوق بھی پامال ہوتے ہیں۔عصمت جو انسانیت کا جوہر ہے،ختم ہو جاتی ہے اور ماحول میں آوارگی پھیلتی ہے
🕹مذکورہ بالا تفصیل سے یہی ثابت ہوا کہ وقتی طور پر شادی کرنا عند الشرع ناجائز و حرام اور گناہ ہے اور اس پر حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور مذاہب اربعہ کے سارے علماء کا اجماع ہے لہذا جو اس کو جائز کہے وہ عند الشرع کافر ہے
_****************************************_
*(🌺واللہ اعلم بالصواب🌺)*
_****************************************_
*✍ کتبہ: جلال الدین احمد امجدی رضوی ارشدی نائےگائوں ضلع ناندیڑ مہاراشٹرا مدرس جامعہ قادریہ رضویہ ردرور منڈل ضلع نظام آباد تلنگانہ الھند ـ*(بتاریخ ۴/فروری بروز پیر۲۰۲۰/ عیسوی)*
*( موبائل نمبر 📞8390418344📱)*
_*************************************
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
🌙الجواب صحیح والمجیب نجیح فقط محمد امیـــــــن قادری رضوی دیوان بازار مراداباد یوپی
🌙ماشاءاللہ بہت خوب الجواب' ھو الجواب واللہ ھوالمجیب المصیب المثاب فقط محمد آفتاب عالم رحمتی مصباحی دہلوی خطیب و امام جامع مسجد مہا سمند (چھتیس گڑھ)
🌙الجواب صحیح والمجیب نجیح واللہ
اعلم بالصواب غلام غوث اجملی پورنوی خادم التدریس والافتاء دارالعلوم اہلسنت غریب نواز چاپاکھور بارسوئی کٹیہار بہار
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں