قید کی حالت میں بھی تبلیغ

قید کی حالت میں بھی تبلیغ
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کے اَکابر اولیاءِ کرام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ بھی جہاں عافیت کی حالت میں دین کی تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیتے رہے وہیں قید و بند کی صعوبتوں میں بھی انہوں نے اپنے قول اور عمل کے ذریعے تبلیغِ دین کے سلسلے کو جاری و ساری رکھا۔ 
جن میں ایک بہت بڑا اور عظیم نام سیدنا مجدد الفِ ثانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا ہے۔ 
جب اکبر بادشاہ نے ملحدین اور بے دینوں کے ذریعے ایک نیا دین یعنی دینِ اکبری ایجاد کیا تو حضرت مجدد الف ثانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ملک کے طُول وعَرض میں دینِ اکبری کے خلاف اور دینِ اسلام کے دفاع میں مکتوبات اور مریدین کی جماعت کے ذریعے اپنی تبلیغی کوششوں کو عام کر دیا پھر جب اکبر بادشاہ مر گیا اور اس کے بعد جہانگیر نے سلطنت کی زِمامِ کار سنبھالی تو اس نے اپنی حکومت مضبوط کرنے کے بعد حضرت مجدد الفِ ثانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو اپنے دربار میں بلا یا اور تادیب کرنے ،تہذیب سکھانے اور دربارِ شاہی کی تعظیم نہ کرنے کو بہانا بنا کر انہیں قلعہ گوالیار میں قید کر دیا۔
لیکن آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے وہاں قیدیوں میں بھی اپنی تبلیغی سرگرمیوں کو جاری رکھا جس کے نتیجے میں ہزاروں کافر و مشرک قیدی مشرف باسلام ہو گئے ، اسی طرح قید خانے سے مکتوبات کے ذریعے اپنے اہل و عیال، مریدوں اور اہلِ محبت کو اَحکامِ اسلام پر عمل کی دعوت دیتے رہے، ان میں سے ایک خط مُلاحظہ ہو۔۔۔۔ 
چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنے صاجزادوں خواجہ محمد سعید اور خواجہ محمد معصوم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِما کے نام ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں: 
’’فرزندانِ گرامی! مصیبت کا وقت اگرچہ تلخ و بے مزہ ہے لیکن اس میں فرصت میسر 
آجائے تو غنیمت ہے، اس وقت تمہیں چونکہ فرصت میسر ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنے کام میں مشغول ہو جاؤ اور ایک لمحہ بھی فارغ نہ بیٹھو، تین باتوں میں سے ہر ایک کی پابندی ضرور ہونی چاہئے۔
*(1)* قرآنِ پاک کی تلاوت۔ 
*(2)* لمبی قراء ت کے ساتھ نماز۔ 
*(3)* کلمہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہْ‘‘ کی تکرار۔ 
کلمہ لَا کے ساتھ نفس کے خود ساختہ خداؤں کی نفی کریں ، اپنی مرادوں اور مقصدوں کی بھی نفی کریں ، اپنی مرادیں چاہنا (یعنی جو ہم چاہیں وہی ہوجائے گویا) خدائی کا دعویٰ کرنا ہے اس لئے چاہئے کہ سینے میں کسی مراد کی کوئی گنجائش نہ رہے اور ہوس کا خیال تک نہ آنے پائے تاکہ حیات کی حقیقت متحقق ہو۔ نفسانی خواہشات جو کہ جھوٹے خدا ہیں کو کلمہ’’ لَا‘‘ کے تحت لائیں تاکہ ان سب کی نفی ہو جائے اور تمہارے سینے میں کوئی مقصد و مراد باقی نہ رہے حتّٰی کہ میری رہائی کی آرزو بھی جو اس وقت تمہاری سب سے اہم آرزوؤں میں ہے، نہ ہونی چاہئے، تقدیر اور اللہ تعالیٰ کے فعل و مشیت پر راضی رہیں ، جہاں بیٹھے ہوئے ہیں اسے اپنا وطن سمجھیں۔ یہ چند روزہ زندگی جہاں بھی گزرے اللہ تعالیٰ کی یاد میں گزرنی چاہئے۔ 
*(مکتوبات امام ربانی، دفتر سوم، حصہ ہشتم، مکتوب دوم، ۲ / ۷-۸)* 

جیل میں تبلیغ کے حوالے سے ایک دوسرا واقعہ مُلا حظہ فرمائیں۔۔۔
چنانچہ امامِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر نگہبانوں میں سے ایک شخص حسن بن قحطبہ نے امام اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے عرض کی: 
میرا کام آپ سے مخفی نہیں ہے ، کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: 
’’اگر تم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے کئے پر نادم ہو، اور جب تجھے کسی مسلمان کو قتل کرنے اور خود قتل ہونے میں اختیار دیا جائے تو تم اسے قتل کرنے پر اپنے قتل ہونے کو ترجیح دو اور اللہ تعالیٰ سے پختہ ارادہ کرو کہ آئندہ تم کسی مسلمان کو قتل نہیں کرو گے اور تم نے اس عہد کو پورا کر لیا تو سمجھ لینا کہ تیری توبہ قبول ہو گئی ہے۔ 
*(مناقب الامام الاعظم للکردری، الفصل السادس فی وفاۃ الامام رضی اللہ عنہ، ص۲۲، الجزء الثانی)*

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ محــمد یـوسـف رضــا رضــوی امجــدی 
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے