قسطوں پر سامان کی خرید و فروخت کرنا کیسا ؟



قسطوں پر سامان کی خرید و فروخت کرنا کیسا ؟

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖


السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ


کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام کہ قسط پر سامان لینا جائز ہے یا نہیں؟۔۔۔


یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ قسط پر دیے جانے والی رقم میں اگر تاخیر کی جائے تو سود دینا پڑتا ہے ۔۔۔


برائے کرم حوالات یا جزئیات کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں_ 


          المستفتی : وسیم احمد


===========================


 وعلیکم السلام ورحمۃ اللّٰہ و برکاتہ


جواب۔۔۔۔۔۔۔👇🏻


قسطوں پر سامان کی خرید و فروخت کرنا جائز ہے اس کی صورت اس طرح ہوکہ بائع ( بیچنے والا ) اور مشتری ( خریدار ) کے درمیان مبیع ( جو چیز بیچی جارہی ہے ) کی قیمت مقرر ہو جائے اگرچہ رائج الوقت سے زیادہ ہو اور یہ بھی طے ہوجائے کہ ماہانہ اقساط کی رقم کیا ہوگی اور ادائیگی کتنی مدت میں ہوگی اور قسط کی تاخیر سے جرمانہ نہ ہوگا۔اور مبیع خریدار کی ملک کرکے اس کے حوالے کردی جائے ۔ تو یہ بیع شرعاً درست و جائز ہے


[📖جیساکہ مجلةالاحکام الشرعیہ میں ہےکہ👇


البیعُ مع تأجیل الثمن وتقسیطه صحیح,اھ


(📚 مجلة الاحكام الشرعيه ص 113 : الفصل الثانى ، فى البيع بالنسيئة و التاجيل )


[📖 اور قضایا فقهیة معاصرة میں ہے کہ👇


" أما الأئمة الأربعة وجمهور الفقهاء و المحدثین فقد أجازوا البیع المؤجل بأکثر من سعر النقد بشرط أن یبتّ العاقدان بأنه بیع موجل بأجل معلوم بثمن متفق علیه عند العقد " اھ


(📚 قضایا فقھیہ ص 12 : مطبوعہ دمشق / الدر المختار مع رد المحتار ج 7 ص 362 : مطبوعہ زکریا )


[📖 اور جامع ترمذی میں ہے کہ:👇


"وقد فَسَّر بعض أهل العلم قالوا بیعتین فی بیعة أن یقول : أبیعُک هذا الثوب بنقد بعشرة و بنسیئة بعشرین ، ولا یفارقه علی أحد البیعتین فإذا فارقه علی أحدهما فلا بأس إذا کانت العقدة علی أحد منهما " اھ


(📚 الجامع الترمذی : بابُ ما جاء فی النهی عن بیعتین فی بیعة ، رقم : 6231 )


[📖 اور امام اہلسنت سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں کہ:👇


" جائز ہے جبکہ دونوں حقیقتاً بیع کا ارادہ کریں نہ کہ قرض کا ، اس لئے کہ بیچنا جائز اور کمی بیشی جائز اور مدت معین پر ادهار جائز ، جیساکہ ہم سب باتوں کی تحقیق بیان کر آئے اور اقساط بندی بھی ایک قسم کی مدت ہی معین کرنا ہے ....الخ " اھ


(📚 فتاوی رضویہ ج 17 ص 493 : رضا فاؤنڈیشن لاھور )


[📖 اور فتاوی فیض الرسول میں ہے کہ:👇

" کوئی بھی سامان اس طرح بیچنا کہ اگر نقد قیمت فوراً ادا کرے تو تین سو قیمت لے اور اگر ادھار سامان کوئی لے تو اس سے تین سو پچاس روپیہ اسی سامان کی قیمت لے ۔ یہ شریعت میں جائز ہے سود نہیں ہے نقد اور ادھار کا الگ الگ بھاؤ رکھنا شریعت میں جائز ہے ۔ مگر ضروری ہے کہ سامان بیچتے وقت ہی یہ طے کر دے کہ اس سامان کی قیمت نقد خریدو تو اتنی ہے اور ادھار خریدو تو اتنی ہے(تو یہ جائز ہے) " اھ

(📚 فتاوی فیض الرسول ج 2 ص 380 : مطبوعہ شبیر برادر لاہور )


🍃 لیکن اگر قسط کی تاخیر کی صورت میں سود یا جرمانہ دینا پڑے تو پھر یہ عقد سراسر ناجائز و حرام ہوگا


[📖 جیسا کہ مفتی جلال الدین احمد امجد ی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ👇


" ( قسطوں کے کاروبار میں ) یہ جائز نہیں کہ تین سو روپیہ میں فروخت کر دیا اب اگر قیمت ملنے میں ہفتہ کی دیر ہوگئی تو اس سے پچیس یا پچاس زیادہ لے ایسا کرے گا تو سود ہوجائے گا " اھ


(📚 فتاوی فیض الرسول ج 2 ص 380 ' مطبوعہ شبیر برادر لاہور)


📝 لہذا مذکورہ بالا اصول و ضوابط کی روشنی میں ثابت ہوا کہ قسطوں پر کوئی بھی سامان خریدنا بیچنا جائز ہے۔


             واللہ اعلم باالصواب


===========================


✍ شرف قلم؛ حضرت علامہ مفتی کریم اللہ رضوی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی


استاذ و مفتی؛ دار العلوم مخدومیہ اوشیورہ برج جوگیشوری ممبئی📞 7666456313


➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے