حضرت امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ🕯

 « مختصــر ســوانح حیــات » 
-----------------------------------------------------------
🕯حضرت امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

نام و نسب:
اسم گرامی: امام مسلم ۔
کنیت: ابوالحسن۔
لقب: عساکر الملت والدین۔
سلسلۂ نسب اس طرح ہے۔ امام مسلم بن حجاج بن مسلم بن ورد بن کر شاد۔علیہم الرحمہ۔ 
آپ نسبا ًعرب کے مشہور قبیلہ بنو قشیر سے تعلق رکھتے تھے اسی لیے "قشیری" کہلائے۔

تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت میں مؤرخین کا اختلاف ہے، حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے 202ھ، امام ذہبی نے 204ھ، اور امام ابن اثیر نے 206ھ تحریر کیا ہے۔ لیکن علماء نے 206ھ کو راجح قرار دیا ہے۔آپ کا وطن نیشا پور تھا جو خراسان کا مشہور معروف مردم خیز شہر ہے جو تیسری صدی ہجری میں اسلامی دنیا کا باوقار علمی مرکز تھا۔ 
علامہ سبکی فرماتے ہیں : نیشا پور اس قدر بڑا اور عظیم الشان شہر تھا کہ بغداد کے بعد اس کی نظیر نہ تھی۔ 
*(طبقات الشافعیہ، ج۱، ص۱۷۳)*

تحصیل علم: امام مسلم کا زمانہ علم حدیث کی نقل و روایت اورتدریس کا زریں عہد تھا۔ علم حدیث کے بڑے بڑے مراکز اسلامی شہروں میں قائم ہوچکے تھے جہاں اکابر محدثین کا فیض عام جاری تھا۔ نیشاپور خود علم حدیث کے اہم مراکز میں شمار کیا جاتا تھا جہاں حدیث کے بڑے بڑے حلقے قائم تھے۔ امام مسلم نے ابتدائی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد بارہ سال کی عمر میں جب کہ عقل و فہم میں دستواری اور حفظ میں پختگی آجاتی ہے۔عقیدت و احترام کے جذبے اورحسنِ نیت و خلوص کے ساتھ اس کوچہ میں قدم رکھا اور پوری سعی بلیغ سے خراسان، عراق، حجاز، شام، بغداد، مصر کے محدثین سے کسب فیض کیا اور اس علم میں دستگاہ حاصل کی۔ بہت جلد آپ کا شمار عظیم محدثین میں ہونے لگا۔ 
آپ کے مشہور اساتذہ یہ ہیں: امام قعنبی، احمد بن یونس، اسماعیل بن ابی اویس، داؤد بن عمرو، یحیی بن یحیی نیشاپوری، ہیثم بن خارجہ، سعید بن منصور، شیبان بن فروخ، عون بن سلام، امام احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ، عبداللہ بن مسلم، امام بخاری۔ علیہم الرحمہ۔
*(تہذیب، ج۱۰، ص۱۱۳۔ تذکرہ، ج۲، ص۱۵۰)*

*سیرت و خصائص:* حافظ الحدیث، امام المحدثین، رئیس المحدثین، امام العلماء والمتکلمین، عساکر الملت والدین، صاحبِ اوصافِ کثیرہ، خادم احادیثِ نبویہ، مخدوم امتِ محمدیہ، صاحب ِصحیح مسلم، حضرت امام مسلم بن حجاج قشیری رحمۃ اللہ علیہ۔
آپ علیہ الرحمہ کا شمار اکابرین محدثین میں سے ہوتا ہے۔ آپ کی شہرت و عظمت آپ کی تصنیف لطیف "صحیح مسلم" کی بدولت ہوئی۔ بعد از کتاب اللہ ،و صحیح امام بخاری، آپ کی کتاب صحیح مسلم کا درجہ ہے۔ امام مسلم نے اپنے دور کے علمی چشموں سے فیض پایا تھا اور انہوں نے دریائے علم میں غواصی کرکے لعل و جواہر اپنے دامن میں سمیٹے تھے۔ آپ کی خداداد ذہانت، طباعی، قوت ِحفظ و ضبط دیکھ کر آپ کے اساتذہ ششدر رہ جاتے۔ اپنے وقت کے جلیل القدر محدث امام مسلم کے استاذ امام اسحاق بن راہویہ آپ کے بارے میں کہا کرتے تھے۔ "ای رجل یکون ھذا" خدا جانے یہ کتنا بلند انسان ہوگا۔
اسحاق بن منصور نے امام مسلم کی طرف دیکھا اور آپ کی عظمت و بزرگی پر نظر کرتے ہوئے کہا :" جب تک خدا آپ کو مسلمانوں کے لیے زندہ رکھے گا بھلائی ہمارے ہاتھ سے نہ جائے گی"۔ 
*(تہذیب، ج۱۰، ص۱۱۴)*

ابو عمرو بن حمدان فرماتےہیں: میں نے ابن عقدہ سے پوچھا: "ایھما احفظ البخاری او مسلم الخ" امام بخاری اور امام مسلم میں سے کون بڑا حافظ حدیث ہے؟ جواب دیا محمد بن اسماعیل بخاری بھی عالم ہیں اور امام مسلم قشیری بھی عالم ہیں۔ میں نے یہ سوال کئی دفعہ دہرایا تو کہنے لگے امام محمد بخاری سے شامی راویوں کے متعلق غلطی ہوجاتی ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے ان کی کتابیں لے کر پڑھیں ہیں کسی جگہ ایک راوی کو کنیت سے ذکر کرتے ہیں اور دوسری جگہ اس کو نام سے ذکر کرتے ہیں اور اس طرح ان کو دو آدمی خیال کرتے ہیں امام مسلم سے علل میں ایسی غلطی نہیں ہوئی کیوں کہ انہوں نے مسند روایتیں لکھی ہیں اور مقطوع اور مرسل نہیں لکھیں۔ 
*(ایضاً، ص۲۵۱)*

امام مسلم سیرت و اخلاق کے اعتبار سے بلند مرتبہ پر فائز تھے۔ انتہائی متواضع خلیق حلیم و بردبار واقع ہوئے تھے۔ علمی و جاہت اور تفوق کے باوجود آپ میں کبر و نخوت کا شائبہ تک نہ تھا۔ ذوقِ علم کے ساتھ عبادت و ریاضت کی کثرت فرماتے، ہر صاحب علم کی قدر کرتے حق گوئی آپ کا شیوہ تھا اس سلسلے میں زمانہ کی نامساعدت اور باطل پرستوں کے جاہ ومنصب کی ہر گز پرواہ نہ کرتے تھے۔ امام بخاری جب نیشاپور آئے اور ان کی مقبولیت بڑھنے لگی تو وہاں کے عوام و خواص حتی کہ نکتہ سنج محدث امام ذہلی نے بھی خلق قرآن کے ایک جزوی مسئلہ کو لے کر امام بخاری کو ہدف ملامت بنایا۔ امام مسلم جو امام ذہلی کے شاگرد تھے مگر امام بخاری کے ہم مسلک تھے اور ان کے موقف کو صحیح سمجھتے تھے امام ذہلی سے مراسم توڑ ڈالے اور ان کی مجلس کو ہمیشہ کے لیے ترک کردیا اور گھر جاکر ان کی تقریروں کے تمام نوشے انٹوں پر لاد کر بھیجوا دیے۔ 
*(تاریخ بغداد ، ج۱۳، ص۱۰۳)*

حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی فرماتےہیں: "آپ نے عمر بھر نہ کسی کی غیبت کی اور نہ کسی کو مارا اور نہ کسی کو گالی دی۔ صحیح و سقیم حدیث کی پہچان میں اپنے تمام معاصرین میں ممتاز تھے بلکہ بعض امور میں ان کو امام بخاری پر بھی ترجیح و فضیلت ہے۔ 
*(بستان المحدثین، ص۱۷۸)*
 
حضرت امام نووی فرماتے ہیں: محدثین اگر دو سو سال بھی حدیثیں لکھتے رہیں جب بھی ان کا دارو مدار اسی المسند الصحیح (صحیح مسلم) پر رہے گا۔ 
*(مقدمہ مسلم امام نووی)*

*حلقۂ درس و تلامذہ:* امام مسلم کے زمانہ میں نیشا پور کا گوشہ گوشہ محدثین سے معمور تھا اور ان کے حلقہ ہائے درس قائم تھے مگر علم حدیث میں امام مسلم نے جو عظمت اور شان پیدا کرلی تھی اس رتبہ تک عالم اسلام میں کم ہی لوگوں کی رسائی ہوسکی۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کے حلقۂ درس میں شائقین علم کا ہجوم رہتا۔ عام لوگوں کی بات ہی کیاہے خود آپ کے بلند مرتبہ اقران حتی کہ شیوخ بھی آپ سے سماع حدیث کے مشتاق رہتے اور آپ کی سند عالی سے روایت کرنے پر فخر کرتے تھے۔ حضرت امام ترمذی علیہ الرحمہ آپ کے شاگردوں میں سے ہیں۔

*وفات:* امام مسلم کے وصال کا سبب بھی نہایت عجیب وغریب بیان کیا گیا ہے۔ 
حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں: زندگی کے آخری ایام تک حدیث رسول کی تلاش میں وجستجو کا حیرت انگیز انہماک قائم رہا ایک دن مجلس مذاکرہ میں امام مسلم سے ایک حدیث کے بارے میں استفسار کیا گیا اس وقت آپ اس حدیث کے بارے میں کچھ نہ بتا سکے۔ گھر آکر اپنی کتابوں میں اس کی تلاش شروع کردی قریب ہی کھجووں کا ایک ٹوکرا رکھا ہوا تھا امام مسلم حدیث کی تلاش کے دوران ایک ایک کھجور کو اٹھا کر کھاتے رہے حدیث تلاش کرنے میں امام مسلم کے استغراق و انہماک کا یہ عالم تھا کہ کھجوروں کی مقدار کی جانب آپ کی توجہ نہ ہوسکی اور حدیث ملنے تک کھجوروں کا سارا ٹوکرا خالی ہوگیا اور غیر ارادی طور پر کھجوروں کا زیادہ کھالینا ہی ان کی موت کا سبب بن گیا۔

*تاریخِ وصال:* 24/رجب المرجب 261ھ،مطابق 5/مئی 875ء، اتوار کے دن شام کے وقت علم حدیث کا درخشندہ ستارہ غروب ہوگیا اور دوسرے دن پیرکواس عظیم محدث کو ہزاروں سوگواروں نے نماز ِجنازہ کے بعد سپرد خاک کردیا۔ 
ابو حاتم رازی بیان کرتے ہیں: کہ میں نے امام مسلم کی وفات کے بعد ان کو خواب میں دیکھا اور حال دریافت کیا تو انہوں نے جواب میں کہا اللہ تعالیٰ نے اپنی جنت کو میرے لیے مباح کر دیا ہے اور میں اس میں جہاں چاہتا ہوں رہتا ہوں۔ 
*(تذکرۃ المحدثین:227)*

*ماخذ و مراجع:* حیات محدثین عظام۔ تذکرۃ المحدثین۔ بستان المحدثین۔ تہذیب التہذیب۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ محــمد یـوسـف رضــا رضــوی امجــدی 📱919604397443
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے