نماز جمعہ کے متعلق اہم فتاویٰ

نماز جمعہ کے متعلق اہم فتاویٰ 


السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ ۔

زید ایک عالم دین ہے اور ایسی مسجد کی امامت کرتے ہیں جہاں جمعہ نہیں ہو تا ہے ۔ تو مقتدی حضرات کا کہنا ہے کہ اب ہم لوگ جمعہ قاٸم کریں گے ۔ تو امام صاحب نے کہا کہ دیہات میں جمعہ جاٸز نہیں ہے اور جہاں جمعہ قاٸم ہے وہاں نہ روکا جاۓ ۔ تو لوگوں نے کہا کہ ہم لوگ جمعہ کی دو رکعت فرض کے بعد ظہر پڑھ لیں گے تو کیا اس صورت میں جمعہ قاٸم کرسکتے ہیں ۔

اور دوسرا یہ ہے ۔ اگر جنگ و جدال کا معاملہ ہو یعنی جہاں جمعہ قاٸم ہے وہ لوگ یہ کہیں کہ اگر تم یہاں جمعہ پڑھنے آٶگے تو خون ریزیاں ہونگی ہم تم کو ماریں گے حملہ کریں گے وغیرہ ۔ ۔ تو کیا اس صورت میں بھی دوسرا جمعہ قاٸم کرسکتے ہیں ۔

قرآن حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمایٸں ۔


🌹سائل انصر رضا🌹

◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

📝الجواب بعون الملك الوهاب :
صورت مستفسرہ میں مذکورہ افراد پر جمعہ واجب ہی نہیں ہے ان کے دیہاتی ہونے کے سبب لہٰذا انہیں چاہیے کہ وہ جمعہ کی جماعت قائم نہ کریں بلکہ صرف نماز ظہر ادا کریں اگر واقعتاً وہ شرعی حیثیت سے دیہاتی ہیں جیسا کہ صاحب در مختار نے تحریر فرمایا ہے کہ دیہات میں جمعہ قائم کرنا مکروہ تحریمی ہے :

🏷الذی یدعي عموم الجمعۃ کل محل ولا یخصہ بمصر ولاقریۃ فقد خالف الاجماع وھو ضلال بلاتزاع وقد اجتمع ائمتنا علی اشتراط المصرلھا وان الاشتغال بہ فی القری تکرہ تحریما لکونہ اشتغالا بمالا یصح -

📿ترجمہ : جو شخص یہ دعوٰی کرتا ہے کہ جمعہ ہر مقام پرہوجاتاہے اس کے لئے کسی شہر اور دیہات کی تخصیص نہیں، وہ بالاتفاق اجماع کے مخالف اورگمراہ ہے ہمارے ائمہ کااس پراتفاق ہے کہ جمعہ کے لئے شہر کا ہونا شرط ہے دیہاتوں میں جمعہ کا قیام مکروہ تحریمی ہے کیونکہ یہ نادرست کام میں مشغول ہونا ہے -

 📕درمختار، باب العیدین، مطبوعہ مطبع مجتبائی ،دہلی، ۱/۱۱۴

اور سیدی اعلٰی حضرت انہیں عبارت کے پیش نظر تحریر فرماتے ہیں :

    جمعہ صرف شہر فنائے شہر میں جائز ہے ورنہ نہیں۔ شہر وہ بستی ہے جس میں متعدد کوچے دائم بازار ہوں، اور وہ ضلع یا پرگنہ ہو کہ اس کے متعلق دیہات ہوں اور اس میں فیصلہ مقدمات پر کوئی حاکم مقرر ہو، وجوبِ جمعہ کی سات شرطیں ہیں:

(۱) حریت (۲) ذکورت (۳) عقل (۴) بلوغ (۵) شہر میں اقامت (۶) اتنی صحت کہ حاضرِ جماعت ہو کرپڑھ سکے

(۷) عدم مانع مثل حبس وخوفِ دشمن وباران شدید وغیرہ

🔰فتاویٰ رضویہ ،کتاب الصلوۃ ،جلد ٨،صفحہ نمبر ٤٤٣

نیز........ دوسرے مقام پر دیہات میں جمعہ قائم کرنے کے متعلق سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے یوں تحریر فرمایا ہے :

فرضیت وصحت وجوازِ جمعہ سب کے لئے اسلامی شہر ہونا شرط ہے ، جوجگہ بستی نہیں جیسے بَن سمندر یا پہاڑ ، یا بستی ہے مگر شہر نہیں جیسے دیہات، یا شہر ہے مگر اسلامی نہیں جیسے روس فرانس کے بلاد ، اُن میں جمعہ فرض ہے نہ صحیح نہ جائز بلکہ ممنوع وباطل وگناہ ہے اس کے پڑھنے سے فرض ظہر ذمہ سے ساقط نہ ہوگا ، شہر ہونے کے لئے یہ چاہئے کہ اس میں متعدد کوچے متعدد دائمی بازار ہوں، وہ پرگنہ ہو کہ اس کے متعلق دیہات گنے جاتے ہوں کہ موضع فلاں فلاں وفلاں پرگنہ شہر فلاں اور اُس میں کوئی حاکم یا فیصلہ مقدمات کا اختیار من جانب سلطنت رکھتا ہو -

📚فتاویٰ رضویہ ،کتاب الصلوۃ ،جلد ٨،صفحہ نمبر ٣٧٦


جواب مسئلہ ثانی : صورت مستفسرہ میں مذکورہ افراد شہر کے ہوں اور تمام شرائط جمعہ کے مکلف ہوں تو بوجہ مجبوری ان کے لیے جمعہ کی جماعت ثانی کرنے کی اجازت ہے،جیسا کہ بحر العلوم حضرت علامہ مولانا مفتی عبد المنان اعظمی علیہ الرحمہ نے تحریر فرمایا :

شریعت میں قیام جمعہ کے لئے کچھ شرائط ہیں ,اگر ان سب کی پابندی کی گئ ہو تو بضرورت وہاں دوسرا جمعہ بھی قائم ہو سکتا ہے اور شرائط متحقق نہ ہو تو پہلا جمعہ بھی قابل اعتراض ہوگا -

📚فتاوی بحر العلوم, جلد اول, کتاب الصلوۃ ، صفحه نمبر ٤٩٥


🌹هذا ما ظهر لي و الله سبحانه وتعالى أعلم بالصواب🌹

◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆

کـــتــبــہ
✍ حضرت علامہ و مولانا مفتی مـحـمـد امتیاز حسین قادری صاحب قبلہ مد ظلہ العالی والنورنی لکھنؤ یــوپی
18 اکتوبر بروز جمعرات 2018

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے