ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ.
حضور! کچھ لوگ یہ کہ رہے ہیں کہ مسجد میں گیٹ لگاکر جمعہ پڑھنے والے کی نماز نہیں ہوئی. کیوں کہ "اذن عام" ہونا شرط ہے اس میں، جوکہ نہیں پائی گئی.
دراصل "کرونا وائرس" کی وجہ سے بھیڑلگانے پر سخت پابندی عائد ہے. پائے جانے پر پولیس وحکومتی اہلکار گرفتار بھی کرسکتے ہیں. اس پر بڑی بے رحمی سے پٹائی بھی کردی جاتی ہے. اس لیے ہمارے ہاں جمعہ سے پہلے ہی اعلان کردیا گیا تھا کہ آپ لوگ اپنے اپنے گھروں میں ظہر پڑھ لیں.
اس کے باوجود آج ایسا ہوا کہ جمعہ میں بھیڑ کی شدت ہوتی جارہی تھی . اور پولیس کی کارروائی کا سخت اندیشہ تھا. ـــــــ اس لیے ہم لوگوں نے گیٹ لگا کر تالا اس میں لٹکادیا تھا. پھر نماز شروع کی. تو ایسی حالت میں نماز ہوئی یا نہیں؟ ـــــــ نہیں ہوئی تو اب کیسے دہرایا جائے؟
ـــــــ اس کے بارے میں شرعی رہنمائی فرمادیں.
سائل : محمد حسنین. گُملا ـ جھارکھنڈ (انڈیا)
ـــــــ ـــــــ ـــــــ
وعلیکم السلام و رحمۃاللہ و برکاتہ
ـــــــ الجواب : عام حالات میں جب کہ کسی قسم کا خوف اور فتنے کا اندیشہ نہ ہو، جمعہ قائم کرنے والے، گیٹ پر تالا ڈال کر جمعہ پڑھیں تاکہ اس کی وجہ سے وہ لوگ شریکِ جمعہ نہ ہوسکیں جنھیں جمعہ پڑھنا صحیح ہے. تو ایسی صورت میں نمازِ جمعہ نہیں ہوگی. کہ جمعہ جائز ہونے کی ایک شرط "اذن عام " بھی ہے جو ایسے وقت میں نہیں پائی گئی .
♦️♦️♦️درمختار مع متن تنویر الابصار میں ہے :
والسابع : "الإذن العام" من الإمام، وھو یحصل بفتح أبواب الجامع للواردین. ـــــــ یعنی : جمعہ جائز ہونے کی ساتویں شرط "اذن عام" (عمومی اجازت) کا ہونا ہے. اور یہ عمومی اجازت اس طور پر حاصل ہوجاتی ہے کہ جامع مسجد کا دروازہ آنے والوں کے لیے کھول دیا جائے.
(رد المحتار مع الدر ، ج: 5،ص: 52،51، دارالبشائر دمشق)
♦️♦️♦️ فتاویٰ عالمگیری میں ہے :
ومنھا : الإذن العام : وھو أن تفتح أبواب الجامع فیؤذن للناس کافۃ ، حتی أن جماعة لو اجتمعوا في الجامع وأغلقوا أبواب المسجد على أنفسهم وجمعوا ؛لم یجز .
(الفتاوی الھندیہ ، ج :1، ص: 163، کتاب الصلاۃ. باب صلوۃ الجمعہ. دارالکتب العلمیہ بیروت)
♦️♦️♦️ صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :
"اذن عام" : یعنی مسجد کا دروازہ کھول دیا جائے کہ جس مسلمان کا جی چاہے آئے کسی کی روک ٹوک نہ ہو، اگر جامع مسجد میں جب لوگ جمع ہو گئے دروازہ بند کر کے جمعہ پڑھا، نہ ہوا۔ {بہار شریعت ،چہارم، ص: 773، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
ـــــــ ـــــــ ـــــــ
اور اگر روکنا روکنا دفعِ فتنہ، کسی سخت خوف ـ اور ـ دفع مضرت کے پیش نظر تھا تو نماز جمعہ ہوجائے گی. اور یہاں یہی صورت حال متحقق ہے. کہ محض فتنوں سے بچنے کے لیے ایسا کیا گیا، نہ کہ ــ معاذاللہ ــ ظلماً یا براہ تعصب روکنا ہوا، جوکہ "اذن عام" کو ختم کردیتا ہے. لہٰذا آپ حضرات کی نماز جمعہ ہوگئی. واللہ تعالٰی اعلم
اس اجمال کی تفصیل:
ـــــــ کرونا وائرس کے خوف زدہ ماحول پر نظر رکھ کر غور کیجیے تو جمعہ کے وقت آپ کے یہاں یا دوسری مسجدوں میں تالا لگالینا ، یا جمعہ پڑھنے والے دیگر نمازیوں کے لیے گھر ہی میں نمازظہر پڑھ لینے کا اعلان کرنا اس لیے نہ تھا کہ_ معاذالله _ انھیں نمازجمعہ سے روکا جاسکے.
بلکہ فقط خوف، فتنہ و آزمائش سے بچنے کے لیے ایسا کیا گیا ہے تاکہ جمعہ قائم کرنے والے پولیس یا حکومت کی گرفت سے بچ سکیں.
اعلی حضرت امام احمد رضا حنفی محقق بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
المضر إنما هو المنع عن الصلاة. و معناه أن تكون علة المنع هي الصلاة نفسها ، أو لازمها الغير المنفكّ عنها کـ : المنع كراهة الإزدهام. ـــــــ والمنع للفتنة ليس كذلك، فكان كمنع المؤذي من دخول المساجد ... فإن حقيقة المنع عن الإيذاء لا عن ذكر الله تعالى. فافهم.
[جد الممتار على رد المحتار ،باب الجمعة ، ج: ٣، ص: ٥٩٦ -٥٩٧، مكتبة المدينة كراتشي]
ـــــــ یعنی : وہ جو "اذن عام" میں ضرر رساں ہوتا ہے وہ نماز سے روکنا ہے. ـــــــ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ روکنے کی علت (1) خود نماز ہی ہو. (2) یا پھر ایسا لازمِ نماز ہو جو اس سے جدا نہ ہوسکے. مثلاً : اجتماع وبھیڑ سے روکنا. (تبھی یہ اذن عام کے منافی ہوگا.) ـــــــ اور فتنہ و آزمائش کی وجہ سے نمازجمعہ سے منع کردینا ایسا نہیں ہے . لہٰذا یہ ایسا ہی ہوا جس طرح ایذا پہنچانے والے شخص کو مسجدوں میں داخل ہونے سے روک دیا جاتا ہے ... کیوں کہ یہاں منع کرنے کی حقیقت: ایذا و تکلیف سے روکنا ہوتی ہے. یہ مطلب نہیں کہ مسجدوں میں ذکر الہی سے روکا جاتا ہے.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہمارے یہاں انڈیا میں 24/ مارچ 2020 سے پورے ملک میں لاک ڈاؤن یعنی : کورونا کرفیو نافذ ہے کہ لوگ گھروں سے نہ نکلیں اور کہیں بھیڑ اکٹھا نہ ہو، یہاں تک کے عبادت خانوں میں بھی دفعہ 144 نافذ کردیا گیا ہے. ہاں مسجدیں بالکل معطل نہ ہوجائیں اس کےلیے صرف چار پانچ افراد کو جمع ہونے کی اجازت دی گئی ہے.
محقق مسائل جديدہ حضرت مفتی محمد نظام الدین رضوی حفظہ اللہ تعالیٰ نے جو لیٹرپیڈ جاری کیا ہے اس میں آپ رقم فرماتے ہیں :
پولیس کا محکمہ اس کی تنفیذ کے لیے عمل میں آچکا ہے. اور پانچ آدمیوں سے زیادہ جماعت میں شریک ہونے پر لازمی طور پر پابندی عائد ہوچکی ہے. خلاف ورزی کی صورت میں امام اور نمازیوں کی گرفتاری بھی سننے میں آرہی ہے. اور کہیں کہیں مساجد میں تالے بھی لگادیئے گئے.
کچھ جگہوں پر ہمارے نمائندہ وفد، جمعہ اور جماعت حسبِ معمول قائم رکھنے کے لیے انتظامیہ سے ملے، مگر اجازت نہ ملی. [لیٹرپیڈ :جامعہ اشرفیہ مبارک پور، انڈیا. جاری کردہ : 25 / مارچ 2020ء ،بعد نماز عشاء]
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عالمی وبا : کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی غرض سے سخت سے سخت حفاظتی اقدامات کیے جارہے ہیں اور حکومتی سختیاں دن بدن بڑھتی ہی جارہی ہیں. عمومی بھیڑ والے مقامات تو بہت دور کی بات ہے، خود عبادت خانوں میں موجود بھیڑ پر پولیس اندھا دھند لاٹھیاں چلارہی ہیں. سوشل میڈیا سے جڑے ہوئے لوگ اچھی طرح واقف ہیں کہ بہت سی جگہوں پر جمعہ اور پنج وقتہ جماعات میں پانچ سے زیادہ لوگ ملے. تو پولس نے پہنچ کر بڑے بے رحمی سے پٹائی کردی جس میں کئی نمازی بری طرح زخمی ہوگئے ہیں. اوپر پیش کردہ حضرت سراج الفقہاء حفظہ اللہ تعالیٰ کے بیان میں بھی اس معاملے کی جانب اشارہ موجود ہے. غریب ائمہ مساجد اور مؤذنین کی گرفتاری اور ان پر جرمانہ اس پر مستزاد.
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
انڈین گورنمنٹ قانون کے پیش نظر آرٹیکل 144 کی خلاف ورزی کرنے والوں کو جرم میں تین سال کے لیے قید کرسکتی ہے.
جمہوری نظام حکومت میں جب عمومی طور پر کوئی قانون نافذ ہوجائے اور اس پر عمل درآمد بھی ہونے لگے تو پھر اس وقت قانون سے ٹکراؤ کی صورت کی اجازت شریعت بھی نہیں دیتی.
اور فقہاء کرام اس قاعدے کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ حاکم وقت کے وعدہ اور وعید کے نفاذ پر قادر ہونا اور عوام کا اس کے سامنے بے بس ہوجانا عجز ومعذوری کے لیے کافی ہوتا ہے. فی الفور اس قدرت کا نفاذ ضروری نہیں.
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ قیام جمعہ کی خاطر، شہر کی تعریف میں فقہا یہ بھی فرماتے ہیں کہ وہاں کوئی ایسا حاکم ہو جو اپنے رعب ودبدبہ اور شوکت واقتدار کے بل بوتے پر ظالم سے مظلوم کا انصاف دلاسکے. اور لوگ اپنے مقدمات میں اس کی طرف رجوع کرتے ہوں.
اس کے تحت علامہ ابن عابدين شامی نے تفصیلی وضاحت کی ہے کہ یہاں: مراد یہ ہے کہ احکام کو نافذ کرنے کی اسے "قدرت" حاصل ہو یہ مراد نہیں کہ فوری طور پر احکام نافذ کرتا ہو .
(تفصیل کے لیے دیکھیے : درمختار مع حاشیہ ردالمحتار ، کتاب الصلاۃ، باب الجمعہ، ج: 3، ص: 6، بیروت)
لہٰذا قانون کے نفاذ کا اعلان ہوجانے کے بعد بھی حکومتی عملہ کسی علاقے میں ایسی سختی نہ کرے یہ الگ بات ہے. مگر چوں کہ قانونی طور پر اسے شکست وریخت اور پابند سلاسل کی قدرت حاصل ہے تو اب یہ امکان ہی عجز ومعذوری کے لیے کافی ہوگا.
پھر مسئلۂ دائرہ میں معاملہ فقط "امکان" ہی تک محدود نہیں رہا بلکہ بعض جگہ اس امکان کا "وقوع" بھی ہوچکا ہے. مسجدوں میں نمازیوں پر ڈنڈوں کی برسات، بے رحمانہ پٹائی، مؤذنین اور أئمہ مساجد کی گرفتاری اور پھر خطیر رقم کا جرمانہ عائد کیا جانا. مسجدوں میں تالے لگ جانے کے باعث غیر متعینہ مدت تک کے لیے بالکل نماز کا موقوف ہوجانا. غیر مسلم پولیس کا أئمہ مساجد کے گریبان پکڑ کر دھکے دے کر مسجد سے باہر کرنا، پورے قوم مسلم کو عالمی وبا پھیلانے کا الزام لگاکر میڈیا کے تبصرے وغیرہ وغیرہ. ـــــــ قسم قسم کے فتنے اور آزمائشوں کا سامنا ہے.
لہذا ان تمام فتنوں اور آزمائشوں سے بچنے کے لیے محض حکومت کی طرف سے اجازت یافتہ تعداد ، مثلاً : چار پانچ اشخاص کا جمع ہوکر جمع ہوکر دروازہ بند کرلینا، اور پھر جمعہ باجماعت پڑھنا. ـــــــ اور دیگر نمازیوں کو ان فتنوں اور آزمائشوں کے خوف سے نہ آنے دینا "اذن عام" کے خلاف نہ ہوگا. بلکہ اب بھی "اذن عام" باقی رہے گا. جس طرح کسی چور، یا عورت، یا دشمن یا کوئی اور موذی کی وجہ سے دروازہ بند لینا اذن عام کو باطل نہیں کرتا. کہ یہ روکنا درحقیقت نماز سے روکنا نہیں ہے، بلکہ فتنہ سے بندش کے لیے ہے.
اعلی حضرت امام احمد رضا محقق بریلوی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :
علماء خود فرماتے ہیں کہ موذیوں کو مساجد سے روکا جائے. كما في "عمدة القاري" للإمام البدر محمود العيني ، وفي "الرسائل الزينية" للعلامة زين بن نجيم المصري ، وفي "الدرالمختار" : يمنع منه ~ أي : من المسجد ~ كل مؤذ ، ولوبلسانه.
تو یہ روکنا ــــ کہ مطابق شرع ہےـــ "منافئ اذن" نہیں.
{فتاویٰ رضویہ ، کتاب الصلاۃ، باب الجمعہ ج: 6، ص: 212، امام احمد رضا اکیڈمی، بریلی شریف}
ــــــــــــــ خلاصۂ کلام یہ کہ موجودہ خوفناک حالات کے پیش نظر محدود تعداد کا جامع مسجد میں جمع ہوکر جمعہ وجماعات قائم کرلینا. ـــــــ اور باضابطہ اعلان کرکے، یا دروازہ بند کرکے دیگر لوگوں کو آنے سے روکنا تاکہ خطرات وفتنے سے بچا جاسکے "اذن عام" کے منافی نہیں. بلکہ ایسی صورت میں "اذن عام" محض ان ہی اشخاص ـ یا ـ تعداد میں دائر رہے گا جنھیں ـ یا ـ جتنے کو قانونی طور پر اجازت حاصل ہے. لہٰذا اگر خاص انھیں یا اتنی تعداد کے آئے بغیر دروازہ لگالیا. یا پھر کسی طرح آنے سے روک دیا تو اذن عام باطل ہوجائے گا. اور نماز جمعہ درست نہ ہوگی. ھذا ما ظھر لي ،والعلم بالحق عند ربي. والله تعالى أعلم.
فیضان سرور مصباحی
3/ شعبان المعظم 1441ھ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں