کیا پنج وقتہ نمازوں کے علاوہ دوسرے مواقع پر اذان کہنے کا ذکر مخالفین کی کتابوں میں بھی ہے

🍁کیا پنج وقتہ نمازوں کے علاوہ دوسرے مواقع پر اذان کہنے کا ذکر مخالفین کی کتابوں میں بھی ہے؟🍁

🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسںٔلہ میں کہ آج ملک و بیرون ملک کے اکثر علاقوں میں ایک وباںٔی مرض " کرونا وائرس" پھیلا ہوا ہے اور اس سے حفاظت و نجات کے لئے علماء نے کثرت سے اذان دینے کی تدبیر پیش کی ہے اور اس پر لوگ عمل درآمد ہیں۔ مگر کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ پنج وقتہ نمازوں کے علاوہ کسی دوسرے موقع پر اذان کہنا جائز نہیں۔ کیا صحیح کیا غلط ہے قرآن وحدیث کی روشنی میں رہنمائی فرما کر ماجور ہوں۔ 
العارض۔ محمد عارف اشرفی ٹکیہ پاڑا کولکاتہ

🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ *الجواب* ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 پنج وقتہ نمازوں کے لئے اذان کہنا سنت مؤکدہ ہے اس کے علاوہ بعض دوسرے مواقع پر اذان دینا جائز و مستحب ہے ۔ مثلاً وبا سے امن وامان کے لئے ، وحشت کو دور کرنے کے لئے ، عذاب الہٰی سے بچنے کے لئے ، ھم و غم کے دفاع کے لئے ، مولود ( جس بچے کی ولادت ہوئی اس) سے ارتفاع شر کے لئے ، مرگی سے نجات کے لئے ، دفع غضب و غصہ کے لئے ، بد اخلاق انسان یا جانور پر قابو پانے کے لئے ، دشمنوں کے لشکر سے آمنا سامنا ہو تو اس کی مغلوبی کے لئے ، چڑیل ( جنات ، بھوت ، پری ) کی سرکشی سے حفاظت کے لئے ، بھولے ہوئے راہگیر کو راستہ پانے کے لئے وغیرہ ذالک۔
حدیث شریف میں ہے!
*عن انس بن مالک قال! قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا اذن فى قرية امنها الله من عذابه فى ذلك اليوم*- 
*ترجمہ* حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کسی گاؤں (بستی) میں اذان کہی جاتی ہے تو اس دن اس بستی کو اللہ تعالیٰ اپنے عذاب سے حفظ و امان عطا فرما دیتا ہے۔ 
(المعجم الکبیر ج ص ٢٥٧ حدیث ٧٤٦)
اور ایک دوسری حدیث میں ہے!
*عن ابی ھریرة قال! قال رسول الله صلى الله عليه وسلم نزل آدم بالهند فاستوحش فنزل جبريل عليه الصلاة والسلام فنادى بالاذان*-
 
*ترجمہ*- حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب حضرت آدم علیہ السلام (جنت سے) سرزمین ہند میں اترے تو انہیں وحشت ہوںٔی پس جبرںٔیل علیہ الصلوٰۃ والسلام نے (دفع وحشت کے لئے) اذان کہی۔ 
(حلیة الاولياء ج ٢ ص ١٠٧ حدیث ٢٩٩) 
اور ایک دوسری حدیث میں ہے!
*عن علی قال رأی النبی صلی الله عليه وسلم حزينا فقال ابن ابى طالب انى اراك حزينا فمر بعض اهلك يؤذن فى اذنك فإنه درء الهم*-

*ترجمہ*- مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے غمگین دیکھا تو فرمایا کہ اے ابو طالب کے بیٹے میں تجھے آزردہ خاطر دیکھتا ہوں تو تم اپنے گھر والوں میں سے کسی کہو کہ تیرے کان میں اذان کہے کیونکہ اذان سے رنج وغم دور ہوتے ہیں۔
(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ج ٢ ص ١٤٩)

اور فقہ حنفی کی مشہور ترین ، معتمد اور مفتی بہ کتاب در مختار علی رد المحتار ج ١ص ٣٨٥ پر ہے!
*(قوله لا يسن لغیرھا) ای فی الصلوات الا فیندب للمولود و فی حاشیة البحر للخير الرملى رايت فى كتب الشافعية أنه قد يسن الاذان لغير الصلاة كما فى اذن المولود والمهموم والمصروع و الغضبان و من ساء خلقه من إنسان أو بهيمة و عند مزدحم الجيش و عند الحريق ۔۔۔۔۔۔۔ وعند تغول الغیلان ای عند تمرد الجن لخبر صحیح فیه ولمن ضل الطريق فى ارض قفر اى خالية من الناس الخ*-

*ترجمہ*- پنج وقتہ نمازوں کے علاوہ میں اذان مسنون نہیں ہے مگر نو مولود بچے کے کان میں اذان کہنا مندوب ہے۔ اور میں نے شافعی مسلک کے کتابوں میں دیکھا کہ لکھا ہے نماز کے علاوہ چند دوسرے مواقع پر بھی اذان کہنا مسنون و مندوب ہے ۔ مثلاً نو مولود بچے کے کان میں ، مغموم اور مرگی وغیرہ کے دورہ پڑنے والے پر ، غیظ وغضب ہونے پ ، بداخلاق انسان یا جانور پر ، آگ لگنے کے وقت ، جب دشمنوں کے لشکر سے آمنا سامنا ہو اس وقت یونہی چڑیلوں ( جن بھوت پری) کے سرکشی کے وقت ، یہ حدیث صحیح میں موجود ہے۔۔۔۔۔۔۔ اور یونہی جو ویران جگہ میں راہ بھول جاۓ تو راستہ پانے کے لئے وغیرہ ذالک۔

(نوٹ۔ فقہاء احناف کا شروع سے ہی اس پر عمل رہا ہے اور اسی پر فتویٰ بھی اس لئے کوئی یہ اعتراض نہ کرے کہ یہ شافعی مسلک کا موقف ہے۔ اسی قول پر احناف و شافعیہ دونوں کا عمل ہے)

مذکورہ بالا احادیث کریمہ اور فقہی عبارت سے روز روشن کی طرح ظاہر و باہر ہے کہ پنج وقتہ نمازوں کے علاوہ دوسرے مواقع پر بھی اذان دینا جائز و مستحب ہے ۔ ماننے والوں کے لئے اتنی ہی دلیل کافی ہے اور نہ ماننے والوں کے لئے دفتر کے دفتر بیکار ہیں ۔ خیر یہ دلیلیں تو ہماری کتب کی ہیں ، اب آںٔیے منکرین اذان غیر الصلوٰۃ کو ذرا آںٔینہ ان کے ہی گھر کا دکھائیں تا کہ عقل میں لگے پردے اٹھ جاںٔیں ۔

وہابی مذہب کے ایک عظیم محدث اور مجدد مولوی نواب صدیق حسن خان بھوپالی اپنی تصنیف کتاب الدعاء والدواء میں لکھتے ہیں کہ!
*بعض علماء نے مرگی والے کے داںٔیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی تھی ، وہ اچھا ہو گیا*- (ص ٧٧)

اور ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں کہ!
*بعض علماء صالحین نے کہا ہے کہ آدمی جب راستہ بھول جاۓ اور وہ اذان کہے تو اللہ اس کی رہنمائی فرماوے گا*- (ص ٧٦)

ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ!
*جس کو شیطان خبطی کر دے یا اس کو آسیب کا سایہ ہو تو اس کے کان میں سات بار اذان کہے*-( ص ١٠٥_٧٦)
( مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور۔ ایک فتویٰ سے منقول ہے۔)

اور دیوبندی مذہب کے ایک بڑے عالم اور فقیہ مفتی سید محمد سلمان منصورپوری ناںٔب مفتی و استاذ حدیث جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مراد آباد کتاب النوازل میں لکھتے ہیں کہ!
*نماز کے علاوہ بعض دیگر مواقع کے لئے بھی فقہاء نے اذان کا ذکر فرمایا ہے مثلاًالخ*-
(کتاب النوازل ج ٣ ص ٣١٣)

مولوی نواب صدیق حسن خان بھوپالی اور مولوی سید محمد سلمان منصورپوری کی کتاب سے صاف ظاہر ہے کہ یہ بھی اذان غیر الصلوٰۃ کے جواز کے قائل تھے مگر آج کے وہابیہ اپنے پیشوا ہی کے مخالفت کرتے نظر آرہے ہیں۔ العیاذ باللہ۔ اللہ عقل سلیم عطا فرمائے۔
صورت مسئولہ میں " کرونا وائرس" یقیناً ایک مہلک اور وباںٔی مرض ہے اس کے دفاع کے لئے بھی اذان کہنا جائز و مستحب ہے۔
 والله تعالیٰ اعلم بالصواب۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸

*کتبہ۔ رضوان احمد مصباحی رامگڑھ۔*
*📱٩٥٧٦٥٤٥٩٤١*-
*منجانب ـ رضوی دارالافتاء*

🌸🌸🌸


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے