میت سے متعلق تین مختلف سوالوں کے جوابات

میت سے متعلق تین مختلف سوالوں کے جوابات

⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں مندرجہ ذیل مسائل میں کے جنازے کو غسل دیتے وقت پانی حد سے زیادہ استعمال کیا جائے تو گنہگار کون ہوگا غسل دینے والا یا میت نمبر2 غسل دینے کے بعد میت کو سرمہ لگانا درست ہے یا نہیں نمبر3 جنازہ کو قبرستان لے جانے کے وقت راستے میں ایک جگہ تھوڑی دیر کے لئے زمین پہ پھر سے جنازہ کو رکھتے ہیں کیا یہ درست ہے جواب عنایت فرمائیں مجاہدالاسلام نوادہ بہار

⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ *الجواب* ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
: وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته۔ 
میت کے پورے بدن پر ایک دفع پانی بہانا فرض اور تین مرتبہ سنت ہے اور ضروت سے زیادہ پانی بہانا اسراف یعنی فضول خرچی ہے۔
 فتاوى شامى میں ہے!
 *"ويصب عليه الماء عند كل اضطجاع ثلاث مرات وان زاد عليها او نقص جاز )اذا الواجب مرة،)اى صح وكره بلا حاجة لانه اسراف او تقتير"* -
((📗فتاویٰ شامی ج ٣ ص ٨٩))
 ضرورت سے زیادہ پانی خرچ کرنے کی صورت میں غاسل ( غسل دینے والا) گنہگار ہو گا نہ کہ میت۔ والله تعالیٰ اعلم۔

*(٢)* زندگی میں سرمہ لگانا سنت اور زینت ہے اور فقہاءکرام رضوان اللہ تعالی اجمعین نے بعد مرگ ہر اس فعل سے منع فرمایا جو داخل زینت ہو فلہذا میت کو سرمہ لگانا جائز و درست نہیں-
 ؛فتاوى شامى میں ہے!
*" ان التزين بعد موتها والامتشاط وقطع الشعر لا يجوز"*
((📗فتاویٰ شامی ج ٣ ص ٨٩))
نیز مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ!
*سرمہ سے زندوں کا سرمہ مراد ہے کیونکہ مردے کو سرمہ لگانا سنت نہیں*-
((📗مرأة المناجيح ج ٢ ص ٤٧٧))
اور عمدة المحققين حضرت علامہ مفتی حبیب اللہ اشرفی بھاگل پوری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ!
*میت کو غسل دینے کے بعد سرمہ لگانا نہ چاہںٔے ، چونکہ میت کو نہ زینت کی ضرورت ہے نہ آنکھوں کی حفاظت کی حاجت ہے لہذا یہ فعل عبث ہے۔ سرمہ میت کو ہرگز نہ لگایا جاۓ*-
((📗حبیب الفتاوی ج ١ ص ٥٤٥))
واللہ تعالٰی اعلم۔
*(٣)* حتی المقدور مسلمانوں کو چاہئے کہ راستے میں بلا وجہ جنازہ نہ رکھیں کہ ایسا کرنا مکروہ تنزیہی ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے!
*"يكره النوح والصباح وشق الجبوب فى الجنازة ومنزل الميت كذا فى التتارخانيه"*۔
((📗فتاویٰ عالمگیری ج ١ص ١٦٣))
 البحرالرأئق میں ہے!
*"ويكره النوح والصباح فى الجنازة و فى منزل الميت للنهى عنه"*-
((📗البحر الرائق ج ٢ ص ٣٣٧))
 ہاں اگر قبرستان آبادی سے بہت زیادہ دور ہے تو مشقت کے پیش نظر رکھنے میں کچھ حرج نہیں۔ جنازہ تیار ہونے کے بعد بغیر ضرورت تاخیر بھی روا نہیں کہ حدیث شریف میں ارشاد ہے کہ میت کی تجہیز وتکفین میں جلدی کرو۔
 فتاوی شامی میں ہے!
*"للحديث إسرعوا بالجنازة فان كانت صالحة قدمتمها الى الخير و إن كانت غير ذالك فشر تضعونه عن رقابكم ،والافضل أن يجعل بتجهيزه كله من حين يموت ،بحر*-
((📗فتاویٰ شامی ج ٣ ص١٣٦))
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب۔
⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕

*زیر سرپرستی- پیر طریقت رہبر شریعت فقیہ ملت حضور حسن الفقہاء حضرت علامہ و مفتی محمد حسن رضا نوری صاحب قبلہ دامت برکاتہ العالیہ۔ صدر شعبۂ افتاء مرکزی ادارۂ شرعیہ پٹنہ بہار*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*کتبہ - محمد شوکت علی راہی رکن آن لائن تربیت افتاء کورس*-
*تصحیح۔ مفتی رضوان احمد مصباحی رامگڑھ*۔
*تصدیق۔ مفتی ہدایت اللہ ضیاںٔی صاحب کیمور و مفتی عبد الشکور مرکزی صاحب*-
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے