مسجد میں دوسری جماعت ہیئت و جگہ بدل کر بغیر آذان واقامت بلا کراہت صحیح وجائز اور مباح ہے

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
سوال:کیافرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین کہ ایک ہی مسجد میں جو مسجد کے جماعت کا وقت ہے ایک بار مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا ہونے کے بعد دوبارہ اگر جماعت کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں یا نہیں زید کا کہنا ہے کہ جتنی بار جماعت چاہیں کر سکتے ہیں ۔۔۔۔۔زید کا کہنا درست ہے یا غلط ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرماکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں نوازش ہوگی،
المستفتى محمد عرفان رضا نورى پلاموی

(وعلیکم السلام و رحمة الله و بركاته) 

                                                                الجواب بعون الملك الوهاب صورت مسئولہ میں حکم شرع یہ ہے کہ محلہ اور گاؤں کی ہر وہ مسجد جس میں امام و مؤذن متعین ہوں نماز پنجگانہ ہوتی ہو ایسی مسجد میں دوسری جماعت ہیئت و جگہ بدل کر بغیر آذان واقامت بلا کراہت صحیح وجائز اور مباح ہے خلاصہ یہ کہ ایسی مسجد میں جگہ اور ہیئت بدل کر دوسری جماعت مسجد کے ہر حصے میں بغیر اذان و اقامت صحیح و جائز ہے اسکے جواز پر اجماع ہے جیساکہ شارع عام کے مساجد کے حکم ہے هكذا فى فتاوى هندية المسجد إذا كان له امام معلوم وجماعة معلومة في محلة فصلى اهله فيه بالجماعة لايباح تكرارها فيه باذان ثان أما إذا صلوا بغير أذان يباح اجماعا وكذا فى مسجد قارعة الطريق كذا فى الشرح المجمع المصنف اه( ج١ صفحة ٩٢،طبع دارالكتب العلمية بيروت) اور ردالمحتار میں ہے ولو كرر اهله بدونهما جاز اجماعا بحوالہ فتاوی رضویہ(ج٧،صفحہ ١٢٧) اور ذخيرة العقبى وشرح المجمع للعلامة يجوز تكرار الجماعت بلا آذان وبلا إقامة ثانية اتفاقا وفى بعضها اجماعا اه (بحوالہ فتاوی رضویہ ج١٢٨.٧) اور امام ابو یوسف علیہ رحمہ سے روایت ہے کہ اگر جماعت اپنی پہلی ہیئت پر نہیں ہے تو کوئی کراہت نہیں ہے ورنہ کراہت ہے یہی صحیح ہے كما فى ردالمحتار عن أبي يوسف انه إذا لم تكن الجماعة على الهيئة الأولى لاتكره وإلا تكره وهوالصحيح اه(ج ٢صفحہ ٢٨٩) اور الفاظ درر کے ہیں محلہ کی مسجد میں اذان واقامت کے ساتھ تکرار جماعت مکروہ تحریمی ہے راستہ کی مسجد یا ایسی مسجد جس کا کوئی امام و مؤذن مقرر نہ ہو اس میں تکرار جماعت مکروہ نہیں جیسا کہ در مختار میں ہے والنظم والدرر يكره تكرار الجماعة باذان واقامة فى مسجد محلة لا فى مسجد طريق او مسجد لا امام له ولامؤذن اه (بحوالہ فتاوی رضویہ ج ٧ صفحہ ١٢٦) رہی بات کتنی بار تکرار جماعت ہوسکتی ہے تو ان دلائل کی روشنی میں فی الحال جو حکومت ہند نے کرونا وائرس کی وجہ جو قانون نافذ کیا ہے اسکے پیش نظر تکرار جماعت کئ بار ہوسکتی ہے کہ تنہا پڑھنے سے بہتر ہے کہ جماعت سے پڑھے البتہ یہ ضرور خیال رکھیں کہ جماعت ثانیہ کا جواز صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو کبھی کسی عذر کے سبب جماعت اولی کی حاضری سے محروم رہے نہ یہ کہ جماعت ثانیہ کے بھروسے پر بلاعذر شرعی قصداً جماعت ترک کرے یہ بلاشبہ ناجائز وگناہ ہے (فتاوی فیض الرسول ج، ١صفحہ ٣٤٠)
والله تعالى اعلم بالصواب كتبه
 عبده المذنب محمد توقير عالم الثقافي غفرله
١٩ شعبان المعظم ١٤٤١ بمطابق ٢٠٢٠ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے