فتاویٰ رضویہ جلد سوم صفحہ ۲۱۹-۲۲۰ پر اعلیٰحضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ سے سوال ہوا:
جو شخص داڑھی اپنی مقدار شرع سے کم رکھتا ہے اور ہمیشہ تر شواتا ہے اس کا امام کرنا نماز میں شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟
📝 اعلیٰ حضرت فرماتے ہے:
وہ فاسق معلن ہے اور اسے امام کرنا گناہ ہے اور اس کے پیچھے نماز پڑھنی مکروہِ تحریمی۔
غنیہ میں ہے ”لو قدموا فاسقا یا ثمون الخ‘‘
اور اسی فتاویٰ کے صفحہ ۲۵۵⁄۲۵۴ پر تحریر فرماتے ہیں، جبکہ آپ سے پوچھا گیا:
’’قاری مکہ معظمہ کا قرأت سیکھا ہو اور وہاں چند سال رہ کر معلمی کیا ہو لیکن داڑھی تر شواتا ہے، آیا اسکے پیچھے نماز پنج گانہ اور جمعہ جائز ہے یا نہیں“– بینوا توجروا ۔
📝 اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:
داڑھی تر شوانے والے کو امام بنانا گناہ ہے اور اس کے پیچھے نماز مکروہِ تحریمی کہ پڑھنی گناہ اور پھیر نی واجب۔ مکہ معظمہ میں رہ کر قرأت سیکھنا فاسق کو غیر فاسق نہ کردے گا۔ وﷲ تعالٰی اعلم ۔
نیز اسی فتاویٰ کے صفحہ ۲۷۰ پر ایک استفتاء کے جواب میں اعلیٰ حضرت تحریر فرماتے ہیں:
’’داڑھی منڈانا فسق ہے اور فسق سے متلبس ہو کر بلا توبہ نماز پڑھنا باعث کراہت نماز ہے جیسے ریشمی کپڑے پہن کر یا صرف پائجامہ پہن کر۔ اور داڑھی منڈانے والا فاسق معلن ہے۔ نماز ہو جانا بایں معنی ہے کہ فرض ساقط ہو جائے گا ورنہ گنہگار ہوگا، اسے امام بنانا گناہ اور اسکے پیچھے نماز مکروہِ تحریمی کہ پڑھنی گناہ اور پھیرنی واجب۔ باقی اگر وہ صف اول میں آئے تو اسے ہٹانے کا حکم نہیں۔“
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں