______________
مرتب۔۔۔
محمد عبد المنان برکاتی مصباحی۔۔۔۔۔بہرائچ شریف
::::::::::::::::::::::::::::::::::
رسول گرامی وقار صاحب لولاک علیہ التحیۃ والثنا کا فرمان عالی شان ہے *من یرداللہ بہ خیرا یفقہہ فی الدین*۔جس کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کا فقیہ بناتا ہے۔اس سے یہ بات مستفاد ہوتی ہے کہ اللہ عزوجل ہر کس و ناکس کو فقہ کی دولت عظمی سے بہرہ ور نہیں فرماتا ۔اور ہر عالم دین ہر مدرس اور ہر مدارس اسلامیہ کے فارغ التحصیل عالم دین اس بشارت خداوندی کے مستحق نہیں ہوتے ۔اس لئے ہر فرد کو خواہ وہ کسی بھی ادارہ سے تعلیم پایا ہو ہند ہو یا بیرون ہند ،ازہر ہند ہو یا ازہرمصر کسی فقیہ کے فتوی پر اعتراض سے قبل یہ سوچ لینا چاہئے کہ ہمیں فقہ سے کتنی ممارست اور کتنی شد بد ہے۔کہیں اس کا اعتراض اس کے عدم واقفیت فقہ کی شہادت تو نہیں دے رہا ۔ہم سردست دفع ضرر کے لئے گیٹ بند کرنے کے باوجود صحت جمعہ سے متعلق ہندوستان میں ہندوستان کے عظیم المر تبت مفتی سراج الفقہا مفتی محمد نظام الدین رضوی صدر مفتی و صدر المدرسین جامعہ اشرفیہ کے تحریر کردہ فتوی پر کئے گئے اعتراض اور اس کے جواب کا ایک سرسری جائزہ لیتے ہیں ۔باوجود اس کے کہ یہ جوابات میرے نہیں بلکہ ان اعتراض کرنے والوں کا جواب مختلف فیس بک کمنٹ میں اہل علم نے دیا ہے۔ہم نے صرف جمع کر کے اسے ایک مکمل تحریر کی شکل دے دی ہے۔یہ دسیوں اہل علم کے کمنٹ کا مجموعہ ہے۔۔جسے میں ہدیئہ قارئین کر رہا ہوں۔
**اعتراض**
موجودہ حالات میں جمعہ کی جماعت میں اذن عام کی جو شرط مفقود ہورہی تھی یا اذن عام میں جو خلل واقع ہو رہا ہے مفتی صاحب نے اس خلل کو درمختار کی عبارت سے رفع کرنے کی کوشش کی ہے۔
در مختار میں بند دروازہ میں جمعہ ہونے کی دو علتیں "لعدو او لعادۃ قدیمۃ" بیان کی گئی ہیں۔ جس کا حوالہ مفتی صاحب نے دیا ہے، اس کا واضح مفہوم یہی نکلتا ہے کہ
١- دشمن کے خوف کی وجہ سے
٢- یا پہلے سے ہی دروازہ بند رکھنے کا رواج ہو
تو بند دروازہ میں جمعہ پڑھ سکتے ہیں۔
دوسری شق یعنی دروازہ بند کرکے جمعہ پڑھنے کا رواج، کا تحقق عام طور سے نہیں ہوتا
پہلی شق اس وقت درست ہوسکتی ہے اگر پولیس کو دشمن مان لیں، کیوں کہ آگے اس بات کی بھی صراحت ہے:
"وغلقہ لمنع العدو لاالمصلی" یعنی دروازہ کا بند کرنا دشمن کو روکنے کے لیے ہو نا کہ مصلی کو روکنے کے لیے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"لو اجتمعوا في الجامع و اغلقوا ابواب المسجد على انفسهم و جمعوا لم يجز"
(فتاوی ہندیہ ج١ ص١٦٣ ط دارالکتب العلمیہ)
یعنی اگر کسی مسجد میں چند افراد آگئے اس کے بعد مسجد بند کر دی گئی اس طرح کے اب کوئی اندر نہیں آ سکتا، اور اسی مقفل مسجد میں نماز جمعہ ادا کی گئی تو اس طرح جماعت درس نہیں ہوئی (اذن عام نہ ہونے کی وجہ سے).
چند سوالات:
١- موجودہ حالات میں مساجد میں جمعہ سے پہلے جو روک لگائی جارہی ہے وہ مصلی کے لیے روک ہوتی ہے یا غیر مصلی کے لیے؟
٢- اگر پولیس کو دشمن مان لیں تو پولیس کو روکنے کے لیے مسجد کا دروازہ بند ہونا چاہیے نا کہ مصلی کے لیے؟
٤- جن لوگوں کو جمعہ سے روکا گیا کیا انہیں ظہر پڑھنے پر جمعہ کا اجر ملے گا؟
**جواب**
سراج الفقہا حضرت علامہ مفتی نظام الدین رضوی مصباحی صاحب کے فتوی پر جو سوالات قائم ہوئے ہیں ان کے جوابات خود مفتی صاحب کے فتوی میں موجود ہیں
مفتی صاحب نے دفع ضرر کو علت بنایا ہے... در مختار میں جو دشمن کو روکنے کی بات کی گئی ہے اس میں بھی علت دفع ضرر ہے... وہی علت مفتی صاحب سمجھانا چاہ رہے ہیں کہ دفع ضرر کے قصد سے دروازہ بند کیا جا سکتا ہے.... اب یہ ضروری نہیں کہ ضرر صرف خاص دشمن کا ہی ہو... کوئی بھی ضرر ہو خواہ وہ کورونا کے بڑھتے اثرات کی وجہ سے حکومت کا پانچ آدمیوں سے زیادہ جمع ہونے کی صورت میں ہو یا ضرر خوف حرمت مسلمین یا قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں گرفتاری یا قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں مساجد ہی کو مقفل ہونے کا ضرر۔ بہر حال یہ سب ضرار عظیم ہی ہیں اور اسی کا دفع مقصود ہے..... اور یہی علت مفتی صاحب کے فتوی میں موجود ہے.... علت پر غور کرنے سے مسئلہ حل ہوجا رہا ہے.... دوسری بات یہ کہ اندیشہ فتنہ اور اندیشہ ضرر کے الفاظ بھی مفتی صاحب کے فتوی میں موجود ہیں جن پر غور کرنے سے سائل کے سوالات کا حل مل سکتا ہے...لعدو او لعادۃ قدیمۃ اور غلقہ لمنع العدو لا المصلی سے یہی بات مستفاد ہوتی ہے کہ ضرر صرف خاص دشمن کا ہی نہیں بلکہ مطلقا ضرر مراد ہے کیوں کہ منع عدو میں علت دفع ضرر ہے اور موجودہ حالات میں حکومتی قانون کی خلاف ورزیاں اور اوپر جو مذکور ہیں ان ضرار سے دفع کے لئے مسجد کا دروازہ مقفل کرنا کیوں کر صحیح نہ ہو گا۔صرف عدو کا لفظ دیکھ لیا سمجھ بیٹھے کہ صرف عدو کے ضرر کی وجہ سے بند کرنے کی فقہا نے اجازت دی ہے ۔اور علت منع پر غور نہ کر کے فقیہ اعظم کے بے مثال فتوی پر خواہ مخواہ اعتراض کیا۔۔۔اور *لا المصلی* کا سیدھا سادہ ترجمہ منع نمازیوں کے لئے نہ ہو سے کہا کہ دیکھئے یہاں تو لکھا ہےاور نمازیوں کے لئے روکنا نہ ہو ۔اور آج نمازیوں کو روکا جا رہا ہے۔۔لہذا گیٹ کا دروازہ بند کر کے جمعہ صحیح نہیں ۔۔۔ فقیہ اعظم نے تو اسی گتھی کو سلجھایا ہے عدو میں علت دفع ضرر ہے اور دفع ضرر کے لئے فقہا نے گیٹ بند کرنے کی اجازت دی ہے۔لہذا آج تو دفع ضرر نہیں دفع ضرار کی صورت ہے۔تو آج کیوں کر اجازت نہ ہوگی۔۔اور حکومت کا روکنا نمازیوں کے لئے نہیں ہوتا ہے بلکہ کورونا وائرس کے بڑھتے اثرات کو روکنے کے لئے پانچ سے زیادہ آدمیوں کے یکجا ہونے پر پابندی عائد کی ہے اور یہ پابندی مساجد مین یکجا ہونے پر بھی ہےخلاف ورزی کی صورت میں کیا ہوگا وہ کسی پر مخفی نہیں ۔
موجودہ حالات حاضرہ کے تناظر
میں اعلی حضرت علیہ الرحمہ کا پیش کردہ جزئیہ ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہئے۔اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ فرماتے ہیں۔ مایکون جرما فی القانون ففی اقتحامہ تعریض النفس للاذی والاذلال وھو لایجوز۔۔ یعنی جو قانونی طور پر جرم ہوں ان میں ملوث ہونا اپنی ذات کو اذیت و ذلت کےلئے پیش کرنا ہے اور وہ ناجائز ہے۔
(فتاویٰ رضویہ شریف ج:17، ص: 81 ، کتاب البیوع۔)۔کیا امام احمد رضا قدس سرہ کی اس فقہی تعلیم کو آج فقیہان حرم موجودہ ہندوستان کے فقیہ اعظم کے فتوی کے رد میں بھول گئے۔؟۔
یہاں تو خود سائل پر ہی سوال یہ بنتا ہے کہ کیا کتب فقہ میں کہیں یہ بات ہے کہ معروف دشمن کے لیے دروازہ بند کیا جائے اور مجہول دشمن کے کے لیے دروازہ بند نہ کیا جائے....؟ اگر انہیں ایسا نہیں ملتا یا یہ کہ دشمن خواہ معروف ہو یا مجہول دونوں طرح کے ضرر کے اندیشہ کی صورت میں دروازہ بند کیا جا سکتا ہے....
تو کروناوائرس ایک ایسا ضرر ہے جو افراد میں معروف ہو یا مجہول بہر صورت ضرر کا اندیشہ پیدا کرتا ہے اور اسی اندیشہ ضرر کا دفع یہاں مقصود ہے........اور اس ضرر سے بچانے کے لیے حکومت نے ہی قانون بنایا اور پابند کیا ہے ۔۔
مفتی صاحب کے فتوی پر غور کرنے سے یہ سب کچھ سمجھ آجا رہا ہے.... لیکن اعتراض اور رد کے وبائی مرض میں مبتلا ہو کر آج سراج الفقہا پر خواہ مخواہ اعتراض کیا جا رہا ہے۔اور خواہ مخواہ علت منع کو مسترد کر کے پولس کو دشمن کے قائم مقام بناکر سوال قائم کر رہے ہیں ۔اس زعم میں کہ ہم نے کوئی بڑا تیر مار لیا۔
فتوائےفقیہ اعظم سے متعلق یہ کہا گیا کہ اگر وائرس کے پھیلاؤ کے خوف سے مساجد کے دروازے بند ہوتے ہیں تو وائرس کا پھیلاؤ اگر فرد معین میں معلوم ہے تو دفع ضرر کی خاطر اس کے لیے مسجد کا دروازہ بند ہوسکتا ہے، لیکن اگر وائرس افراد کے درمیان مجہول ہے اور دفع ضرر کے لیے بعض افراد کو روکا جا رہا ہے اور بعض افراد پڑھ رہے ہیں تو وجہ ترجیح کیا ہے؟
اس کا جواب یہ ہیکہ مو ضع احتیاط میں مفضی الی الشئ کو شئ کے قائم مقام کردیا جاتا ہے اس لیئے یہ اعتراض کرنا کہ اگر وائرس ہو گا تو سب کے لیئے نہیں ہوگا تو کسی کے لیئے نہیں سب کو چھوڑ کے پانچ آدمی پڑھ لینا بلاوجہ تر جیح بلا مرجح ہے یہ بلا وجہ کا اعتراض ہے کیونکہ علت یہاں ضرر ہے جو سب کے لیئے ہے مگر صحت جمعہ وابقاء جمعہ کے لیئے بقدر ضرورت کیساتھ پڑھ لینا علت ضرر کے منافی نہیں ہے
صحیح بات ہے کہ یہاں پر پولیس کے ذریعہ مصلیان کو نماز کے لئے نہین روکا جاتا بلکہ قانون کی پابندی کے لئے ایک جگہ پانچ سے زائد لوگوں کو یکجا ہو نے سے روکا جا رہا ہے لیکن اگر مصلیان کو نہیں روکا گیا تو قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں کیا ہوگا یہ کسی پر مخفی نہیں اور یہاں انھیں ضرار سے دفع مقصود ہے ۔
ایک دوسری مثال سے سمجھئے کہ
جس طرح سفید داغ اور بدبودار شخص کو مسجد میں آنے سے روکنے میں یہ لازم نہیں آتا کہ کسی عالم نے نماز سے روکا ہے بلکہ وجہ یہ ہے کہ دوسرے نمازیوں کو اس کی تکلیف سے بچانے کے لیے منع کیا گیا ہے
،تو موجودہ حالت میں روکنا
مسجد اور امام و دیگر مقتدیوں کو ضرر عظیم سے بچانے کے لیے کیوں نہیں؟۔
فقیہ اعظم سراج الفقہا حفظہ اللہ کے فتوی کے جواب اور رد میں گھوسی سے فتوی لکھا گیا جس کے محرر جناب مولانا مفتی شمشاد صاحب ہیں اور تصدیق محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفے قادری دامت بر کاتہم القدسیہ کی ہے۔
مفتی شمشاد صاحب فتوی میں یہ ھے نہین ہے کہ اذن عام معتبر کس وقت کا ھے کیونکہ اس میں لکھا ھے کہ مصلیوں نے نہ خود روکا نہ دروازہ بندکیا۔۔۔۔
سوال یہ ھے کہ اگر وقت حاضرئ جمعہ سے قبل منع کیا گیا یا دروازہ بند کیا گیا لیکن وقت نماز جمعہ نہ کسی کو منع کیا گیا نہ دروازہ بندکیا گیا نہ نماز سےروکنے کےلئے کسی کو وقت نماز بٹھاگیا تو اس فتوی کی رو سے یہ فعل بھی مانع اذن عام ھورہاھے جبکہ وقت حاضرئ جمعہ ایسافعل مانع اذن عام ھوگا لیکن اس سےپہلے نہیں
جیساکہ جدالممتار میں ھے:کذا لایضرالمنع قبلھا ولابعدھا ۔۔۔
لہذا جس شہر یافنائے شہر میں جمعہ ھورہاھے وہاں یا جس نئے مقامات پر جمعہ باذن قاضی ھورہاھے اگر وہاں کے لوگ وقت حاضرئ جمعہ دروازہ کھول دیں اور مقیمین جمعہ کی طرف سے وقت حاضرئ کسی کو آنے سےمنع نہ کیاجائے گرچہ لوگ از خود نہ آئیں اور امام کےسوا تین مکلف افراد ھوگئے ھوں تو اذن عام پالیاجائے گا اور جمعہ صحیح ھوگا ۔۔۔۔۔
دوسرا سوال یہ ھے کہ کیا حکومتی عملہ کی طرف سے جوروک ھے جس کےسبب دروازہ مخصوص افراد کےعلاوہ پر بند کرلیا جاتاھے کیا یہ شرعی مجبوری نہیں ھے اگر شرعی مجبوری نہیں ھے
نیز جب آپکےاس فتوی میں لکھا ھے کہ لوگ مارے جارھے ہیں اور ان پرمقدمہ درج کیاجارہاھے پس اگر دروازہ اس سبب سےبندکرلیاجائے کہ کہیں لوگ آنہ جائیں جسکی وجہ سے مصلیوں پر مار پڑے گی اور مقدمہ درج ھوگا جیساکہ واقع ھوا ۔۔۔۔توکیایہ ضرر یقینی یا مظنون بظن غالب نہ ھوا ۔۔۔۔۔اگر یقینی یامظنون بظن غالب ھے تو اسکے سبب سے دروازہ بندکرنا کیونکر مانع اذن عام ھوگا جیساکہ موذی کےایذا یاعورتوں کےدخول سے فتنہ کےباعث ۔۔۔۔فاعتبروا یا اولی الابصار
میں تو باوجود کم علمی کے اس فتوے سے متفق نہیں ،وجہ یہ ہیں :
١۔وقت پر ان صاحبوں نے قوم کی قیادت نہیں کی۔
٢.ان فتویٰ کا نفاذ موجودہ حالات میں ممکن نہیں۔
٣۔فتوی کے نفاذ کی صورت میں یا تو مساجد ویران ہوجائیں گی یا قوم ذلت ورسوائی کے ساتھ ظلم و تشدد برداشت کرےگی۔
٣.فتاوی میں نازک حالات اور قوم کی مجبوریوں کو مد نظر نہیں رکھا گیا ،جس سے صاف عیاں ہے کہ قوم کے لیے نہیں بدلے کے لیے فتاویٰ صادر ہوۓ ہیں۔
٤۔عدم جواز کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ موجودہ دور میں کنڈی لگانا گویا نماز سے روکنا ہے جو اذن عام کے منافی ہے ۔
٥۔حالاں کہ کنڈی لگانا مقیمین جمعہ کا اپنے اوپر سے دفع ضرر کے لیے ہے بایں طور کہ اگر کنڈی نہ لگائیں اور لوگ کثیر ہو جائیں تو ضرر ہی ضرر ہے ۔
اس فتوی میں جد الممتار کی ایک عبارت سے استدلال کیا گیا ہے ۔اس سلسلے میں چند سوالات حاضر خدمت ہیں
**جد الممتار کی عبارت سے استدلال کے بارے میں چند سوالات**
-------------------
*بخدمت جناب مولانا شمشاد احمد مصباحی گھوسوی*
-------------------
1⃣آپ فرماتے ہیں کہ بھیڑ بھاڑ سے روکنا عین نماز سے روکنے کی طرح ہے اور دلیل میں *جد الممتار* کی یہ عبارت
پیش کی ہے *و معناہ ان تکون علۃ المنع ھی الصلاۃ نفسھا او لازمھا الغیر المنفک عنھا کالمنع کراھۃ الازدحام* اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے بھیڑ بھاڑ سے منع کا ذکر کیا ہے یا بھیڑ بھاڑ (ازدحام) کی کراہت سے؟ حضرت ! ازدحام اور کراہت ازدحام میں فرق تو ہونا چاہیے گزارش ہے کہ آپ اس عبارت کا ترجمہ کرکے واضح فرمائیں کہ *کراھۃ الازدحام* سے روکنا عین نماز سے روکنے کی طرح ہے؟ کراہت ازدحام کیا ہے اور وہ نماز کا لازم غیر منفک کیسے ہے ؟؟
2⃣پولس خود روکے یا رکوایے اس کی علت نماز ہے یا کورونا وائرس کا خوف ۔ہمیں اس وائرس کی شرعی حیثیت سے بحث نہیں حکومت اور پولیس جس بنیاد پر روک رہے ہیں یا دنیا کے بہت سے ممالک روک رہے ہیں وہ کس بنیاد پر روک رہے ہیں کیا وہ بنیاد نماز ہے یا کورونا وائرس اور کیا ان کا اپنے زعم میں اندیشہ وائرس کی بنیاد پر روکنا شرعا عین نماز سے روکنا قرار پائے گا ہمیں امید ہے کہ جواب با صواب سے نوازیں گے ۔
**تحریر کا دوسرا پہلو۔۔۔ سراج الفقہا کا فتوی جمعہ اور بے جا رخنہ اندازی اور تاثر*
فقیہ اعظم سراج الفقہا نے اس سلسلہ میں پورے ہندوستان میں فقہا کی خاموشی کو توڑتے ہوئے امت مسلمہ کو ہدایت کا سب سے پہلا فریضہ انجام دیا بقیہ تمام فقیہان حرم خاموش تھے۔جیسے ہی آپ کا فتوی آیا تو فقیہان ہند کے قلم رد فتوی میں رواں ہو گئے۔ تو ان حالات کا مشاہدہ کر نے کے بعد ایک صاحب علم نے اس طرح کمنٹ کیا کہ
۔۔آج کے پر آشوب ماحول میں ہماری جماعت انانیت پرستی اور عیب جوئی میں مبتلا ہے ۔قوم کا مفتی ہدایت دے رہا تو چار آوازیں آنے لگ رہی ہیں ۔۔یہی لوگ آخر قوم کی ہدایت کیوں نہیں پہلے کر رہے ہیں ۔نہ امت کی ہدایت مین پہل ۔نہ مسائل سے روشناس کرانے مین پہل سراج الفقہا کا جواب آنے کے بعد ان پر علم کی بارش ہونے لگتی ہے اور ہدایت کی سوجھنے لگتی ہے ۔اس سے پہلے لگتا ہے کہ علم سویا رہتا ہے۔سراج الفقہا کے فتوے کے بعد سب قلم اٹھا اٹھاکر اپنے حسب سابق اپنے محبوب مشغلہ میں لگ جاتے ہیں ۔یعنی امت کی ہدایت کے لئے قلم نہیں رد فتوی کے لئے قلم اٹھا لیتے ہین۔ذرا انھیں اب تو ہوش کے ناخن لینے چاہئین ۔کیا ہندوستان کے حالات ان کے سامنے نہیں ۔۔۔خدارا انھیں ہدایت نصیب ہو۔۔
اس فقیہ بے مثال کی فقہی خدمات کا اعتراف آپ کے استاذ جلیل شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی ۔بحر العلوم مفتی عبد المنان اعظمی۔مصنف بہار شریعت انیسواں حصہ علامہ سید ظہیر احمد زیدی ۔مفتی اعظم راجستھان مفتی اشفاق حسین ۔۔شیخ القرآن علامہ عبد اللہ خاں عزیزی۔فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی ۔شرف ملت علامہ عبد الحکیم شرف قادری علیہم الرحمہ ۔۔۔جیسی جلیل القدر شخصیتوں نے کیا ہے۔۔ موجودین اکابر علما و فقہا کی تو ایک طویل فہرست ہے۔سبحان اللہ ۔۔۔
۔جس شخصیت کی فتوی نویسی پر شارح بخاری علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی جیسی عبقری شخصیت نے فرمایا مفتی نظام الدین رضوی میری پیرانہ سالی میں دارالافتاء اشرفیہ کے تمام تحقیقی فتاوی یہی لکھتے ہیں ۔جو لکھتے ہیں کافی غورو خوض اور مطالعہ کے بعد لکھتے ہیں ۔مجھے ان پر اعتماد ہے اور ان شاء اللہ رہے گا۔اس عبقری فقیہ نے جس کی فقاہت دینی سے متعلق اپنی زندگی میں یہ تاثر دیا۔اس فقیہ کی فقہی بصیرت کا آج عالم کیا ہوگا۔۔اللہ اکبر ۔فقہ میں اتنا اہم تاثر شارح بخاری علیہ الرحمہ نے اپنے کسی شاگرد کے لئے نہیں فرمایا۔۔اس فقیہ جلیل کے فتوی کے رد میں کھڑا ہونا قبیل از حماقت ہی ہے۔۔شارح بخاری نے جو گراں قدر تاثرات دئے ہیں وہ سراج الفقہا کی کتاب جدید بینک کاری اور اسلام میں مرقوم ہے۔یہ تاثر تو اسی کا ایک ٹکڑا ہے۔کوئی کچھ بھی کہے عمل تو آج سراج الفقہا کے فتوی پر ہی ہو رہا ہے۔چند سال قبل مفتی اعظم راجستھان مفتی اشفاق حسین نعیمی علیہ الرحمہ نے فرمایا تھا ۔اس وقت ہندوستان میں سب سے زیادہ عمل مفتی نظام الدین رضوی کر فتاوی پر کیا جاتا ہے۔۔یہ تاثر دیکھنے کے لئے مطالعہ کریں سر آج الفقہا کی کتاب امام احمد رضا پر اعتراضات کا تحقیقی جائزہ ۔۔واہ سراج الفقہا کا فیضان سلامت رہے۔
*پاکستان میں فقیہ اعظم کے فتوی کا اثر*
ایک پاکستانی عالم نے ساٹھ کتابوں کے حوالہ جات اور جزئیات سے دفع ضرر کے لئے گیٹ بند کر کے جمعہ کی صحت سے متعلق تحقیقی فتوی تحریر کیا ۔پھر فتوائے سراج الفقہا سے متعلق جس تاثر کا اظہار خیال کیا ہے ۔اس سے سراج الفقہا کی تبحر علمی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔۔انھوں نے ایک دو نہیں فقہ حنفی کے ساٹھ جزئیات سے استدلال کیا ہے۔آخری حصہ یہ ہے
:اتنا زبردست تحقیقی فتوی اس موضوع پر میری نگاہ سے نہیں گزرا اور ان کا اشرفیہ کے فتوے پر ایک زبردست تاثر اس طرح ہے
"میں ان کلمات کو سپردِ قلم کرنے میں مصروف تھا کہ کسی دوست نے مفتی نظام الدین رضوی صاحب کا فتوی بھیجا ، جو باوجود اختصار کے راقم کی کلماتِ اخیرہ کے بالکل موافق نکلا ، دیکھتے ہی اللہ جل وعز کی حمد وثناء کی۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ ومما يجب التنبه له قبل الختام ان فی امر العامۃ باداء الظہر حتما کما صدر من اخینا الفاضل زید مجدہ ودام اقبالہ مفسدۃ عظیمۃ مثل ما اشار الیہ المحقق ابن جرباش والنص کالتالی:
وهو اعتقاد الجهلة أن الجمعة ليست بفرض لما يشاهدون من صلاة الظهر فيظنون أنها الفرض، وأن الجمعة ليست بفرض فيتكاسلون عن أداء الجمعة
ھذا ما عندی واللہ عز اسمہ اعلم
*محمد چمن زمان نجم القادری*
رئیس جامعۃ العین ۔ سکھر
8 شعبان المعظم 1441ھ / """""""""""""
یہ تھا پاکستان کے ایک بڑے عالم دین و مفتی کا تاثر ۔ان مباحث اور تحریر کے بعد
بعد فقہائے پاکستان نے فقیہ اعظم کے فتوی سے موافقت کرلی ۔اس سے پہلے وہ بھی گیٹ بند کرنے نہ کرنے کے پیچ و خم میں الجھے ہوئے تھے ۔
ایک عالم دین نے اس کی ترجمانی اس طرح کی کہ
اذن عام کے حوالے سے سراج الفقہا مفتی محمد نظام الدین رضوی صاحب اور حضرت مفتی چمن زمان صاحب کے دلائل مضبوط تھے ان دلائل کی بنیاد پر حضرت مفتی قاسم وغیرہ نے اپنے موقف سے رجوع کیا۔
مگر اس کے باجود مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمان صاحب اور دیگر علما قیامِ جمعہ کے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے ہین بلکہ علما اپنے اصولی موقف پر قائم ہیں۔یہ حکم تو صرف دفع ضرر کے لئے جس کی اجازت فقہا نے دی ہے۔باقی حکومت جبرا رکوا لے تو الگ بات ہے۔
میں اپنی تحریر اپنے ایک فیس بک دوست کے کمنٹ پر ختم کرتا ہوں کہ
۔فقہ شریف کی دولت کسبی سے زیادہ وہبی ہوتی ہے۔۔ ۔۔حالات ہندوستان کا پورا مسلم مخالف ہے اور یہ حضرات آج بھی پرانا مشغلہ جاری رکھے ہوئے ہیں ۔۔فتوی دینا ہی ہے تو پہلے دیں یا بعد میں، اپنی تحقیق پیش کرین۔اپنا فتوی تحریر کرین۔ایک فتوی آنے کے بعد اس کے رد میں زور صرف کرنا قطعی مناسب نہیں ۔نہ ۔حالات پر نظر نہ امت کو ہدایت نہ کوئی پیغام۔بس اگر مفتی نظام الدین رضوی فتوی دے دیں پھر ہمارا قلم اور ان کا فتوی۔۔۔ہندو پاک مین اکثر امت کا عمل
بحمدہ تعالے اشرفیہ ہی کے فتوے پر ہے۔اللہ فقیہ اعظم کو عمر خضر عطا فرمائے اور ان کا علمی و فقہی فیضان جاری و ساری رہے۔آمین بجاہ حبیبہ النبی الامین الکریم۔
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں