کرامت کسے کہتے ہیں

کرامت کسے کہتےہیں

از قلم ۔ معراج احمد مصباحی مد ینۃ العلما گھوسی 7860867489
19.شعبان 1441ھ



عارف بالله ناصح الامہ حضرت سید نا عبد الغنی بن اسماعیل نابلسی علیہ الرحمہ کرامت کی تعریف یوں فرماتےہیں ,, 
,, کرامت سے مراد وہ خلا ف عاد ت امر ھے جس کا ظہور تحد ی و مقابلہ کے لئے نہ ھو اور وہ ایسے بند ے کے ہاتھ پر ظاھر ھو جس کی نیک نامی مشہور وظاھر ھو وہ اپنے نبی کامتبع د رست عقید ہ رکھنے والا اور نیک عمل کا پابند ھو ۔۔ 
( الحد یقۃ الند یہ جلد 1 صفحہ 292 )

مومن متقی سے اگر کوئی ایسی ناد ر الوجود وتعجب خیز چیز صاد ر و ظاھر ھوجائے جو عام طور پر نہیں ھواکرتی تو اسے کرامت کہتےہیں ۔۔
( النبراس شر ح شر ح عقائد , اقسام الخوارق سبعه صفحه 272 )

سید ی سرکار اعلی حضرت فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ تحریرفرماتےہیں ,,

,,خارق عاد ت اگر از ولی موصوف باوصاف ولایت ظاھر بود کرامت گویند و اگر از مخالف شریعت صاد رشود استد راج ,,

🌹ترجمہ🌹 اگراوصاف ولایت والے ولی سے خار ق عاد ت ظاھر ھوتووہ کرامت ھے اوراگرمخالف شریعت سے صاد ر ھوتواستد راج ھے ۔۔
( *فتاوی رضویہ جلد 21 صفحہ 557* )

مذ کورہ تعریف کے بعد قارئین آپ ذ را بتائیں کہ اگر کسی گروپ میں کوئی نیا نمبر ایڈ کر د یا جائے اور اس نئے نمبر کیوجہ سے گروپ بند کر د یا جائے توکیاآپ اسے کرامت کہیں گے ۔۔ د ریاآباد کاجاھل پیر آفتاب عالم گوھر اسے کرامت کہتاھے اور لوگوں کو گمراہ کر رھاھے ایسے جاھل پیر سے عوام کو ھوشیار رھنے کی سخت ضرورت ھے ۔۔ اس کے کراماتی مضمون کوملاحضہ کر یں 👇👇

میں اسے مفکر ملت حضرت علامہ مولانا شہاب الدین علیمی صاحب قبلہ دامت برکاتہم العالیہ کی کرامت ہی کہوں گا
مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث 211

علم اور اس کی فضیلت کا بیان

راوی:

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقِیْہٌ وَاحِدٌ اَشَدُّ عَلَی الشَّیْطَانِ مِنْ اَلْفِ عَابِدِ۔(راوہ الجامع ترمذی وابن ماجۃ)

" اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ایک فقیہ (یعنی عالم دین) شیطان پر ایک ہزار عابدوں سے زیادہ سخت ہے۔" (جامع ترمذی وسنن ابن ماجہ)

تشریح :
مقابلہ کا یہ مسلم اصول ہے کہ کامیابی اس آدمی کے حصہ میں آتی ہے جو اپنے مد مقابل کے داؤ پیچ سے بخوبی واقف ہو اور اس کا توڑ جانتا ہو۔
چنانچہ ہم خود دیکھتے ہیں کہ مقابلہ کے اکھاڑہ میں وہ آدمی جو اپنے ظاہری قویٰ اور جسم کے اعتبار سے کوئی اہمیت نہیں رکھتا اپنے اس مقابل کو پچھاڑ دیتا ہے جو جسم و بدن کے اعتبار سے اس سے کئی گنا زیادہ طاقتور ہوتا ہے کیونکہ وہ جب مقابلہ میں آتا ہے تو اس کا دماغ بنیادی طور پر مقابل کے ہر وار سے بچاؤ کی شکل اور اس کے ہر داؤ کا جواب اپنے خزانہ میں رکھتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کامیابی اسی ہی سے ہوتی ہے۔
دنیا میں باطنی طور پر انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطان ہے جو اپنے مکر و فریب کی طاقت سے لوگوں کو گمراہی کی وادی میں پھینکتا رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ لوگ جو شیطان کے مکر و فریب سے واقف نہیں ہوتے اور اس کی طاقت و قوت کا جواب نہیں رکھتے وہ گمراہ ہو جاتے ہیں مگر ایسے لوگ جو اس کے ہر داؤ کا جواب رکھتے ہیں اور اس کی طاقت و قوت کی شہ رگ پر ان کا ہاتھ ہوتا ہے وہ نہ صرف یہ کہ خود اس کی گمراہی سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی محفوظ رکھتے ہیں اور یہ لوگ وہی عالم ہوتے ہیں جن کے قلب و دماغ نور الہٰی کی مقدس روشنی سے منوّر اور ان کے ذہن و فکر علم و معرفت کی طاقت سے بھر پور ہوتے ہیں۔
اسی لئے اس حدیث میں فرمایا جا رہا ہے کہ شیطان کے مقابلہ میں ایک ہزار عابد جتنی طاقت رکھتے ہیں اتنی طاقت تنہا ایک عالم کے پاس ہوتی ہے کیونکہ جب شیطان لوگوں پر اپنے مکر و فریب کا جال ڈالتا ہے اور انہیں خواہشات نفسانی میں پھنسا کر گمراہی کے راستہ پر لگا دینا چاہتا ہے تو عالم اس کی چال سمجھ لیتا ہے چنانچہ وہ لوگوں پر شیطان کی گمراہی کو ظاہر کرتا ہے اور ایسی تدابیر انہیں بتا دیتا ہے جن پر عمل کرنے سے وہ شیطان کے ہر حملے سے محفوظ رہتے ہیں۔
برخلاف اس کے وہ عابد جو صرف عبادت ہی عبادت کرنا جانتا ہے اور علم و معرفت سے کو سوں دور ہوتا ہے وہ تو محض اپنی ریاضت و مجاہدہ اور عبادت میں مشغول رہتا ہے اسے یہ خبر بھی نہیں ہونے پاتی کہ شیطان کس چور دروازے سے اس کی عبادت میں خلل ڈال رہا ہے اور اس کی تمام سعی و کوشش کو ملیا میٹ کر رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ظاہری طور پر وہ عبادت میں مشغول رہتا ہے، مگر لا علم ہونے کی وجہ سے وہ شیطان کے مکر و فریب میں پھنسا ہوا ہوتا ہے اس لئے نہ وہ خود شیطان کی گمراہی سے محفوظ رہتا ہے اور نہ وہ دوسروں کو محفوظ رکھ سکتا ہے
مشکوۃ شریف – جلد اول – علم کا بیان – حدیث 212
مشکوۃ شریف – جلد اول – علم کا بیان – حدیث 
211

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے