-----------------------------------------------------------
*🕯فیضِ ملّت حضرت علامہ مفتی فیض احمد اویسی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*نام و نسب:*
*اسم گرامی:* حضرت علامہ مولانا فیض احمد اویسی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ۔
*کنیت:* ابوالصالح۔
*لقب:* فیضِ ملت، محدث بہاولپوری، مصنّفِ اعظم، صاحبِ تصانیفِ کثیرہ۔
*سلسلۂ نسب اس طرح ہے:* حضرت علامہ مولانا فیض احمد اویسی بن مولانا نوراحمد بن مولانا محمدحامد بن محمد کمال علیہم الرحمۃ والرحمٰن۔
آپ کا تعلّق قوم ’’لاڑ‘‘ سے ہے۔ آپ کا سلسلۂ نسب حضور ﷺ کے چچا محترم سیّدنا عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ تک منتہی ہوتاہے، اس لیے نسبتاً ’’عباسی‘‘ ہیں۔
*(تعارف علمائے اہلِ سنّت: ص40؛ مظلوم مصنّف، ص12)*
*تاریخِ ولادت:* آپ کی ولادتِ باسعادت 1351ھ مطابق 1932ء کو گاؤں ’’حامد آباد‘‘ تحصیل خان پور، ضلع رحیم یارخان، پنجاب پاکستان میں ہوئی۔(
*تعارف علمائے اہلِ سنّت:40)*
*تحصیلِ علم:* والدِ گرامی دینی علوم سے بہرہ ور تھے، ابتدائی دینی تعلیم گھر پر حاصل کی، پھر اپنے قریبی قصبہ ترنڈہ میر خان میں گورنمنٹ پرائمری اسکول میں داخل ہوئے اور پانچ جماعت تک اسکول کی تعلیم حاصل کی اور 1942ء میں پرائمری کا امتحان پاس کیا۔ والدِ گرامی کی خواہش کے مطابق حفظِ قرآن مجید کےلیے حافظ جان محمد صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور ان سے آٹھ پارے حفظ کیے، اور پھر مولانا حافظ سراج احمد علیہ الرحمۃ سے اٹھارہ پارے حفظ کیے، اور خیرپور ٹامیوالی میں مولانا حافظ غلام یسین علیہ الرحمۃ سے1947ء میں مکمّل قرآنِ مجید حفظ کیا۔
آپ فرماتے ہیں: میں نے1947ء کے سال پہلی مرتبہ تراویح کی صورت میں قرآن مجید سنایا، اور 27؍ویں شب ختم قرآن کی تقریب بھی تھی اور قیام پاکستان کی خوشی بھی۔ حفظِ قرآن کے بعد درسِ نظامی کا آغاز کیا، فارسی کی ابتدائی کتب مولانا اللہ بخش علیہ الرحمۃ سے پڑھیں، اور صرف و نحو، ہدایہ، مختصر المعانی، شرحِ جامی وغیرہ ،امام الواعظین، واعظِ شیریں بیاں، عاشقِ رسولﷺ، حضرت علامہ مولانا خورشید احمد فیضی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے پڑھیں، بقیہ کتب علامہ مولانا عبدالکریم علیہ الرحمۃ سے پڑھیں، 1952ء کو جامعہ رضویہ فیصل آباد میں محدثِ اعظم پاکستان حضرت شیخ الحدیث مولانا سردار احمد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے دورۂ حدیث مکمّل کیا اور اُن کے مبارک ہاتھوں سے دستار بندی ہوئی، اور سندِ فراغ حاصل فرمائی۔
*(تعارف علمائے اہلِ سنّت، ص 40)*
*بیعت و خلافت:* دورانِ تعلیم سلسلۂ عالیہ اُویسیہ میں حضرت محکم الدین سیرانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کےسجادہ نشیں،حضرت مولانا خواجہ محمد الدین سیرانی علیہ الرحمۃ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے، اُن کے وصال کے بعد حضرت علامہ مولانا حسن علی رضوی کے توسّط سے شہزادۂ اعلیٰ حضرت مفتیِ اعظم ہند حضرت علامہ مولانا شاہ محمد مصطفیٰ رضا خاں علیہ الرحمۃ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے۔ حضرت مفتیِ اعظم ہند نے سلسلۂ عالیہ قادریہ رضویہ کی خلافت و اجازت عطا فرمائی۔
*سیرت و خصائص:* فیضِ ملّت، مفسرِ اعظم پاکستان، مصنّفِ اعظم، صاحبِ تصانیفِ کثیرہ، شیخ التفسیر والحدیث حضرت علامہ مولانا مفتی محمد فیض احمد اویسی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ۔
حضرت قبلہ فیض احمد اویسی علیہ الرحمۃ اپنے وقت کےجیّد عالم ِ دین، عظیم مصنّف، مایۂ ناز مدرّس، اور بےمثال محقق تھے۔ ساری زندگی اشاعت ِ دینِ مصطفیٰﷺ میں بسر فرمائی؛ پاکستان میں مختلف مقامات پر، دُروسِ قرآن و حدیث کا سلسلہ شروع فرمایا، جو آخری دم تک برقرار رہا۔ بہاولپور کے دور دراز اور پسماندہ علاقے میں دینی مدرسے کی بنیاد ڈالی جس کا نام ’’مدرسۂ منبع الفیوض‘‘ رکھا، جس میں حفظِ قرآن، اور دینی کتب کی تعلیم فی سبیل اللہ دی جاتی؛ دوردراز علاقوں سےطلبہ اپنی علمی پیاس بجھانے کےلیے اس مدرسے میں آنے لگے، دیہات کے ماحول میں ان کا انتظام بہت مشکل تھا، لیکن اس ویران مقام میں علما و حفّاظ و قراء کی جماعت تیار فرمائی جوآج پوری دنیا میں خدمتِ دینِ متین اور ترویج واشاعتِ مسلکِ حق میں مصروف ہیں۔ 1963ء میں حضرت فیضِ ملّت علیہ الرحمۃ نے بہاولپور میں جامعہ اویسیہ رضویہ اور جامع مسجد سیرانی کی بنیاد رکھی، جو الحمد للہ اس وقت اہلِ سنّت کی عظیم دینی درس گاہ ہے، جہاں تمام مروّجہ علوم کی معیاری تعلیم دی جاتی ہے۔ اِن کے علاوہ مختلف مقامات پر درجنوں مدارس آپ کی زیرِنگرانی چلتے رہے اور اب آپ کی اولاد و تلامذہ ان کا انتظام سنبھالے ہوئے ہیں۔
تصنیف و تالیف اور تدریس کے علاوہ، حضرت فیضِ ملّت علیہ الرحمۃ ملکی سیاست سے بھی گہرا شغف رکھتے تھے، چناں چہ آپ پاکستان میں نفاذِ نظامِ مصطفیٰﷺو تحفّظِ مقامِ مصطفیٰ ﷺ کی خاطر قائدِ اہلِ سنّت مولانا شاہ احمد نورانی صدّیقی علیہ الرحمۃ کی قیادت میں مصروفِ عمل اور جمعیت سے منسلک رہے۔
*(تعارف علمائے اہلِ سنّت، ص40)*
حضرت فیضِ ملّت علیہ الرحمۃ اپنے وقت کےایک مایۂ ناز مدرّس تھے؛ آپ کو تمام کتب اور تمام علوم و فنون میں یک ساں مہارتِ تامّہ حاصل تھی۔ کوئی بھی کتاب اُن کے سامنے مشکل نہ تھی، آپ کی تدریس کا انداز ایسا سہل اور دل نشیں تھا کہ غبی و مبتدی طلبہ بھی بآسانی سمجھ لیتے تھے۔ تعلیم کے ساتھ تربیت اور طلبہ کی ذہن سازی بھی فرماتے تھے، طلبہ میں دینِ متین کی خدمت کاجذبہ اور تصلّب فی الدین، مسلکِ حق کی خدمت فی سبیل اللہ کرنے کا جذبہ اور علما وطلبہ میں خود داری، تقویٰ و خلوص کوٹ کوٹ کر بھر دیتےتھے۔ حضرت فیضِ ملّت علیہ الرحمۃ ایک سچے عاشقِ رسولﷺ تھے، بلکہ فنا فی الرسول ﷺ کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ہرسال ماہ ِرمضان دیارِ مصطفیٰ ﷺ میں گزارتے تھے۔ جب رسول اللہﷺ کا ذکر شریف، یا مدینۂ منوّرہ کی یادیں تازہ ہوتیں تو آنکھوں سے موتیوں کی برسات شروع ہوجاتی،اور دیکھنے والے جانتے ہیں کہ عشق ِمصطفیٰﷺ اور یادِ مدینہ میں ایسے بےقرار رہتے تھے، جیسے ماہیِ بےآب،اور حقیقتاً یہی زندگی اور یہی بندگی ہے۔
جب اپنا نام تحریر کرتےتواس طرح تحریر کرتے: ’’مدینے کا بھکاری، فقیر فیض احمد اویسی غُفِرَلَہٗ‘‘۔
ایسابڑا مصنّف، جن کے ہزاروں شاگرد و مریدین ہوں، لیکن سادگی ایسی تھی کہ اکابرین کی یاد تازہ ہوجاتی تھی۔ فی زمانہ تمام دینی شعبہ جات میں بقول’’من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو‘‘ القاب کی بہتات ہے، اِلَّامَاشَآءَ اللہ؛ مگر حضرت فیضِ ملّت علیہ الرحمۃ کےہاں ایسے القاب کی کوئی رو رعایت نہیں تھی۔ دنیاوی آلائشوں سے دامن بچا کر آپ مقصدِ حیات میں کامیاب رہے۔ تدریس کے ساتھ ساتھ، وعظ و نصیحت، مختلف مقامات پر مُناظروں کے چیلنج قبول کرکے احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کے لیے مناظرہ کرنا، اور اپنا وقت بچا کر تحریر و تصنیف میں مصروف رہنا، یہ اس پر فتن اور نفسا نفسی کے عالم میں علما کےلیے ایک مشعلِ راہ ہے۔ حضرت فیضِ ملّت علیہ الرحمۃ واقعی فیضِ ملّت تھے۔ کون سا ایسا موضوع اور کون سا ایسا فن ہےجس میں حضرت نے قلم کشائی نہ فرمائی ہو۔ تمام مروّجہ علوم و فنون، عربی و فارسی زبان میں کتب کا اردو ترجمہ، اور قدیم و جدید موضوعات پر تقریبا ًپانچ ہزار کتب تصنیف فرمائی ہیں؛ بلکہ موجودہ وقت میں یہ آپ کا عالمی ریکارڈ بھی ہے۔ حضرت فیضِ ملّت علیہ الرحمۃ کی زندگی آج کے نوجوان علما و طلبہ کےلیے مشعلِ راہ ہے کہ خلوص وللہیت سے دین کی خدمت، تدریس، تصنیف، کے ساتھ دینی مدارس کا قیام اہل سنّت کے بقا و عروج کےلیے لازم ہے۔ اگر تمام علما مقدور بھر کوشش کریں تو کوئی بعید نہیں کہ اِنْ شَآءَ اللہُ تَعَالٰی ہر طرف دین کی بہاریں نظر آئیں گی۔
*تاریخِ وصال:* آپ کا وصالِ باکمال 15؍رمضان المبارک 1431ھ مطابق 26؍ اگست 2010ء ،بروز جمعرات، بوقت 6:15صبح جامعہ اویسیہ رضویہ بہاولپور میں ہوا۔
جامعہ ہی میں ابدی آرام فرما ہیں۔
*ماخذ و مراجع:* تعارف علمائے اہلِ سنّت؛ مظلوم مصنّف۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ محــمد یـوسـف رضــا رضــوی امجــدی 📱919604397443*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں