مستفتی: محمد انس رضا متعلم دارالعلوم نصیرالدین اولیاء پون کمرہ بنگال،
(وعلیکم السلام و رحمة الله و بركاته)
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَةَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ: صورت مستفسرہ میں حکم یہ ہے کہ زخم سے خون بہنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا ہاں اتنا خون نکل گیا کہ کمزوری آگئی تو مکروہ ہے کیونکہ روزہ اس چیز سے ٹوٹتا ہے جو بدن میں داخل ہو، اور جو چیز بدن سے خارج ہو عام طور پر اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا،جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: الفطر مما دخل و ليس مما يخرج،یعنی روزہ اس چیز سے ٹوٹتا ہے جو بدن میں داخل ہو اور جو چیز بدن سے خارج ہو اس سے نہیں ٹوٹتا(مصنف ابن ابی شیبہ، رقم الحدیث9319،)،اور ترمذی شریف کی حدیث ہے:ثَلاَثٌ لاَ يُفْطِرْنَ الصَّائِمَ الْحِجَامَةُ وَالْقَيْءُ وَالاِحْتِلاَمُ،یعنی تین چیزیں روزے دار کا روزہ نہیں توڑتی، حجامہ کروانا،قے کرنا،اور احتلام، (ترمذي،كتاب الصوم،باب مَا جَاءَ فِي الصَّائِمِ يَذْرَعُهُ الْقَيْءُ)،اور طحطاوی میں ہے: او احتجم لم يفسد، یعنی حجامہ کروایا تو روزہ فاسد نہیں ہوا،(حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح،كتاب الصوم،باب في بيان ما لا يفسد الصوم،صفحہ660،659)،اور ظاہر ہے کہ حجامہ کروانے سے بدن سے خون نکلتا ہے مگر اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا باوجود اس کے کہ اس میں قصداً خون نکالا یا نکلوایا جاتا ہے تو ایسے ہی زخم سے جوکہ خود بخود خون نکل رہا ہے بدرجہ اولی روزہ نہیں ٹوٹے گا،
اور اسی طحطاوی میں ہے: و تكره الحجامة للصائم إذا كانت تضعفه عن الصوم أما إذا كان لا يخافه،فلاباس به، (أيضا حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح صفحہ 660)،یعنی اور روزہ میں کمزوری کا اندیشہ ہو تو حجامہ کرنا مکروہ ہے اور اگر کمزوری کا خوف نہ ہو تو کوئی حرج نہیں،
وَاللهُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُه اَعْلَمُ صَلَّی اللّٰه تَعَالٰی عَلَیْه وَاٰلِه وَسَلَّم
كَتَبَهُ
عبده المذنب محمد شبیر عالم الثقافي غفرله
٣/رمضان المبارک ١٤٤١ھ مطابق ٢٧ اپریل ٢٠٢٠ء
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں