Header Ads

فی زماننا زکوٰۃ اور صدقۂ فطر کے لئے کتنا روپیہ ہونا چاہئے ؟ اور انگریزی کلو گرام کے حساب سے چاندی کے ایک نصاب کا وزن اور اس کی قیمت کیا ہو گی؟

*✍🏻 فی زماننا زکوٰۃ اور صدقۂ فطر کے لئے کتنا روپیہ ہونا چاہئے ؟ اور انگریزی کلو گرام کے حساب سے چاندی کے ایک نصاب کا وزن اور اس کی قیمت کیا ہو گی؟✍🏻*

✒️✒️✒️✒️✒️✒️✒️✒️✒️✒️✒️

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسںٔلہ میں کہ
زکوٰۃ اور صدقۂ فطر کے نصاب میں کچھ فرق ہے یا دونوں کا نصاب ایک ہی ہے فی زماننا اداۓ زکوٰۃ اور صدقۂ فطر کے لئے کتنا روپیہ ہونا چاہئے ؟
 قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرما کر ماجور ہوں۔ 
           المستفتی۔
              ثناء اللہ امجدی
                    کٹک اڑیسہ۔
 
✒️✒️✒️✒️✒️✒️✒️✒️✒️✒️✒️

➖➖➖➖ *الجواب* ➖➖➖➖
زکوٰۃ اور صدقۂ فطر دونوں کے نصاب میں کچھ فرق ہے۔ اس لئے ہم پہلے نصابِ زکوٰۃ کا ذکر کرتے ہیں پھر صدقۂ فطر کا نصاب بیان کریں گے ان شاءاللہ۔
زکوٰۃ کے سلسلہ میں مالک نصاب وہ ہے جو ساڑھے سات تولہ سونایا ساڑھے باون تولہ چاندی یا حواںٔج اصلیہ کے علاوہ اتنی ہی چاندی کی قیمت کے برابر روپے پیسے یا مال تجارت کا مالک ہو اور وہ مملوکہ چیزیں دین (قرض) سے فارغ ہو اور اس پر سال گزر چکا ہو ۔
حدیث شریف میں ہے!
*عن ابى سعيدن الخدرى قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لیس فیما دون خمس اواق من الورق صدقة*-
*ترجمہ*- حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانچ اوقیہ چاندی سے کم میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
(📙مشکوۃ المصابیح)
اسی حدیث پاک کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ!
*ایک اوقیہ چالیس درہم کا ، پانچ اوقیہ ، دو سو درہم ہوئے ، اور دس درہم سات مثقال کے ، اور ایک مثقال ساڑھے چار ماشہ کا ، اس حساب سے دو سو درہم باون تولہ چھ ماشہ ہوئے ، (ساڑھے باون تولہ چاندی) یہ چاندی کا نصاب ہے ، درہم کی قیمت کا اعتبار نہیں وزن کا لحاظ ہے*۔
(📙مرأة المناجيح ج ٣ ص ٢٥ بحوالہ فتاویٰ اہلسنت)
اور علامہ علاء الدین حصکفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں!
*نصاب الذھب عشرون مثقالا والفضة مائتا درهم كل عشرة درهم وزن سبعة مثاقيل و فى عرض تجارة قيمته نصاب*-
*ترجمہ* - سونے کا نصاب بیس مثقال (ساڑھے سات تولہ) اور چاندی کا نصاب دو سو درہم (ساڑھے باون تولہ) ہے جن میں ہر دس درہم کا وزن سات مثقال ہے ، اور مال تجارت میں اس کی قیمت نصاب کے برابر ہو۔
(📙درمختار ج ١ ص ١٣٤)
اور مجدد دین و ملت حضور سرکار اعلی حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں کہ!
*فی الواقع سونے کا نصاب ساڑھے سات تولے اور چاندی کے ساڑھے باون تولے ہے ان میں سے جو اس کے پاس ہو اور سال پورا اس پر گزر جائے اور کھانے پینے مکان وغیرہ ضروریات سے بچے اور قرض اسے نصاب سے کم نہ کردے تو اس پر زکوۃ فرض ہے۔*
(📙فتاویٰ رضویہ ج ١٠ ص ١٣٣)
مفتیٔ اعظم ہالینڈ مفتی عبد الواجد قادری علیہ الرحمہ سابق امین شریعت ادارۂ شرعیہ پٹنہ بہار نے انگریزی کلو گرام کے حساب سے ساڑھے سات تولہ سونا کا وزن ستاسی گرام ستاںٔیس پوائنٹ ، اور ساڑھے باون تولہ چاندی کا وزن چھ سو گیارہ گرام باسٹھ پوائنٹ رقم فرمایا ہے۔
(📙 فتاویٰ یورپ ص ٢٦٨)
آج مورخہ ١٠/مںٔی سنہ٢٠٢٠ء بروز اتوار بازار کے نرخ کے اعتبار سے چاندی تینتالیس ہزار چھ سو روپے/ *-(Rs43,600)* کلو ہے۔
اب اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کا حساب تینتالیس ہزار چھ سو روپے کلو کے لحاظ سے کرتے ہیں تو اس کے ایک نصاب (یعنی چھ سو گیارہ گرام باسٹھ پوائنٹ */.611,62)* کی قیمت تقریباً چھبیس ہزار چھ سو چھیاسٹھ روپے تریسٹھ پیسے *(-.26,666,63 .Rs)* ہوں گے {ت ابو رحمانی}
*نوٹ* - چاندی کا ایک نصاب سونے کے کںٔی نصاب کو پہنچ جاتا ہے اس لئے انفع للمسلمین کا لحاظ کرتے ہوئے چاندی کے نصاب کا اعتبار کیا جائے گا۔
پس ثابت ہوا کہ فی الحال جس کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی ہے یا اتنے ہی روپے یعنی
 *(Rs. 26,666,63)* ہوں 
 یا اتنی ہی قیمت کے سامان تجارت کا مالک ہو اور وہ مملوکہ اشیاء دین اور حاجت اصلیہ سے فاضل ہو نیز اس پر سال بھی گزر چکا ہوتو اس پر زکوۃ فرض ہے۔
*حکم احتیاطی*- سونے چاندی کی قیمت میں روز بروز کچھ نہ کچھ کمی بیشی ہوتی رہتی ہے اس لئے حکم یہ ہے کہ جس دن زکوٰۃ ادا کرنا ہو اس دن بازار کے نرخ سے مذکورہ وزن کی قیمت معلوم کر لیں اور اس کا ڈھاںٔی فیصد زکوٰۃ ادا کریں۔ یا پھر احتیاطاً فی الحال جس کے پاس پچیس ہزار روپے ہیں وہ اسی حساب سے زکوٰۃ ادا کریں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
(٢) اور نصاب فطرہ کے متعلق حضور فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ!
*صدقۂ فطر کے مسئلے میں مالک نصاب وہ شخص ہے جو ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا کا مالک ہو ، یا ان میں سے کسی ایک کی قیمت کا سامان تجارت سامان یا غیر تجارت کا مالک ہو اور مملوک چیزیں حاجت اصلیہ سے زائد ہوں۔*
(📙انوار الحدیث ص ٢٣٧/٣٨)
*تبصرۂ ابو رحمانی*- زکوٰۃ میں یہ ہے کہ حواںٔج اصلیہ کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا یا اتنے روپے پیسے ہوں کہ ساڑھے باون تولہ چاندی خرید سکے یا اتنی ہی قیمت کے سامانِ تجارت کا مالک ہو اور دین وغیرہ نہ ہو ، اور اگر دین ہو تو ادا کرنے کے بعد نصاب میں کمی نہ آئے ، نیز اس پر سال گزر چکا ہو‌۔ اور صدقۂ فطر میں یہ ہے کہ اوپر جو ذکر ہوا اتنے سونے یا چاندی ہوں یا حواںٔج اصلیہ کے علاوہ اتنے ہی روپے پیسے ہوں یا اتنی ہی مالیت کے سامان تجارت یا غیر تجارت کا مالک ہو ، اس میں دین وغیرہ سے فارغ ہونے ، سامان تجارت ہونے اور سال گزرنے کی شرط نہیں ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
✨✨✨
*نوٹ*- اس تعلق سے میرا ایک اور فتویٰ شاںٔع ہوا جس میں *جامعة الرضا* بریلی شریف کے وزن کا اعتبار کرتے ہوئے چالیس ہزار روپے کلو چاندی کے حساب سے نصابِ زکوٰۃ کی قیمت بیان کی گئی ہے ، حضور امین شریعت اور جامعة الرضا کے اوزان میں تھوڑا فرق ہے اس لئے دونوں وزن کو دو الگ الگ فتوؤں میں الگ الگ قیمت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ میرے ان دونوں فتوؤں میں کوئی تعارض نہیں ہے۔
✒️✒️✒️✒️✒️✒️✒️✒️✒️✒️✒️

*کتبہ ۔ حضرت علامہ و مولانا مفتی رضوان احمد مصباحی رامگڑھ۔*
📱9576545941=
✨✨✨
*المرتب ۔ فیصل اقبال صدیقی مہاراشٹرا*-
✨✨✨
*منجانب ـ رضوی دارالافتاء و تربیت افتاء کورس۔*

✒️✒️✒️
Follow this link to join my WhatsApp group: https://chat.whatsapp.com/LspcAGwQ90q5FpVhJBpVMe
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
ہندوستان سے باہر کے افراد اس گروپ میں شامل نہ ہوں ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے