کہ ورزش کے لیے کرکیٹ میچ بینا شرط لگا ئے کھیلنا کیسا ہے اگر کوئی امام ورزش کیلئے کھیلے تو کیا اس امام کے پیچھے نماز جائز ہے کی نہیں حوالہ کے ساتھ جواب جلد عنایت فرمائیں،
المستفتی: غلام مرتضی آسوی جےنگر،
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَةَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ: صورت مسئولہ میں کہ کرکٹ اگر فقط بطور ورزش ہو، بطور لہو ولعب نہ ہو، نہ ہی روپیہ وغیرہ کی شرط پر ہوکہ وہ جواکی صورت ہوجائے، اسی طرح اس کی مصروفیت سے شریعت کےکسی امرکی نافرمانی نہ ہو اور نہ منہیات سے کسی کا ارتکاب، نیزستر پوشی ہوتو (کرکٹ کھیلنا) جائز ہے. ظاہر ہےاس سے صرف ورزش مقصود ہےاور ورزش سے صحت بدن.
برخلاف اس کے اگر مذکورہ بالا شرائط کی رعایت نہ ہوتو ہر گز جائز نہیں کیونکہ حدیث میں صرف تین کھیل جائز ہیں اور یہ ان میں سے نہیں ہے،جیسا کہ فتاوی تربیت افتاء میں ہے کہ: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین کھیلوں کو روا فرما یا ہے، کمان سے تیر چلانا، گھوڑے کو ادب دینا، زوجہ کے ساتھ ملاعبت کرنا،اور ان کے علاوہ سب کھیل حرام ہیں، در مختار میں ہے: وكره كل لهو لقوله عليه الصلاة والسلام كل لهو المسلم حرام إلا ثلاثة ملاعبت أهله و تأديبه بفرسه و مناضلته بقوسه،١ھ"
،البتہ جس فعل و کھیل سے منفعت جائزہ وابستہ ہو جائز ہے، لہٰذا ریاضت بدنی کی نیت سے کرکٹ وغیرہ کھیل سکتے ہیں بشرطیکہ ناف سے لے کر گھٹنے تک بدن کا حصہ کپڑے سے ڈھکا رہے اور نماز ضائع نہ کریں، مگر لہو و لعب، ہارجیت کے طور پر نہ ہو بلکہ اس لیے ہو کہ جسم کو طاقت و قوت حاصل ہو جائے تو صحیح ہے-فتاوی رضویہ میں ہے"ہر کھیل اور عبث فعل جس میں نہ کوئی غرض دین نہ کوئی منفعت جائزہ دنیوی ہو سب مکروہ بیجا ہیں کوئی کم کوئی زیادہ"ملخصا (ج۹،ص٤٤)ردالمحتار میں ہے "فی الجواہر قد جاء الاثر فی رخصۃ المسارعۃ لتحصیل القدرۃ علی المقاتلۃ دون التلھی فانہ مکروہ اھ،(فتاوی مرکز تربیت افتاء ج2 صفحہ 491)،اسی میں یہ بھی ہے کہ: اگر ورزش کی نیت سے کھیلے تو چند شرائط کی پابندی کے ساتھ جائز ہے(1) نماز کے اوقات میں نہ کھیلے (2) اپنے دینی مشاغل نیز طلب علم سے غافل ہو کر کھیل میں ہی انہماک نہ ہو (3) ٹورنا منٹ میں حصہ نہ لے (4) ران اور دوسرے اعضاء جن کو چھپانا واجب ہے نہ کھولے( فتاوی مرکز تربیت افتاء ج2 صفحہ 490)،
اور علامہ عبدالمصطفی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ: ورزش کے لیے کرکٹ، فٹ بال، کبڈی، گھوڑدوڑ، پیدل دوڑ کا مقابلہ،نیز نیزہ بازی،کشتی، بنوٹ وغیرہ کا کھیل جائز ہے، بشرطیکہ نمازیں ترک نہ ہوں،اور گھٹنے اور ران نہ کھلنے پائیں،اور اگر کوئی شخص ورزش کے ساتھ ساتھ جہاد کی تیاری کی نیت بھی شامل کر لے کہ اس طرح میں طاقتور ہو کر بوقت ضرورت جہاد کروں گا، تو اس کو ان کھیلوں پر ثواب بھی ملے گا(مسائل القرآن صفحہ 241)،
الحاصل،اگر شرائط کی پابندی کے ساتھ کرکٹ کھیلے تو جائز اور اس کے پیچھے نماز درست، اور اگر شریعت کی رعایت نہ کی جائے" جیسا کہ آج کل رائج ہے" تو فقط یہ کھیل ہے جو جائز نہیں،
هذا ما ظهرلي والعلم عند الله
وَاللهُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُه اَعْلَمُ صَلَّی اللّٰه تَعَالٰی عَلَیْه وَاٰلِه وَسَلَّم
كَتَبَهُ
عبده المذنب محمد شبیر عالم الثقافي غفرله
٤/رمضان المبارک ١٤٤١ھ مطابق ٢٨ اپریل ٢٠٢٠ء
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں