کسی کے گھر کا دروازہ بجانے (دستک) سے متعلق دو اہم باتیں

کسی کے گھر کا دروازہ بجانے (دستک) سے متعلق دو اہم باتیں
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

📬 جب بھی کسی کے گھر جائیں تو دروازہ بجانے سے پہلے دو باتوں کا ضرور لحاظ رکھیں۔

*(1)* کسی کا دروازہ بہت زور سے کھٹ کھٹانا اور شدید آواز سے چیخنا خاص کر علماء اور بزرگوں کے دروازوں پر ایسا کرنا اور ان کو زُور سے پکارنا مکرو ہ و خلافِ ادب ہے۔
*(مدارک، النور، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۷۷۶)*

 لہٰذا درمیانے انداز میں دروازہ بجائیں اور آواز دینے کی ضرورت ہو تو درمیانی آواز سے پکاریں، یونہی جس کے گھر پہ بیل لگی ہو تو ایسا نہ کریں کہ بٹن پر ہاتھ رکھ کر ہی کھڑے ہو جائیں اور جب تک دروازہ ُکھل نہ جائے اس سے ہاتھ نہ ہٹائیں  بلکہ ایک بار بٹن دبا کر کچھ دیر انتظار کریں، اگر دروازہ نہ کھلے تو دوبارہ بجا لیں، کچھ دیر انتظار کے بعد پھر بجا لیں، اگر تیسری بار بجانے کے بعد بھی جواب نہ ملے تو کسی شدید مجبوری اور ضرورت کے بغیر چوتھی بار نہ بجائیں بلکہ واپس چلے جائیں اور کسی دوسرے وقت میں ملاقات کر لیں۔ 
نیز یہاں یہ بھی یاد رہے کہ تین مرتبہ تک دروازہ بجانے یا گھنٹی بجانے کی اجازت ہے، کوئی واجب نہیں لہٰذا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دو یا ایک مرتبہ دروازہ بجانے پر اگر کوئی دروازہ نہ کھولے تو واپس چلے جائیں۔

*(2)* جب کسی کا دروازہ بجائیں اور اندر سے پوچھا جائے کہ کون ہے تو اس کے جواب میں یہ نہ کہیں کہ میں ہوں، بلکہ اپنا نام بتائیں تاکہ پوچھنے والا آپ کو پہچان سکے۔

حضرت جابر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ: میں اپنے والد کے قرض کے سلسلے میں حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ 
 تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو میں نے دروازہ بجایا۔ 
آپ نے پوچھا: کون ہے؟ میں نے عرض کی: میں ہوں۔
آپ نے ارشاد فرمایا: ’’میں، میں ۔‘‘
 (یعنی میں تو میں بھی ہوں ) 
گویا آپ نے اس جواب کو ناپسند فرمایا۔
*(بخاری، کتاب الاستئذان، باب ما اذا قال: من ذا؟ فقال: انا، ۴ / ۱۷۱، الحدیث:۶۲۵۰)*

*دین ِاسلام کا وصف:*
مذکورہ گفتگو سے معلوم ہوا کہ اسلام نے ہمیں زندگی کے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں اپنی تعلیمات سے نوازا ہے اور زندگی کے آداب سکھائے ہیں نیز دوسروں کی سہولت کا خیال رکھنا بھی سکھایا ہے۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ قاضـی شعیب رضـا تحسینی امجــدی 📱917798520672+*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے