علامہ غلام رسول سعیدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
*"جس طرح قربانی کے جانوروں میں تنوع ہے اور ان کی کئی اقسام ہیں، اسی طرح صدقہ فطر میں بھی تنوع ہے اور اس کی کئی اقسام ہیں اور جو لوگ جس حیثیت کے مالک ہیں ، وہ اسی حیثیت سے صدقہ فطر ادا کریں !" .
مثلاٙٙ جو کروڑ پتی لوگ ہیں، وہ چار کلو پنیر کے حساب سے صدقہ فطر ادا کریں ، جو لوگ لکھ پتی ہیں ، وہ چار کلو کشمش کے حساب سے صدقۂ فطر ادا کریں اور جو ہزاروں روپوں کی آمدنی والے ہیں، وہ چار کلو گرام کھجور کے حساب سے صدقہ فطر ادا کریں اور جو سینکڑوں کی آمدنی والے ہیں، وہ دو کلو گندم(گیہوں) کے حساب سے صدقۂ فطر ادا کریں۔
*لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آج کل کروڑ پتی ہوں یا سینکڑوں کی آمدنی والے ہوں ، سب دوکلو گندم کے حساب سے صدقہ فطر ادا کرتے ہیں اور تنوع پر عمل نہیں کرتے۔*
جب کہ قربانی کے جانوروں میں لوگ تنوع پر عمل کرتے ہیں اور کروڑ پتی لوگ کئی کئی لاکھ کے بیل خرید کر اور متعدد قیتی اور مہنگے دنبے اور بکرے خرید کر ان کی قربانی کرتے ہیں۔
*اس کی کیا وجہ ہے؟*
ہم اپنا جائزہ لیں ، کہیں اس کی یہ وجہ تو
نہیں ہے کہ قربانی کے مہنگے اور قیمتی جانور خرید کر انہیں اپنی شان و شوکت اور امارت دکھانے کا موقع ملتا ہے۔
*ہم بڑے فخر سے وہ قیمتی جانور اپنے عزیزوں کو دکھاتے ہیں اور نمود و نمائش کرتے ہیں۔اور صدقہ فطر کسی غریب آدمی کے ہاتھ پر رکھ دیا جاتا ہے، اس میں دکھانے اور سنانے اور اپنی امارت جتانے کے مواقع نہیں ہیں۔*
اس لیے کروڑ پتی سے لے کر عام آدمی تک سب دوکلو گندم کے حساب سے صدقہ فطر ادا کرتے ہیں ۔
*سوچیے ہم کیا کررہے ہیں؟*
کہیں ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن یہ ساری قربانیاں ریا کاری قرار دے کر ہمارے منہ پر ماردی جائیں۔
رسول اللہ ﷺ نے قربانی کے جانوروں کی متعدد قِسمیں اسی لیے بیان کی ہیں کہ ہر طبقہ کے لوگ اپنی حیثیت کے لحاظ سے قربانی کا تعین کریں۔
اسی طرح آپ نے صدقہ فطر کی متعدد اقسام بھی اسی لیے بیان کی ہیں کہ ہر طبقہ کے لوگ اپنی حیثیت کے لحاظ سے صدقہ فطر ادا کریں۔
*سو جس طرح ہم اپنی حیثیت کے لحاظ سے قربانی کے جانوروں کا تعین کرتے ہیں، اسی طرح ہمیں اپنی حیثیت کے لحاظ سے صدقہ فطر کی قسم کا تعین بھی کرناچاہئے اور تمام طبقات کے لوگوں کو صرف دوکلو گندم کے حساب سے صدقہ فطر پر ہی نہیں ٹرخانا چاہیے“۔*
#بحوالہ: نعمة الباری شرح صحیح البخاری ، جلدج 3، ص 764)
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں