کیا جمعہ وعیدین کی جو شرطیں احناف بیان کرتے ہیں وہ کہیں سے ثابت نہیں ؟



کیا جمعہ وعیدین کی جو شرطیں احناف بیان کرتے ہیں وہ کہیں سے ثابت نہیں ؟؟
(پہلی قسط) 

تحریر : نثار مصباحی
رکن : روشن مستقبل 

محبِ گرامی مولانا محمد شاہد علی مصباحی (جالون) نے بتایا کہ کچھ غیر مقلدین یہ کہہ رہے ہیں کہ احناف کی طرف سے جو شرائط جمعہ و عیدین کی گنائی جاتی ہیں وہ قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہیں. اس لیے جمعہ و عیدین کی نماز کہیں بھی ہوسکتی ہے. !!!
اس طرح کے فارغ دعوے خود ہی اپنا کھوکھلاپن بتا دیتے ہیں. مجھے حیرت ہوتی ہے کہ لوگ کیسے اس طرح کے دعوے کر دیتے ہیں.
آئیے اس دعوے کی حقیقت دیکھتے ہیں:
احناف کے نزدیک جمعہ و عیدین کے لیے ایک شرط "مصر یعنی شہر" ہے. 
اس کی دلیل یہ ہے:
مصنف ابن ابی شیبہ میں سندِ صحیح کے ساتھ ہے:
- حدثنا جرير عن منصور عن طلحة عن سعد بن عبيدة عن أبي عبدالرحمن قال : *قال علي : لا جمعة ولا تشريق ولا صلاة فطر ولا أضحى إلا في مصر جامع أو مدينة عظيمة.* 
قال حجاج: وسمعت عطاء يقول مثل ذلك.
- حدثنا عباد بن العوام عن عمر بن عامر عن حماد عن إبراهيم عن حذيفة قال : *ليس على أهل القرى جمعة إنما الجُمع على أهل الأمصار مثل المدائن.*
((المصنف لابن أبی شیبۃ, کتاب الصلاۃ, کتاب الجمعۃ, باب من قال لاجمعۃ ولاتشریق الا فی مصر جامع))
یہ حدیث مصنفِ عبد الرزاق اور شرح معانی الآثار میں بھی سند صحیح کے ساتھ ہے. 
یہ اگرچہ مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ کا ارشاد ہے مگر یہ کوئی عقل سے مستنبط کی جانے والی بات نہیں ہے اس لیے یہ حدیثِ مرفوع اور ارشادِ رسول کے حکم میں ہے. 

ذرا دیکھیں کہ اس حکمی مرفوع حدیث میں حضرتِ مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ شہر کے سوا کہیں اور جمعہ و عیدین نہیں. مگر آج کے بعض غیر مقلد کہتے ہیں کہ جمعہ و عیدین کے لیے مصر یعنی شہر کی شرط کہیں سے ثابت نہیں. جمعہ اور عیدین کہیں بھی ہو سکتے ہیں. بلکہ آج کل تو یہ حضرات دیہاتوں تک کے گھر گھر میں عید کی نماز قائم کرنے پر زور دے رہے ہیں کہ اگر مثلا ایک دیہاتی آبادی میں 100 گھر ہیں تو سو کے سو گھروں میں عید کی نماز کوٹھریوں اور کمروں تک میں قائم کرسکتے ہیں. !!! ذرا سوچیے. !!!! حکماً مرفوع حدیثِ پاک میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرما رہے ہیں کہ شہر ہی میں جمعہ و عیدین ہو سکتے ہیں مگر یہ لوگ کَہ رہے ہیں کہ نہیں, دیہاتوں تک کے گھر گھر میں ہو سکتے ہیں. !!!

- رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے دور ہی میں تقریبا پورا جزیرۃ العرب مسلمان ہو گیا تھا, مگر حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے کسی دیہات میں جمعہ نہ قائم فرمایا اور نہ اجازت دی. حتی کہ اس وقت مسجدِ قبا شریف کا علاقہ مدینے سے باہر تھا. وہاں سے لوگ مشقتیں اٹھا کر جمعہ کے لیے مسجدِ نبوی آتے تھے, اس کے باوجود کبھی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ تم لوگ وہیں جمعہ قائم کر لیا کرو, شہرِ مدینہ آنے کی ضرورت نہیں. 
بلکہ تحقیق سے ثابت ہے کہ عین ہجرت سے قبل ہی جمعہ فرض ہوچکا تھا. ہجرت کے وقت مدینہ منورہ میں داخل ہونے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے باختلافِ روایت 14 دن یا 22 دن قبا شریف میں قیام فرمایا. صحیحین یعنی بخاری شریف و مسلم شریف میں ہے کہ 14 دن ٹھہرے. صحابۂ کرام کے ساتھ مسجدِ قبا میں نمازیں بھی ادا فرمائیں. قُبا شریف اس وقت مدینہ منورہ سے الگ دیہات تھا. مگر حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے وہاں جمعہ قائم نہیں فرمایا. بلکہ دو ہفتہ وہاں گزارنے کے بعد جمعہ کے روز چاشت کے وقت وہاں سے صحابۂ کرام کے ساتھ مدینہ منورہ کے لیے نکلے. مدینہ منورہ میں جہاں آج "مسجد الجمعہ" ہے وہاں پہنچ کر آپ نے شہرِ مدینہ میں جمعہ قائم فرمایا. !!! یہ اسلام کا پہلا جمعہ تھا. 
اگر شہر کی شرط نہ ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم قبا شریف ہی میں گزارے گئے دونوں ہفتوں میں جمعہ قائم فرماتے. یا کم از کم بعد میں ہی دیہات والوں کو جمعہ قائم کرلینے کی اجازت اور حکم دے دیتے. لیکن پوری حیاتِ طیبہ میں کبھی آپ نے کہیں ایک دیہات میں بھی جمعہ قائم نہیں فرمایا.
ایک طرف رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا یہ طریقہ ہے, اور دوسری طرف بعض غیرمقلدین ہیں جو کَہ رہے ہیں کہ شہر کی شرط کسی حدیث سے ثابت نہیں. !!!

ہمیں معلوم ہے کہ یہاں پہنچ کر یہ حضرات کہیں گے کہ بخاری شریف کی حدیث ہے کہ وفد عبد القیس نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس سے واپسی کے بعد بحرین کے *"قریہ"* جواثا/جواثیٰ میں جمعہ قائم کیا, اور قریہ دیہات کو کہتے ہیں. لہذا شہر کی شرط لگانا درست نہیں. 
اس پر عرض ہے کہ *"قریۃ"* کا لفظ شہر اور دیہات دونوں کے لیے بولا جاتا ہے. اسی لیے مکہ مکرمہ کو "أم القری" کہا جاتا ہے یعنی قریوں(بستیوں) کی اصل اور جَڑ. اگر اِن کی یہ بات مان لی جائے کہ قریہ کا معنی صرف دیہات ہوتا ہے تو مکہ صرف دیہاتی بستیوں کی اصل قرار پائے گا, شہروں کی نہیں, جب کہ یہ بالکل غلط ہے.
امام ابن الأثیر الجزری (متوفی 606ھ) "النہایہ فی غریب الحدیث" میں لکھتے ہیں:
الْقرْيَة من المساكن والأبنية والضياع، *وَقد تطلق على المدن*.
 یعنی "قریہ" رہائش گاہوں, عمارتوں, اور سامانوں(جائدادوں) پر مشتمل ہوتا ہے. *یہ شہروں پر بھی بولا جاتا ہے.*
- امام بدر الدین عینی (متوفی 855ھ) عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں اسی حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
 قَالَ صَاحب (الْمطَالع) : *الْقرْيَة : الْمَدِينَة، وكل مَدِينَة قَرْيَة* لِاجْتِمَاع النَّاس فِيهَا، من: قريت المَاء فِي الْحَوْض أَي: جمعته.
یعنی *قریہ کا معنی شہر ہے. اور ہر شہر 'قریہ' ہے.* 
علاوہ ازیں قرآن کریم, سورۃ الزخرف, آیت نمبر 31 میں مکہ اور طائف جیسے دو شہروں کو "القریتین"(دونوں قریے) کہا گیا ہے. آیتِ کریمہ میں ہے:
وَقَالُوا۟ لَوۡلَا نُزِّلَ هَـٰذَا ٱلۡقُرۡءَانُ عَلَىٰ رَجُلࣲ مِّنَ ٱلۡقَرۡیَتَیۡنِ عَظِیمٍ.
کیا آپ مکہ اور طائف کو بھی دیہات کَہ دیں گے؟؟؟
"جواثا" بحرین کا ایک "قریہ" تھا. جب "قریہ" شہر کو بھی کہتے ہیں تو آپ بلادلیل یہ کہاں سے طے کر سکتے ہیں کہ وہ ایک دیہات تھا؟

بلکہ ہم تو دلائل کے ساتھ کہتے ہیں کہ جواثا ایک شہر تھا. دیہات نہیں تھا.
امام عینی فرماتے ہیں:
1- حکى ابْن التِّين عَن الشَّيْخ أبي الْحسن: *أَنَّهَا مَدِينَة.*
ابن التین نے شیخ ابو الحسن سے نقل کیا ہے کہ جواثا ایک شہر ہے.

2-3- لغتِ عرب کی معروف کتاب "الصحاح للجوہری" اور زمخشری کی "البلدان" میں ہے:
*جواثى: إسم حصن بِالْبَحْرَيْنِ.*
*جواثا بحرين میں ایک قلعے کا نام ہے.*
4- علامہ یاقوت حموی (متوفی 626ھ) کی مشہورِ زمانہ کتاب "معجم البلدان" میں ہے:
"جواثا : حصن لعبد القيس بالبحرين"
"جواثا, بحرین میں عبد القیس کا ایک قلعہ ہے."
کیا قلعہ بھی کوئی دیہات ہوتا ہے؟

5- ابو عبید البکری الأندلسی (متوفی 478ھ) اپنی کتاب "معجم ما استعجم" میں لکھتے ہیں:
جُوَاثَى-بضم أوله، وبالثاء المثلثة، على وزن فُعالَى- : مَدِينَة بِالْبَحْرَيْنِ لعبد الْقَيْس.*
*جواثا بحرین میں عبد القیس کا ایک شہر ہے.*

یہ تمام تفصیلات آپ حضرات کے سامنے ہیں. 
اب بتائیں کہ حدیث سے احناف کی یہ شرط ثابت ہے یا نہیں؟
اسی سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ مخالفین کے بےسر پیر کے فارغ دعوے کس قدر فریب پر مبنی ہوتے ہیں !!!

یہی حال جمعہ وعیدین کی دوسری شرائط کا بھی ہے, جن کے دلائل فقہِ حنفی کی مطول کتابوں میں ان شاء اللہ آپ کو مل جائیں گے.

(جاری) 

#نثارمصباحی 
29رمضان1441ھ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے