حضرتِ انس کی نمازِعید والی روایت سے استدلال کا تحقیقی جائزہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تحریر: فیضان سرور مصباحی
[جامعۃ المدینہ ـ نیپال]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جامعہ سلفیہ بنارس، انڈیا میں وہابی مکتبِ فکر کا ایک مرکزی ادارہ مانا جاتا ہے۔ وہاں کا ایک تازہ فتویٰ نظر سے گزرا، جس میں صحابی رسول حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی نماز عید الفطر سے متعلق ایک روایت سے عجیب وغريب استدلال کے بعد یہ فیصلہ سنایا گیا ہے کہ "آج کل اپنے اپنے گھروں میں بھی نمازِعید جائز ہے۔"
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس سے حنفی عوام بلکہ ایک بڑا علمی طبقہ بھی ذہنی خلجان کا شکار ہے۔ اور اس سلسلے میں اصل مسئلہ جاننے کا خواہاں ہے۔ اس پر حنفی مقلدین سے بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ جامعہ اشرفیہ مبارک پور اور دیگر ذمہ دار سنی اداروں کی جانب سے جو یہ رہنمائی کی گئی کہ جتنے لوگوں کے لیے گنجائش ہو نمازِعید میں شامل ہوجائیں، بقیہ اپنے گھروں میں چار رکعت نماز چاشت کا اہتمام کرلیں۔ گھر میں، یا جگہ جگہ ٹکڑیوں میں بٹ کر نمازِعید پڑھنے کی کوشش نہ کریں، اسی پر عمل کی ترکیب بنائیں۔ بعض حلقوں کی طرف سے یہ بات بھی آرہی ہے کہ ایسے وقت میں کیا رہنمائی ہونی چاہیے. اس سلسلے میں ہم حنفیوں کی کتابیں خاموش ہیں۔ یہ ان کے ذہنِ نارسا کا قصور ہے۔ وکیل احناف علامہ بدر الدین عینی حنفی متوفیٰ : ٨٥٥ھ نے صاف لکھا ہے کہ نمازِعید چھوٹنا جہاں پایا جائے وہاں کے بارے میں یہ بحث ہے ، خواہ یہ چھوٹنا اختیاری طور پر ہو کہ اضطراری طور پر، بخاری شریف میں کتاب العیدین کے تحت "باب إذا فاته العيد… " کے تحت عمدۃ القاری میں یہ وضاحت دیکھی جاسکتی ہے۔
پھر فقہی کتابوں میں بھی اس کی نظیر موجود ہے، چناں چہ اس زمانے میں بھی لوگ جیلوں میں قید ہوتے تھے جن کو عید کی اجازت نہیں دی جاتی تھی. اور آج بھی قید ہی ہیں، بس وہ جیل میں تھے اور آج ہر گھر قید خانے میں تبدیل ہوچکا ہے۔ لہٰذا موجودہ فقہاء احناف کی جانب سے جو بروقت رہنمائی کی گئی ہے. وہ حق اور درست ہے۔ اسی پر عمل کی تلقین کی جاتی ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حدیث کے نام پرکی جانے والی ملمع سازیوں کے دائرۂ اثر میں آکر کچھ افراد تو بہت ہی عجیب وغريب آوازیں نکال رہے ہیں۔ چناں اب اپنوں کے اطمینان، "مسلک اہل حدیث" کی کمزوریوں پر تنبیہ اور مذکورہ سلفی فتویٰ میں بطور دلیل مذکور روایات کی صحیح توضیح و تفہیم کے لیے آنے والی سطریں پیش کی جارہی ہیں۔ چوں کہ یہ مکتبِ فکر "عامل بالحديث" ہونے کا بڑا داعی ہے، اور اسی بنیاد پر اپنا نام "اہل حدیث" بتاتا ہے۔ اس لیے خاص "علوم الحدیث" اور علم جرح وتعدیل کی روشنی میں متعلقہ روایات سے استدلال کے عجائب اور ان کی کمزوریوں کی نشاندہی کی کوشش ہوگی۔ وبالله التوفيق.
پہلی دلیل پر تنبیہ اور حدیث کی صحیح تفہیم
ــــــــــــــــــــــ
سلفی فتویٰ کی پہلی دلیل یہ ہے :
"کان إذا فاته العيد مع الإمام ،جمع أهله، فصلى بهم ،مثل صلاة الإمام في العيد" (السنن البيهقي، بحواله فتح الباري٤٧٥/٢) یعنی جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کی امام کے ساتھ نماز عید فوت ہوجاتی تو وہ اپنے گھر والوں کو جمع کرکے نمازِعید امام کی طرح ادا کرتے۔"
(🌻) اس روایت سے استدلال کے بارے میں سب سے پہلا سوال تو یہ بنتا ہے کہ صحاحِ ستہ، بلکہ بخاری ومسلم سے کم پر راضی نہ ہونے والے طبقے کے پاس کون سی ایسی مجبوری پیش آگئی کہ اب انھیں "سنن بیہقی" سے استدلال کرنا پڑ رہا ہے ؟
(🌻) دوسری بات یہ ہے کہ پیش کردہ روایت "ضعیف" ہے۔ اور حدیثِ ضعیف سے احکام میں استدلال درست نہیں. اس حدیث پاک کا مکمل پس منظر یہ ہے کہ خادم رسول حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بصرہ کے ایک مقام "زاویہ" میں رہا کرتے تھے جو بصرہ سے دوفرسخ (٩/ کلومیٹر سے کچھ زائد) پر واقع تھا۔ یہ دیہات نہ تھا، بلکہ خود شہر یا قصبہ کی شکل کا ایک محلہ تھا۔ اور آپ وہاں بطورِ اعلمِ علماءِ بلد موجود تھے۔ کبھی تو ایسا ہوتا کہ خود زاویہ سے چل کر "بصرہ" میں آتے اور وہاں جمعہ کی نماز ادا فرماتے، اور کبھی وہیں زاویہ ہی میں اپنے غلاموں، بیٹوں اور وہاں کے باشندوں کے ساتھ "جمعہ وعیدین" قائم فرمالیتے۔ امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفیٰ : ٢٥٦ھ تعلیقاً بیان فرماتے ہیں:
وكان أنس رضي الله تعالى عنه في قصره أحيانا يجمع، وأحيانا لايجمع. وهو بالزاوية على فرسخين. (صحیح البخاری، ١/١٣٥، ج: ٤، کتاب العیدین ، )
زیر بحث سلفی فتوے میں بیہقی شریف کی جس روایت سے استدلال کیا گیا ہے وہ پوری روایت مع السند یوں ہے :
٦٢٣٧ - أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ أَبِي الْمَعْرُوفِ الْفَقِيهُ، وَأَبُو الْحَسَنِ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ الْإِسْفَرَايِينِيَّانِ بِهَا قَالَا: ثنا أَبُو سَهْلٍ بِشْرُ بْنُ أَحْمَدَ , ثنا حَمْزَةُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْكَاتِبُ، ثنا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، ثنا هُشَيْمٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ خَادِمِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: كَانَ أَنَسٌ إِذَا فَاتَتْهُ صَلَاةُ الْعِيدِ مَعَ الْإِمَامِ جَمَعَ أَهْلَهُ فَصَلَّى بِهِمْ مِثْلَ صَلَاةِ الْإِمَامِ فِي الْعِيدِ"
وَيُذْكَرُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ " أَنَّهُ كَانَ إِذَا كَانَ بِمَنْزِلِهِ بِالزَّاوِيَةِ , فَلَمْ يَشْهَدِ الْعِيدَ بِالْبَصْرَةِ , جَمَعَ مَوَالِيَهُ وَوَلَدَهُ , ثُمَّ يَأْمُرُ مَوْلَاهُ عَبْدَ اللهِ بْنَ أَبِي عُتْبَةَ فَيُصَلِّي بِهِمْ كَصَلَاةِ أَهْلِ الْمِصْرِ رَكْعَتَيْنِ، وَيُكَبِّرُ بِهِمْ كَتَكْبِيرِهِمْ "
(السنن الكبرى للبيهقي - باب صلاة العيدين سنة أهل الإسلام حيث كانوا. ١/ ٤٢٧)
بیہقی شریف کی یہ روایت ضعیف ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ اس کی سند میں ایک راوی "نعیم بن حماد" ہیں. ان کے بارے میں أئمہ جرح وتعديل فرماتے ہیں :
قال يحي بن معين: يروى عن غير الثقات [ سير أعلام النبلاء ١٠/٥٩٧]
یعنی : امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں کہ نعیم بن حماد غیرثقہ سے روایت کرتے ہیں.
قال الإمام المحدث صالح جزرة: وكان يحدث من حفظه، ولديه مناكير كثيرة لا يتابع عليها، سمعت يحيى بن معين سئل عنه فقال: ليس في الحديث بشئ، ولكنه صاحب سنة.
یعنی : امام محدث صالح جزرۃ کہتے ہیں کہ نعیم بن حماد اپنی یاد داشت سے حدیثیں کہتے ہیں. ان کے پاس مناکیر یعنی ثقہ راویوں کے خلاف روایات کی کثرت ہے۔ جن کو متابعت کے ذریعے تائید وتقویت نہیں مل سکی ہے۔ میں نے امام یحییٰ بن معین کو کہتے سنا کہ "نعیم بن حماد" فن حدیث میں کوئی چیز نہیں. ہاں، سُنّی ہیں.
وقال الإمام الذهبي: قلت لا يجوز لأحد أن يحتج به، وقد صنف كتاب "الفتن" فأتى به بعجائب ومناكير.[سير أعلام النبلاء،١٠ش/٦٠٩]
امام ذہبی لکھتے ہیں کہ کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ نعیم بن حماد کے ذریعے حجت پکڑے، اس نے "کتاب الفتن" تصنیف کی ہے، جس میں عجیب وغريب باتیں اور ثقہ محدثین کے خلاف روایات لاتا ہے.
قال عنه ابن حجر: صدوق، يخطئ كثيرًا [ تقريب التهذيب لابن حجر~ ٧٢١٥]
یعنی : امام ابن حجر عسقلانی شافعی لکھتے ہیں : بڑے سچے ہیں، مگر حدیث میں بہت خطا کرجاتے ہیں.
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے، اور ضعف "نعیم بن حماد" کی طرف سے آیا ہے۔ جن کے بارے میں ائمۂ کے بعض ارشادات ابھی پیش کیے جاچکے۔ شاید وہابی مکتبِ فکر کے لیے یہ تمام تصریحات ناکافی ہوں، اس لیے اتمام حجت کے لیے انھیں کے مُسَلّم مذہبی پیشوا شیخ ناصرالدین البانی متوفیٰ : 1999ء کی تحقیق پیش کی جاتی ہے. وہ لکھتے ہیں :
رواه (البيهقي) موصولا، من طريق نعيم بن حماد… قلتُ: وھذا سند ضعیف ، فإن نعيم بن حماد ضعیف ؛ لكثرة خطئه. (إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل للألباني ، ٣/١٢٠)
یعنی : شیخ البانی کی تحقیق یہ ہے کہ امام بیہقی نے اس کو نعیم بن حماد کی سند سے موصولاً روایت کیا ہے… میں کہتا ہوں کہ یہ سند ضعیف ہے۔ کیوں کہ نعیم بن حماد روایاتِ حدیث میں کثرت سے خطا کرنے کی بنیاد پر ضعیف ہیں۔
یہی شیخ البانی آگے لکھتے ہیں: كما في رواية نعیم بن حماد ، ولكنه لا يحتج به. کما عرفتَ. [أيضاً ، ص: ١٢١]
یعنی ایسا ہی نعیم بن حماد کی روایت میں ہے. مگر وہ قابل حجت نہیں، اس سبب سے جو کہ آپ جان چکے.
دوسری دلیل پر تنبیہ اور حدیث کی صحیح تفہیم
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اب سلفی فتویٰ میں مذکور دوسری دلیل پر بھی نظر ڈالتے ہیں :
""وَأَمَرَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ مَوْلَاهُمُ ابْنَ أَبِي عُتْبَةَ بِالزَّاوِيَةِ، فَجَمَعَ أَهْلَهُ وَبَنِيهِ وَصَلَّى كَصَلَاةِ أَهْلِ الْمِصْرِ وَتَكْبِيرِهِمْ. (صحیح بخاری مع فتح الباري ٤٧٤/٢) یعنی حضرت انس بن مالک نے اپنے غلام ابن ابی عتبہ کو، ان کے اہل وعیال کو جمع کرنے کا حکم دیا تو انھوں نے ان کو جمع کیا اور ان سب کو شہر کے امام کی طرح نماز پڑھائی ۔
(🌻) سلفی فتویٰ میں مذکورہ روایت اس چالاکی سے پیش کی گئی ہے. گویا بخاری شریف میں ایسی کوئی حدیث صحیح مرفوع، یا حدیث صحیح موقوف موجود ہے. جب کہ اصل معاملہ یہ ہے کہ یہ فقط عنوانِ باب ہے۔ چوں کہ سنن کبری بیہقی کے حوالے سے پہلے ہی یہ معلوم ہوچکا ہے کہ ایسی ایک روایت "سندِ ضعیف" سے مروی ہے، اور بخاری شریف میں "سند صحیح" کے ساتھ روایتوں کی تخریج کا التزام کرنا تھا، اسی لیے امام بخاری نے "باب إذا فاته العيد يصلي ركعتين" کے نام سے ایک باب تو قائم کیا. مگر ایک بھی حدیثِ صحیح مرفوع متصل، یا حدیثِ صحیح موقوف متصل پیش نہ فرمایا۔ اگر "صحیح" یا کم از کم "حسن" درجے کی بھی روایت اس سلسلے میں انھیں مل جاتی تو ضرور درج فرمالیتے . بالآخر دوتابعی حضرت عطا اور حضرت عکرمہ کے اقوال پر باب کا اختتام فرمادیا۔ لہٰذا مذکورہ سلفی فتویٰ میں " صحیح بخاری" کا حوالہ پڑھ کر کسی بھی قسم کے فریب کا شکار نہیں ہوا جاسکتا۔
تیسری دلیل پر تنبیہ اور حدیث کی صحیح تفہیم
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سلفی فتویٰ میں تیسری دلیل یوں درج ہے :
"اسی طرح حضرت عطا رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : إذا فاته العيد صلى ركعتين. (البخاري مع فتح البار٤٧٤/٢) یعنی جب کسی کی نمازِعید (امام کے ساتھ) فوت ہوجائے تو وہ دو رکعت نماز عید ادا کرے۔"
(🌻) اس پر عرض یہ ہے کہ یہ محض ایک تابعی حضرت عطاء بن ابی رباح کا قول ہے. ہم احناف پر حجت نہیں. کہ ہمارے پاس اس کے خلاف صحابی رسول کی حدیث صحیح موجود ہے.
٥٨٠٠ - حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، وَحَفْصٌ، عَنْ حَجَّاجٌ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: «مَنْ فَاتَهُ الْعِيدُ فَلْيُصَلِّ أَرْبَعًا» (مصنف ابن أبي شيبة - کتاب الصلوۃ ، الرجل تفوته الصلاة في العيد كم يصلي، ٢٣٥/٤)
یعنی : صحابئ رسول حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو عید پڑھنے سے رہ جائے وہ چار رکعت پڑھ لے۔
امام شہاب الدین احمد قسطلانی شافعی متوفیٰ : ٩٢٣ھ لکھتے ہیں :
واستدلّ بما روى سعيد بن منصور، بإسناد صحيح عن ابن مسعود من قوله: من فاته العيد مع الإمام فليصل أربعًا. وقال المزني وغيره: إذا فاتته لا يقضيها. وقال الحنفية: لا تقضى، لأن لها شرائط لا يقدر المنفرد على تحصيلها.
{ارشاد الساري لشرح صحيح البخاري ،٦٨٥/ ٢ کتاب العیدین}
یعنی : حضرت عبد اللہ بن مسعود والی روایت سے جو استدلال کیا گیا ہے بواسطۂ سعید بن منصور اس کی اسناد صحیح ہے. حضرت ابن مسعود کا قول ہے : جو نماز عید سے رہ جائے وہ چار رکعت نماز پڑھ لے۔ امام مزنی وغیرہ نے فرمایا کہ عید چھوٹ جائے تو اس کی قضا نہیں. کیوں کہ نماز عید کے ایسے شرائط ہیں کہ تنہا پڑھنے والا ان شرائط کی تحصیل پر قادر نہیں۔
اصولِ حدیث سے ادنیٰ واقفیت رکھنے والے پر یہ مخفی نہیں کہ صحابی رسول اگر کوئی ایسی بات ارشاد فرمائیں جو عقل سے جانی نہ جاسکے اور گزشتہ کتابوں سے بھی نہ کہ رہے ہوں تو وہ مرفوع حکمی کا درجہ رکھتی ہے۔
پھر حضرت عطاء کے قول کو امام بخاری نے حدیث صحیح مرفوع متصل نہ ملنے پر بوجہ مجبوری پیش فرمائی ہے. کیوں کہ ان کے نزدیک ایسی صورت میں اقوالِ رجال کی تقلید درست ہے۔ اور غیرمقلدین کو تقلید سے کیا نسبت؟ ـــــــ فتوی نگار کو کوئی حدیث صحیح پیش کرنی چاہیے تھی.
چوتھی دلیل پر تنبیہ اور حدیث کی صحیح تفہیم
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سلفی فتویٰ میں مذکور چوتھی دلیل یہ ہے: وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ أنه قَالَ: " كَانُوا يَسْتَحِبُّونَ إِذَا فَاتَ الرَّجُلَ الصَّلَاةُ فِي الْعِيدَيْنِ أَنْ يَمْضِيَ إِلَى الْجِبَانِ فَيَصْنَعُ كَمَا يَصْنَعُ الْإِمَامُ "(السنن الکبری ٣٥/٣)
(🌻) اس پر بھی وہی کہنا ہے کہ یہ محض ایک تابعی حضرت ابن سیرین کا قول ہے. ہم احناف پر حجت نہیں. کہ ہمارے پاس اس کے خلاف حدیثِ صحیح یعنی صحابئ رسول حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ کی وہ روایت ہے، جس میں چار رکعت کی صراحت موجود ہے. امام قسطلانی نے "اسناد صحیح" سے اس کا آنا قرار دیا ہے. اور غیرمقلدین کے امام ناصر الدین البانی نے اپنی کتاب "إرواء الغليل" اس روایت کے رجال کا ثقہ ہونا نقل کیا ہے۔
ـــــــ خلاصۂ کلام یہ نکلا کہ ابتدائی دونوں دلیلیں کمزور ہیں. کیوں کہ ان کی بنیاد حدیث ضعیف پر رکھی گئی ہے. اور حدیث ضعیف سے احکام شرعیہ کا ثبوت نہیں ہوسکتا. اور وہ بھی نمازعید الفطر جیسی مہتم بالشان اور شعار اسلام کے قیام کے لیے تو خوب قوی اور مضبوط دلیل کی ضرورت پڑتی ہے، لہذا اس سے استدلال کرتے ہوئے گھروں میں نماز جمعہ وعیدین کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اور بقیہ دونوں روایت تابعی کا قول ہے جس کا صحابی رسول کی حدیث صحیح کے خلاف ہونا بتایا جاچکا۔ لہٰذا ان میں سے کوئی بھی دلیل بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی ۔
اس فتوے کا ایک ناگفتہ بہ پہلو یہ بھی دیکھنے کے لائق ہے کہ "حدیث ضعیف" جس کو خود ان کے شیخ البانی نے ضعیف کہ کر ناقابل احتجاج قرار دیا ہے، پیش کرکے فتویٰ نگار لکھتا ہے :
یہ تمام آثار صحیح ہیں۔ ان آثارِ صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے… الخ
(🌻) افسوس ! سند کا "ضعف" واضح ہوجانے کے بعد بھی روایت کو"صحیح" کہ کر پیش کیا گیا ہے ۔ اب اس کو "فتویٰ نگار کی فریب کاری" کے سوا اور کس چیز کا نام دیا جائے ۔
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
پھر یہ بھی پہلو قابلِ غور ہونا چاہیے کہ جامعہ سلفیہ بنارس جو اہل حدیث مکتبِ فکر کا مرکزی ادارہ ہے، ان کی جانب سے حدیث "ضعیف" سے استدلال کا جرم کیسے صادر ہوگیا. جی ہاں! چونکیے نہیں. "ضعیف حدیث" سے استدلال اہلِ حدیث مکتبِ فکر میں ناقابلِ معافی جرم ہے. اور یہاں جرم بالائے جرم تو یہ ہوگیا کہ اپنے مکتبِ فکر کے پیشوا شیخ ناصرالدین البانی کی بھی صراحت ٹھکرادی گئی اور ضعیف حدیث سے استدلال کرکے لکھ دیا گیا : یہ تمام آثار صحیح ہیں۔ ان آثارِ صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے… الخ
حدیث ضعیف سے استدلال کی کیفیت کے بارے میں مختصر توجیہ یہ ہے کہ "ضعیف" جمہور محدثین کے نزدیک باب ترغیب وتر ہیب اور فضائل میں مقبول ہے، مگر احادیث ضعیفہ کے ساتھ "مسلک اہل حدیث" کا عملی طریقۂ کار جداگانہ ہے؛ کیوں کہ وہ "حدیثِ ضعیف" کو موضوع ومن گھڑت کے خانے میں رکھتے ہیں، پھر یہ معاملہ یہیں تک نہیں، بلکہ مشہور اہلِ حدیث پیشوا شیخ ناصرالدین البانی [متوفیٰ :1999ء] نے تو حدیث ضعیف سے استدلال کو مسلمانوں میں نازل ہونے والی بہت بڑی مصیبت اور فتنہ قرار دیا ہے۔ لکھتے ہیں:
"من المصائب العظمى التي نزلت بالمسلمين من العصور الأولى : إنتشار الأحاديث الضعيفة والموضوعة بينهم، لا أستثني أحدا منهم ،ولو كانوا علماءهم إلا من شاءالله منهم" [ مقدمۂ کتاب: سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة،١ /٤٧ ]
یعنی خطرناک مصیبتوں میں سے ایک بڑی مصیبت جو شروع دور کے مسلمانوں پر نازل ہوئی وہ یہ کہ اہلِ اسلام کے درمیان احادیث ضعیفہ اور موضوعہ پھیل گئیں۔ میں کسی کا بھی استثنا نہیں کررہا ہوں، اگرچہ علماء ہی کیوں نہ ہوں۔ ہاں سوائے ان لوگوں کے، جنھیں اللَّهُ تعالیٰ نے بچالیا۔
مشہور محقق ومحدث شیخ محمد عوامہ لکھتے ہیں :
هذا واضح في إدراج الضعيف مع الموضوع ،والموضوع مع الضعيف ( حکم العمل بالحديث الضعيف، بین النظرية، والتطبيق والدعوى، ص: ١٢)
یعنی : شیخ البانی کی یہ عبارت بالکل واضح ہے کہ وہ ضعیف حدیث کو موضوع اور موضوع کو ضعیف حدیث کے درجے میں رکھتے ہیں۔
اب طبقۂ اہل حدیث سے نسبت رکھنے والے بتائیں کہ آپ کے شیخ البانی تو "حدیث ضعیف" کو بہت بڑی مصیبت قرار دیتے ہیں، پھر "حدیث ضعیف" سے استدلال کرکے آپ مسلمانوں پر کون سی بڑی مصیبت نازل کرنے کے خواہاں ہیں؟
یہ عجوبۂ روزگار تحقیق یہیں پر تام نہیں ہوجاتی بلکہ چلتے چلتے فتویٰ نگار یہ بھی لکھتا ہے : "ماضی قریب کے عظیم محقق ومحدث علامہ محمد ناصر الدين البانی کا بھی یہی عمل تھا."
(🌻) اب یہ معمہ سلفی حضرات مل بیٹھ کر حل کرلیں کہ جب ان کے امام البانی کے نزدیک حدیث ضعیف موضوع کی طرح بہت بڑی مصیبت ہے، ناقابل قبول ہے. تو پھر اسی محقق کا عمل اس پر کیسے ہوگیا۔ یہ تو اپنے آپ میں خود ہی بہت بڑی مصیبت معلوم ہورہی ہے۔
افسوس ! حدیث صحیح کو چھوڑ کر "ضعیف" کا سہارا لیا جاتا ہے. اور پھر "عمل بالحديث" کا نام دے کر طرح طرح کی حیلہ سازیوں کے ذریعے مسلمانوں کو احادیث کریمہ سے دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے. استغفراللہ العظيم. وأتوب إلیہ.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تحریر:
فیضان سرور مصباحی
جامعۃ المدینہ ـــــ نیپال
رکن روشن مستقبل ــ دہلی
٢٩/رمضان المبارک ١٤٤١ھ
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں